Baseerat Online News Portal

آپ کے شرعی مسائل؟

فقیہ العصرحضرت مولانا خالد سیف اﷲ رحمانی مدظلہ العالی
بانی وناظم المعہدالعالی الاسلامی حیدرآباد ۔ جنرل سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا

قرض ادا نہ کرکے عمرہ کرنا
سوال:- ایک شخص ایک طرف مقروض ہے ، دوسری طرف وہ فرائض وواجبات بھی ان کے مقررہ وقت پر پابندی سے ادا نہیں کرتا ، کیا ایسے شخص کا خود اور اپنی اہلیہ مع والدین عمرہ کو جانا درست ہے ، جب کہ عمرہ ایک نفل عبادت ہے اور پنج وقتہ نمازیں فرض ہیں ۔ (سہیل احمد، گنتکل)
جواب :- اگر وہ شخص عمرہ کرنے کی وجہ سے لوگوں کا قرض ادا نہیں کرسکے گا تو اس پر واجب ہے کہ پہلے لوگوں کا قرض ادا کرے ؛ کیوںکہ قرض کی ادائیگی واجب ہے اور اللہ تعالیٰ کے یہاں اس سلسلہ میں سخت جواب دہی ہے ؛ جب کہ عمرہ کرنا واجب نہیں ہے ، اسی طرح پنج وقتہ نمازوں کو اپنے وقت پر ادا کرنا ضروری ہے اور اس میں کوتاہی گناہ ہے ؛ لیکن ایسا نہیں ہے کہ اگر کوئی شخص نمازوں میں غفلت کرتا ہو تو اس کی وجہ سے اس کا عمرہ درست نہ ہو ؛ کیوںکہ عمرہ ایک مستقل عبادت ہے اور نماز ایک مستقل عبادت ، ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ عمرہ کی برکت سے ان کے اندر نماز کی پابندی پیدا کر دے ۔

سودی قرض پر لئے ہوئے مکان کا کرایہ اور اس میں کرایہ دار کا رہنا
سوال:- زید ایک مکان سودی قرض سے خریدتا ہے ، کیا اس مکان کی خریداری میں دوسروں کا کسی بھی طرح کا تعاون یا اس مکان میں کرایہ سے رہ کر کرایہ دینا اور پھر وہ کرایہ مالک مکان کے حق میں جائز ہوگا ؟ اور پھر ایسا شخص گھر بھراؤنی کی دعوت کرے ، یا گھر خریدنے کی خوشی میں مٹھائی وغیرہ تقسیم کرے تو قبول کیا جاسکتا ہے ؟ (محمد سرور، حمایت نگر)
جواب :- (الف) عام حالات میں سودی قرض کے ذریعہ مکان خرید کرنا جائز نہیں ؛ کیوںکہ جس طرح سود لینا حرام ہے ، اسی طرح سود دینا بھی حرام ہے ؛ البتہ بعض غیر معمولی مجبوری کی صورت میں علماء نے سودی قرض لینے کی اجازت دی ہے ، جو شخص ضرورت مند ہو ، اس کو چاہئے کہ کسی معتبر مفتی کے سامنے اپنی ضروریات اور اپنے حالات رکھے اور پھر وہ جو رائے دے اس پر عمل کرے ، اگر سودی قرض لینا اس کے لئے گنجائش کے دائرہ میں آتا ہو تو اس سلسلہ میں اس کا تعاون کرنا جائز ہوگا ، اگر اس کے حق میں اس کی گنجائش نہ ہو تو ایسے شخص کے لئے اس کا تعاون کرنا ناجائز ہوگا ؛ کیوںکہ گناہ میں تعاون کرنا بھی گناہ ہے ۔
( ب ) اگر سودی قرض کے ذریعہ بھی اس نے مکان حاصل کرلیا ہے تو وہ اس مکان کا مالک ہے اور اس کے لئے اس سے فائدہ اُٹھانا جائز ہے ؛ کیوںکہ خود اس مکان میں سود کی رقم نہیں لگی ہے ؛ لہٰذا اس شخص کا اس مکان میں رہنا ، کرایہ پر لگانا اور کرایہ حاصل کرنا جائز ہے اور دوسرے شخص کا بھی اس کے مکان میں کرایہ دار بننا درست ہے ، نیز کرایہ کی رقم مکان دار کے لئے حلال ہے ۔
( ج ) ایسے شخص کی دعوت یا اس کا تحفہ قبول کرنا بھی درست ہے ؛ کیوںکہ اس دعوت اور تحفہ میں نہ سودی رقم شامل ہے اور نہ سود پر لیا ہوا قرض ؛ البتہ اگر کسی اور وجہ سے اس کی آمدنی حلال نہ ہوتو اس کی دعوت اور تحفہ سے اجتناب کرنا واجب ہے ۔

نماز میں کپڑے درست کرنا
سوال:- کیا کوئی شخص حالت نماز میں رُکوع سے اُٹھتے وقت سجدہ میں جانے سے پہلے اور سجدہ سے اُٹھنے کے بعد اپنی قمیص کا دامن دونوں ہاتھوں سے ٹھیک ٹھاک کرتا ہے ، کیا اس کا یہ عمل اس کی نماز کو فاسد تو نہیں کرتا ؟ (عبدالمقیت، سکندرآباد)
جواب :- نماز کی حالت میں عادتاً ایسا نہیں کرنا چاہئے ؛ کیوںکہ اندیشہ ہے اس کا یہ عمل ’ عمل کثیر ‘ کے دائرہ میں آجائے ، بعض فقہاء نے ایسے عمل کو عمل کثیر کہا ہے ، جس کو دونوں ہاتھوں سے کیا جائے اور مشہور قول یہ ہے کہ جس عمل کو لوگ کثیر سمجھیں یا دیکھ کر یہ خیال ہو کہ یہ شخص نماز میں نہیں ہے تو وہ عمل ، عمل کثیر کہلائے گا :
ویفسدھا کل عمل کثیر لیس من أعمالہا (وتفسیر العمل الکثیر) التفویض إلی رای المصلی ، فإن استکثرہ فکثیر ، وإلا فقلیل ۔ ( شامی : ۲؍۳۸۴)
بظاہر نمازی کا یہ عمل اگر مختصر طورپر ہو تو عمل کثیر کے دائرہ میں نہیں آتا ، اس لئے نماز فاسد تو نہیں ہوگی مگر مکروہ ضرور ہوگی ، جس بھائی سے یہ غلطی ہورہی ہے ، آپ انھیں محبت اور حکمت کے ساتھ اس کے بارے میں توجہ دلادیں ، انشاء اللہ ان کی اصلاح ہوجائے گی اور آپ کو اجر حاصل ہوگا ۔

مؤذن صاحب کا غلط اذان دینا
سوال:- میں جہاں فروکش ہوں ، وہاں کی قریب کی مسجد کے ایک مؤذن صاحب بوقت اذان ’حی علی الفلاح‘ کا اختتام ’’ ق ‘‘ کی آواز پر کرتے ہیں ، اس تعلق سے مسجد کے معتمد انتظامیہ کی توجہ مبذول کی گئی ، جواباً یہ بتایا گیا کہ مائیکرو فون پر اس طرح ہوجاتا ہے ، جب کہ دیگر حضرات جو اسی مسجد سے اذان دیتے ہیں ، ان سے اس قسم کا تلفظ قطعی ادا نہیں کیا جاتا ، اذان میں اس قسم کی ادائیگی کس حد تک مناسب قرار پاتی ہے ۔ (محمد حمزہ، سنتوش نگر)
جواب :- یوں تو اس غلطی کے باوجود اذان درست ہوجاتی ہے :
بخلاف مالو فعل المؤذن فی اذانہ حیث لا تجب الاعادۃ وإن کان خطا ؛ لأن امر الاذان أوسع ، کذا فی الجامع الصغیر ۔( سعایہ : ۲؍۱۵۱ ، حلبی کبیر : ۲۵۹)
لیکن ایک ہے اتفاقی طورپر کسی کا اذان دینا اور اس میں غلطی کا ہوجانا ، اس سے درگذر کیا جانا چاہئے ، اور دوسری صورت یہ ہے کہ ایسا شخص باضابطہ مؤذن ہو اور پانچ وقت کی اذان دینا اس کی ذمہ داری ہو ، ایسے شخص کی مسلسل غلطی کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے ، مسجد کی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ مؤذن صاحب کو اپنی اذان کی اصلاح کا پابند بنائے ، اور اگر وہ اس کے لئے تیار نہ ہوں تو دوسرے مناسب شخص کو مؤذن مقرر کرے ، اس لئے کہ کسی بھی ذمہ داری کو ادا کرنے کے لئے شرعاً بنیادی شرط یہ ہے کہ وہ اس کاا ہل بھی ہو ۔

اگر دُعائے قنوت یاد نہ ہو
سوال:- نماز میں اگر کسی صاحب یا صاحبہ کو دُعائے قنوت یاد نہیں ؛ بلکہ وہ دیگر دُعاؤں کا اہتمام کرتے ہیں تو کیا اس سے نماز ادا ہوگی ؟ ( ہمایوں اختر، سدی پیٹ)
جواب :- جو دُعائے قنوت کتابوں میں لکھی گئی ہیں ، ان کو پڑھنا افضل ہے ؛ لیکن خاص اس دُعا کا پڑھنا ضروری نہیں ہے ، قرآن و حدیث میں منقول کوئی اور دُعا بھی پڑھی جاسکتی ہے :
إن القنوت لیس فیہ دعاء موقت بہ ؛ لانہ روی عن الصحابۃ أدعیہ مختلفۃ ؛ لأن الموقت من الدعاء یذہب برقۃ القلب ۔ ( شامی : ۲؍۲۴۴)
اگر کوئی بڑی دُعا یاد نہ ہو تو مختصر دُعا : ’’ ربنا آتنا فی الدنیا حسنۃ فی الآخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار‘‘ کا پڑھ لینا بھی کافی ہے ، ومن لا یحسن القنوت یقول ربنا آتنا الخ ۔ ( سعایہ : ۲؍۱۳۹)

’’ کانوا فیہ من الزاہدین‘‘ سے مراد
سوال:- سورۂ یوسف میں ارشاد خداوندی ہے : ’’ وَکَانُوْا فِیْہِ مَنَ الزَّاہِدِیْنَ‘‘ از راہ کرم اس آیت پاک کی تشریح کریں ۔ (محمد کوثر، کھمم)
جواب:- زہد کے اصل معنی کم رغبتی کے ہیں ، بطور تعریف کے جو کسی شخص کو زاہد کہا جاتا ہے ، اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ آخرت کی طرف اس قدر متوجہ ہے کہ دنیا کی طرف ان کی رغبت کم ہوگئی ہے ، اس آیت میں بھی یہ لفظ کم رغبت کے معنی میں استعمال ہوا ہے ، یعنی یہ لوگ چوںکہ حضرت یوسف علیہ السلام کے مقام و مرتبہ سے واقف نہیں تھے ، اس لئے ان کی ذات کے سلسلہ میں ان کو زیادہ رغبت نہیں تھی ، یہ بے رغبت لوگ کون تھے ؟ مفسرین نے لکھا ہے کہ اس سلسلہ میں تین باتوں کا احتمال ہے ، ایک یہ کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی مراد ہیں ، یہ ان کی بے رغبتی ہی تھی کہ انھوںنے حضرت یوسف علیہ السلام جیسے مثالی بھائی کو کنویں میں پھینک دیا ، یا اس سے اس قافلہ کے لوگ مراد ہیں ، جنھوںنے حضرت یوسف علیہ السلام کو نکالا تھا ؛ کیوںکہ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے ان سے کہہ دیا تھا کہ یہ ہم لوگوں کا بھاگا ہوا غلام ہے اور بھاگے ہوئے غلام کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ،یا حضرت یوسف کے خریدار مراد ہیں ، جنھوںنے ان کی بہت کم قیمت لگائی تھی ، مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ تینوں ہی باتیں مراد ہوسکتی ہیں ؛ لیکن آخری بات یعنی خریدارانِ یوسف کا بے رغبت ہونا آیت کے مضمون سے زیادہ ہم آہنگ معلوم ہوتا ہے۔( دیکھئے : تفسیر قرطبی : ۹؍۱۰۴ ، تفسیر خازن : ۲؍۵۱۹)

نماز کے بعد دُعا
سوال:- نماز کے ختم ہوتے ہی سلام کے فوراً بعد لوگ بغیر دُعا کئے اُٹھ کر چلے جاتے ہیں ، یہ عمل اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام ث سے ثابت ہے ؟ ایسا دُعا کے بغیر اُٹھ کر چلے جانا صحیح ہے یا نہیں ؟ (فرید احمد، شولاپور)
جواب :- سلام پھیرنے کے ساتھ ہی نماز مکمل ہوجاتی ہے ؛ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’ تحریمہا التکبیر وتحلیلہا التسلیم‘‘ ( سنن ابی داود ، باب فرض الوضو ، حدیث نمبر : ۶۱) یعنی تکبیر کے ذریعہ انسان نماز میں داخل ہوتا ہے اور سلام کے ذریعہ نماز سے باہر آجاتا ہے ، اس لئے اگر کوئی شخص کسی ضرورت کی بناء پر سلام کے بعد چلا جائے اور دُعا نہ کرے تو کوئی حرج نہیں ؛ لیکن نماز کے بعد دُعا کرنا مستحب ہے ، جن مواقع پر دُعا مقبول ہوتی ہے ، ارشاد نبوی کے مطابق ان میں کا ایک موقع نماز کے بعد کا وقت ہے ؛ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز کے بعد مختلف دُعائیں منقول ہیں ، حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓسے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز میں نماز سے فارغ ہونے کے بعد یہ دُعا پڑھتے تھے :
لا الہ اﷲ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد بیدہ الخیر وہو علی کل شییٔ قدیر ، اللّٰہم لا مانع لما أعطیت ولا معطی لما منعت ولا ینفع ذالجد منک الجد ۔ ( مسلم ، باب استحباب الذکر بعد الصلاۃ ، حدیث نمبر : ۱۳۸)
خدائے واحد کے سوا کوئی معبود نہیں ، نہ اس کا کوئی شریک ہے ، کائنات کی سلطنت اسی کی ہے ، اسی کے لئے ساری تعریفیں ہیں ، خیر کی تمام چیزیں اسی کے اختیار میں ہیں اور وہ ہر چیز پر قادر ہے ، اے اللہ ! آپ جس کو عطا فرمائیں اس کو کوئی محروم نہیں کرسکتا ، اور جس کو محروم کردیں ، اُسے کوئی نواز نہیں سکتا اور آپ کی تدبیر کے مقابلہ کسی کوشش کرنے والے کی کوشش کار آمد نہیں ہوسکتی ۔
اُم المومنین حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ آپ ا سلام پھیرنے کے بعد اس دُعا کے بقدر بیٹھا کرتے تھے :
اللّٰہم أنت السلام ومنک السلام تبارکت یا ذالجلال والاکرام ۔
(ترمذی ، باب مایقول إذا سلم ، حدیث نمبر : ۲۹۸)
اے اللہ ! آپ سراپا سلامتی ہیں ، آپ ہی سے سلامتی حاصل ہوسکتی ہے ، آپ کی ذات بابرکت ہے ، اے بلند شان اور عظمت والے !
اُم المومنین حضرت اُم سلمہؓ سے روایت ہے کہ خاص طورپر فجر کی نماز کے بعد آپ یہ دُعا پڑھا کرتے تھے :
اللّٰہم إنی اسئلک علما نافعاً ، وعملاً متقبلاً ، ورزقاً طیباً ۔
( ابن ماجہ ، کتاب عمل الیوم واللیلۃ ، حدیث نمبر : ۹۲۵)
اے اللہ میں آپ سے نفع بخش علم ، مقبول عمل اور پاکیزہ رزق کا سوال کرتا ہوں ۔
اس لئے نماز وں کے بعد دُعا کا اہتمام کرنا چاہئے ، کیا کوئی ایسا انسان بھی ہوسکتا ہے ، جس کو خدا سے مانگنے کی ضرورت نہ ہو ؟ ہاں ، اگر کوئی شخص اپنی کسی ضرورت ، مصروفیت یا تکان کی بناپر سلام کے بعد دُعا کا اہتمام نہ کر پائے ، تو اس پر نکیر نہیں کرنی چاہئے ؛ کیوںکہ نکیر واجب کے چھوڑنے پر ہے نہ کہ مستحب کے چھوڑنے پر ۔(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.