Baseerat Online News Portal

زمین کی تقریباً پوری قیمت لینے کے بعد سودا کینسل کرنا

زید نے( پندرہ لاکھ میں) ایک زمین کا سودا کیا اور 12 لاکھ روپے ادا کردیا. اب آٹھ نو مہینے بعد زمین کا سودا کینسل ہو گیا، اب زید جو مشتری ہے بائع سے کہتا ہے کہ آپ نے میرا 12 لاکھ روپیہ آٹھ نو مہینہ استعمال کیا ہے اگر آپ زمین میرے حوالے کر دیتے تو نفع دو گنا ہو جاتا، آپ نے اتنے دن میرا پیسہ استعمال کیا ہے اس لیے مجھے کچھ پیسہ بڑھا کر دیجئے ، اب بائع دو لاکھ روپیہ اضافہ کر کے چودہ لاکھ دے رہا ہے ، تو کیا یہ دو لاکھ لینا جائز ہے یا نہیں؟

بینوا توجروا
بندہ خدا ،ممبئی

الجواب حامدا ومصلیا ومسلماامابعد
سوال میں کچھ باتیں توضیح طلب ہیں۔ مثلا
1.یہ سودا مشتری نے کینسل کیا ہے، یا بائع نے؟ اگر بائع نے کینسل کیا ہے، تو بائع نے مکمل قیمت کی ادائیگی کے لیے کوئی مدت مقرر کی تھی یا نہیں؟
2.پہلے سے ایسا کچھ طے تو نہیں تھا کہ زمین کے سودے کو اتنے مہینوں بعد کینسل کرکے دیئے گیے روپے پراتنی اضافی رقم دی جائے گی؟
خریدوفروخت کے سلسلے میں حکم یہ ہے کہ جب ایجاب وقبول ہوجائے۔تو وہ عقد نافذہوجاتی ہے، (عیب و خیار رؤیت کے علاوہ) کسی کو بغیر دوسرے فریق کی رضامندی کے سوداکینسل کرنے کااختیار نہیں رہتا۔(1)
اورمشتری سودے(مبیع)کا مالک بن جاتا ہے(2)
البتہ بائع کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ قیمت وصول کرنے کے لیے مبیع کو اپنے پاس روکے رکھے(3)
کچھ پیشگی رقم مشتری نے دی اور پھر باقی رقم وقتِ مقررہ تک مشتری نہ اداکرے تو یک طرفہ طور پر عقد کو فسخ کرنے کا اختیار بائع کوہوتا ہے۔ (4)
معاملہ فسخ کرنے کی صورت میں جتنی مقدار میں مشتری سے روپیہ حاصل کرچکا ہے، اتنی
مقدارمیں روپیہ اسے واپس کرنا ضروری ہے۔ (5)
صورت مسئولہ میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مشتری کو قیمت کی ادائیگی کاموقع بائع نے دیا تھا،اسی موقع وفرصت کے لحاظ سے مشتری نے ایک خطیر رقم بائع کودی ہے، اور معاملہ فسخ نہیں کرنا چاہتا ہے۔ لیکن بائع اپنی طرف سے معاملہ کو فسخ کرنا چاہتا ہے۔
اس لیے یہ معاملہ ایک گونا اقالہ کے مشابہ ہوگیا، اور ایک گونہ قرض کے مشابہ ہوگیا ہے۔
اقالہ؛عاقدین کے حق میں فسخ ہوتا ہے اور تیسرے کے حق میں بیعِ جدید ہے۔ لیکن عقار(غیر منقولہ جائیداد) میں سب کے حق میں بیع ہوتا ہے(6)۔ اس سلسلے میں حکم یہ ہے کہ اس میں فریقین کی رضامندی ضروری ہے۔ (7)
اور اس معاملہ میں مشتری کی رضامندی ایسی ہی صورت میں ہوسکتی ہےکہ جو اس کےروپیے سے بائع نے فائدہ اٹھایا اوربائع کے پاس مشتری کے روپیوں کے ویلو (قدر)میں کمی واقع ہوئی ہے،بائع اس کی تلافی کرے(8)
اس نقصان کی تلافی کی وہی صورت مناسب ہے جو سوال میں بیان ہوئی ہے۔ کہ 12لاکھ پر دو لاکھ بڑھاکر چودہ لاکھ واپس کرے۔
اورقرض سے مشابہ ہونے کی وجہ سے سنت یہ ہے کہ پہلے سے طے کیے بغیر جب قرض واپس کیا جائے تو کچھ بڑھا کر دیا جائے، (9)
چونکہ مشتری کے روپیے سے بائع نے فائدہ اٹھایا ہے، اور اس کے روپیوں کی ویلیو بائع کے پاس گھٹی ہے، اس لیےمشتری کو نقصان سے بچاتے ہوئےسنت کےطابق مشتری کو بائع اضافی رقم (دولاکھ روپیے) اداکرے۔تو بہتر ہے۔
یہ اُس وقت ہے کہ جب کہ :سودہ مشتری نے نہ کینسل کیا ہو،اگر مشتری نے سودا کینسل کیا ہے تو وہ صرف دی ہوئی مقدار میں ہی روپیوں کاحقدار ہے،(بائع اپنی طرف سے اضافی رقم دے دے تو اس کا تبرع ہوگا)
نیزاضافی رقم لینے و دینے کے لیے پہلے سے طے نہ کیا گیا ہو۔(کہ اٹھ نو مہینے کے بعد سودہ کینسل کرکے دولاکھ بڑھاکر مشتری کا پیسہ واپس کردیا جائے گاایساپہلے سے طے نہ کیاگیا ہو کیونکہ )اس طرح طے کرنے سے سودی معاملہ ہوکر اضافی رقم لینا یا دینا جائز نہیں ہوگا۔ (10)
(1)”567فاذاحصل الایجاب والقبول، لزم البیع ولاخیار لواحد منھما،الامن عیب اوعدم رؤ یتۃ۔
( مختارات النوازل،ج 3ص245 ایفا)
(2)”562۔ ثم البیع ینعقد بالایجاب والقبول، اذا صدر من اھلہ،۔۔۔ ثم الاثر الثابت فی المحل بھذاللفط۔ یسمی حکماً، وھو ثبوت الملک لکل واحد منھما فیھما۔
(مختارات النوازل،ج 3ص241 ایفا)
(3)”570ولوقبض المشتری المبیع بغیر اذن البائع قبل نقد الثمن فللبائع ان یستردہ من یدہ، (مختارات النوازل، ج 3ص247 ایفا)
(4) لان المشتری لماجحد کان فسخا من جھتہ، اذا فسخ یثبت بہ کما اذا تجاحد، فاذاعزم البائع علی ترک الخصومۃ تم الفسخ بمجرد العزم، وان کان لایثبت الفسخ فقد اقترن بالفعل، وھو امساک الجاریۃ، ونقلھا ومایضاھیہ، لانہ لماتعذر استیفاء الثمن من المشتری فات رضا البائع فیستقل بفسخہ، (بحرالرائق ج7 ص36)
اخراج ابن ابی شیبۃ عن الحکم، فی رجل استری من رجل متاعا،فھلک فی ید البائع قبل ان یقبضہ، قال ان کا قال لہ: خذمتاعک، فلم یأخذہ فھو مال المشتری، وان کان قال: لااوقعہ لک حتی تاتینی بالثمن، فھو من مال البائع، ( المصنف الابن ابی شیبۃ، البیوع والاقضیۃ فی الرجل یشتری المتاع فیھلک فی ید البائع قبل ان یقبضہ المتاع۔ ج10ص529، رقم المسئلة 20537)
(5) عن عمروبن شعیب عن ابیہ عن جدہ ان النبی ﷺ نھی عن العُربان، قال عبداللہ :
قال ابوعبداللہ: ان یشتری الرجل دابۃ بمأۃ دینارفیعطیہ دینارین عُربا،فیقول: ان لم یشتری الدابۃ فالدیناران لک، وقیل: یعنی واللہ اعلم، ( مسند ابن ماجہ، کتاب التجا رات، باب بیع العُربان، ص 509رقم المسئلة 2193، بیروت، مشکاۃ المصابیح، ص248، اعلاء السنن، ج14، ص166، ادارۃ القرآن، کراچی۔)
ویرد العُربان، اذا ترک العقد علی کل حال بالاتفاق، ( بذل المجھودفی سنن ابی داوُد، کتاب الاجارۃ، باب العُربان، ج 11ص221، اعظم گڑھ)
(6) الاقالۃ ھی رفع البیع۔۔۔۔ تتوقف علی قبول الآخر فی المجلس،۔۔۔۔ وانماھی بیع فی حق ثالث ای لو بعد القبضة ل بلفظ الاقالۃ، فلوقبلہ فھی فسخ فی حق الکل فی غیرالعقار، امافی العقار فھی بیع مطلقاً بجوازبیعہ قبل قبضہ۔ الردالمحتارمع الدد المختار ج 7ص 34زکریا)
(7)وشرط صحۃ الاقالۃ رضا المتقائلین۔(ھندیۃ ج 3ص157)
(8) لا تَظْلِمُونَ وَلا تُظْلَمُونَ [البقرة: 279]
(9)” عن عطاء بن يسار، عن أبي رافع، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم استسلف من رجل بكراً، فقدمت عليه إبل من إبل الصدقة، فأمر أبا رافع أن يقضي الرجل بكره، فرجع إليه أبو رافع، فقال: لم أجد فيها إلا خياراً رباعياً، فقال: «أعطه إياه، إن خيار الناس أحسنهم قضاءً»”۔
صحيح مسلم (3/ 1224)
(10) "عن فضالة بن عبيد صاحب النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: ” كل قرض جر منفعة فهو وجه من وجوه الربا”.
(أخرجه البيهقي في الكبرى في«باب كل قرض جر منفعة فهو ربا» (5/ 571) برقم (10933)، ط. دار الكتب العلمية، بيروت، الطبعة: الثالثة، 1424 هـ = 2003م)
"( كلّ قرض جرّ نفعًا حرام) أي إذا كان مشروطًا كما علم مما نقله عن البحر”.
(کتاب البیوع، فصل فی القرض ،مطلب كل قرض جر نفعا حرام (5/ 166)،ط. سعيد،كراچی)
فقط واللہ اعلم بالصواب

کتبہ:محمد اشرف قاسمی
خادم الافتاء:شہرمہدپور، اُجین۔ایم پی۔
18ربیع الاول 1443ء
مطابق25اکتوبر2021ء

[email protected]

تصدیق:
مفتی محمدسلمان ناگوری

ترتیب:
ڈاکٹرمحمداسرائیل قاسمی، آلوٹ، رتلام، ایم پی۔

Comments are closed.