Baseerat Online News Portal

آپ کے شرعی مسائل؟

فقیہ عصرحضرت مولانا خالد سیف اﷲ رحمانی مدظلہ العالی
جنرل سکریٹری :اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا ۔بانی وناظم المعہدالعالی الاسلامی حیدرآباد

اگر وتر کی دوسری رکعت کے بارے میں شک ہوجائے؟
سوال:- اگر وتر کی نماز میں شک ہوجائے کہ یہ دوسری رکعت ہے یا تیسری ؟ اور کسی ایک پہلو پر اطمینان نہ ہوپائے تو اس کے لئے کیا حکم ہے ؟ اسے کس طرح اپنی نماز پوری کرنی چاہئے ؟
(حماد اختر، جالنہ)
جواب :- ایسی صورت میں کم تر عدد کا اعتبار کیا جائے گا ، یعنی اس کو دوسری رکعت تصور کرتے ہوئے مزید ایک رکعت ادا کرے ؛ البتہ چوںکہ وتر میں دُعائِ قنوت بھی ہے ؛ اس لئے وہ اس دوسری رکعت میں بھی دُعاء قنوت پڑھے گا اور قعدہ کرے گا ، پھر تیسری رکعت کے لئے اُٹھے گا تو اس میں بھی قنوت پڑھے گا اور قعدہ اخیرہ کرے گا : لو شک فی الوتر وھو قائم أنھا ثانیۃ أو ثالثۃ یتم تلک الرکعۃ ویقنت فیھا ویقعد ثم یقوم فیصلی أخری ویقنت فیھا أیضا ھو المختار ( فتح القدیر : ۱؍۵۲۰) نیز اس کے ساتھ ساتھ اخیر میں سجدہ سہو کرنا بھی ضروری ہے ؛ کیوںکہ رکعت کی تعداد میں شک کی جو بھی صورت پیش آئے ، اس میں سجدہ سہو واجب ہوتا ہے : ’’ ومما لا ینبغی إغفالہ أنہ یجب سجود السھو فی جمیع صور الشک الخ ‘‘ ۔ (فتاویٰ ہندیہ : ۱؍۱۳۱)

کتنی مدت پر ناخن کاٹا جائے ؟
سوال:- میرا ناخن بہت تیزی سے بڑھتا ہے ، کیا اس سلسلے میں کوئی رہنمائی ہے کہ کتنی مدت پر ناخن کاٹ لینا چاہئے ۔ (بلال احمد، سعید آباد)
جواب :- جب ناخن بڑے ہوجائیں تو ان کو کاٹ لینا چاہئے ؛ کیوںکہ اس میں گندگی جم جاتی ہے ؛ لیکن مختلف لوگوں میں جسمانی نموکی صلاحیت الگ الگ ہوتی ہے ؛ اس لئے اس کی کوئی ایک حتمی مدت مقرر نہیں کی جاسکتی ؛ البتہ شریعت کے مزاج کو سامنے رکھتے ہوئے فقہاء نے لکھا ہے کہ بہتر ہے کہ ہر ہفتہ ناخن کاٹ لے ، مونچھیں تراش لے ، زیر ناف بالوں کی صفائی کرلے اور غسل واجب نہ ہو تب بھی صفائی ستھرائی کے لئے غسل کرلے ، یہ سب سے بہتر ہے ، اوسط درجہ یہ ہے کہ پندرہ دن میں ان کاموں کو انجام دے ، آخری حد چالیس دنوں کی ہے ، اس سے تاخیر مکروہ ہے: الافضل ان یقلم أظفارہ ویقص شاربہ ویحلق عانتہ وینظف بدنہ بالاغتسال فی کل أسبوع وإلا ففی کل خمسۃ عشر یوماً ولا عذر فی ترکہ وراء الأربعین ویستحق الوعید فالأول أفضل والثانی الأوسط والأربعون الأبعد (ردالمحتار : ۲؍۱۸۱)

آپریشن سے ولادت کے بعد آنے والا خون
سوال:- ایک خاتون کی آپریشن کے ذریعہ ولادت ہوئی ، نارمل طریقے پر نہیں ہوئی ، اب اگر اس کو خون آئے تو کیا یہ اسی خون کی طرح ہوگا ، جو فطری راستہ سے بچہ کی پیدائش کی بناپر آتا ہے ؟
(فرزانہ، کوکٹ پلی)
جواب :- بچہ کو چاہے آپریشن کے ذریعہ نکالا گیا ہو یا فطری راستہ سے باہر نہیں نکلا ہو ؛ لیکن اس کے بعد رحم ہی کا خون ہے ، جو فطری راہ سے باہر آتا ہے ؛ اس لئے اس کا حکم نفاس ہی کا ہوگا ، ولادت کے بعد آنے والے خون کے جو احکام نماز ، روزہ وغیرہ کے بارے میں ہوتے ہیں ، وہی اس کے بھی ہوں گے ، فقہاء کے یہاں اس کی بعض نظیریں بھی ملتی ہیں : فلو ولدتہ من سُرتھا إن سال الدم من الرحم نفساء وإلا فذات جرح وان ثبت لہ أحکام الولد(عقب ولد) (الدرالمختار : ۱؍۴۵)

اگر ایک راستہ سے مسافت پوری ہوجائے اور دوسرے راستہ سے نہ ہو؟
سوال:- اگر ایک جگہ جانے کے دو راستے ہوں ، ایک راستہ مسافت سفر سے زیادہ کا ہو ، اور ایک اس سے کم کا ہو ، تو ایسی جگہ وہ شخص مسافر سمجھا جائے گا یا نہیں ؟ (جمال الدین، محبوب نگر)
جواب :- اگر ایک جگہ جانے کے لئے دو راستے ہوں ، ایک کی مسافت طویل ہو اور دوسرے کی مختصر ، تو جس راستے سے سفر کیا جائے ، اس کی مسافت کا اعتبار ہوگا ، اگر مسافت سفر کو پورا کرنے والے راستے سے سفر کیا تو راستہ میں بھی اور وہاں پہنچ کر بھی قصر کرے گا ، اور اگر قریبی راستہ سے سفر کیا تو راستہ میں بھی اور منزل پر پہنچ کر بھی چار رکعت والی نماز کو چار رکعت ہی ادا کرے گا : …لہ طریقان ؛ وأحدھما : مسیرۃ یوم ، والآخر مسیرۃ ثلا ثۃ أیام ولیالیھا ، إن أخذ فی الطریق الذی مسیرۃ یوم لا یقصر الصلاۃ ، وإن أخذ فی الطریق الذی ھو مسیرۃ ثلا ثۃ أیام ولیالیھا قصر الصلاۃ (المحیط البرہانی ، الفصل الثانی والعشرون فی صلاۃ السفر : ۲؍۲۳)

وعظ کے درمیان سلام
سوال:- اگر کوئی صاحب وعظ کہہ رہے ہوں اور درمیان میں کوئی شخص آئے تو اسے سلام کرنا چاہئے یا نہیں ، اور اگر سلام کردے تو کیا اس کے لئے جواب دینا واجب ہوگا ؟ (شریف الحسن، سنتوش نگر)
جواب :- آدمی جب کسی ایسے کام میں مشغول ہو کہ جس میں سلام کی وجہ سے خلل پیدا ہوسکتا ہوتو سلام نہیں کرنا چاہئے ، جیسے کوئی شخص قرآن کی تلاوت میں مشغول ہو ، علمی مذاکرہ میں مصروف ہو ، جس میں تقریر بھی شامل ہے ، یا اذان دے رہا ہو ، دُعا کررہا ہو تو ایسے شخص کو سلام نہیں کیا جائے — اور اگر سلام کردیا جائے تو جواب دینا واجب نہیں : ویکرہ السلام عند قرأۃ القرآن جھراً وکذا عند مذاکرۃ العلم وعند الآذان والإقامۃ والصحیح أنہ لا یرد فی ھذہ المواضع أیضاً (الفتاویٰ الہندیہ : ۵؍۳۲۵) علامہ شامیؒ نے اس کی اور بھی صورتیں ذکر کی ہیں ، جن میں سلام کا جواب دینا ضروری نہیں ہے ، یا جواب دینا بہتر نہیں ہے ، ( دیکھئے : ردالمحتار : ۱؍۶۱۸) — لہٰذا جب کوئی شخص بیان کرتا رہے تو آنے والوں کو اس وقت سلام نہیں کرنا چاہئے ، ایک تو اس سے بیان کرنے والے کو خلل ہوتا ہے ، دوسرے سامعین کو بھی خلل پیدا ہوتا ہے ۔

طالبات کا مرد اساتذہ سے سوال کرنا
سوال:- لڑکیوں کے بیش تر مدارس میں مرد اساتذہ بھی رہتے ہیں ، اور یہی زیادہ تر اونچی کتابیں پڑھاتے ہیں ، کیا طالبات ان سے سوال کرسکتی ہیں ؟ (درخشان نگار، ہمایوں نگر)
جواب :- چہرہ کے بشمول جسم کا ستر تو اجنبی اور غیر محرم سے ہر صورت میں واجب ہے ؛ لیکن آواز کا ستر اس موقع پر ہے ، جب فتنے کا اندیشہ ہو ؛ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عورتیں سوالات کیا کرتی تھیں ، خلفاء راشدین کے زمانے میں بھی عورتوں کا سوال کرنا ثابت ہے ، حضرت عائشہؓ سے صحابہ اور تابعین مسائل دریافت کرتے تھے ، پھر بعض دفعہ دینی ضرورت کے تحت سوال کرنا پڑتا ہے اور بعض اوقات علاج یا کسی اوردنیوی ضرورت کے لئے بات کرنی ہوتی ہے ، اور شریعت میں ضرورت کی رعایت ہے ؛ اس لئے عورت کا غیر محرم سے بات کرنا دو صورتوں میں درست نہیں ہے ، ایک : جب فتنہ کا اندیشہ ہو ، دوسرے : جب گفتگو بلا ضرورت ہو ، اور یہ بھی ضروری ہے کہ اگر گفتگو کرنی پڑے تو بھی گفتگو میں ایسا لوچ نہ ہو کہ مخاطب کے دل میں ہوس پیدا ہوجائے ؛ لہٰذا دینی مدارس میں طالبات کا استاذ سے سوال کرنا ، کسی عورت کا کسی عالم سے مسئلہ دریافت کرنا ، قاضی کے سامنے اپنی صورت حال پیش کرنا ایک ضرورت ہے ؛ لہٰذا ان صورتوں میں حسب ِضرورت پردہ کے ساتھ عورت کا اجنبی مرد سے گفتگو کرنا جائز ہے ۔

قرآن مجید کو چومنا
سوال:- بعض لوگ جب بھی قرآن مجید کھولتے ہیں تو اس کو بوسہ دیتے ہیں ، یہ چومنا درست ہے یابدعت ہے ، کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی ایسا ہوا کرتا تھا ؟(محمد صادق، حمایت نگر)
جواب :- قرآن مجید کو چومنے کا مقصد قرآن سے محبت کا اظہار اور توقیر و احترام ہے ، احترام کی بعض شکلیں واجب ہیں اور بعض بہتر ؛ اس لئے جذبہ محبت سے قرآن کو چومنا اگرچہ ضروری نہیں ہے ؛ لیکن بہتر عمل ہے ، حضرت عمرؓ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ روزانہ قرآن مجید کو اپنے ہاتھ میں لیتے اور چومتے تھے اور فرماتے تھے : یہ میرے رب کا عہد نامہ اور منشور ہے ، حضرت عثمان غنیؓ کے بارے میں بھی منقول ہے کہ وہ قرآن کو چومتے تھے اور اس کو اپنے چہرے پر پھیرتے تھے ، ( الدرالمختار : ۱؍۶۶۵) اسی طرح ابوجہل کے بیٹے حضرت عکرمہؓ جو فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئے اور بہتر مسلمان ثابت ہوئے ، ان کے بارے میں بھی مروی ہے کہ وہ قرآن کو اپنے چہرے پر رکھ کر روتے تھے اور کہتے جاتے تھے : یہ میرے رب کا کلام ہے ، یہ میرے رب کی کتاب ہے ، ( مستدرک حاکم : ۳؍۲۴۳) — اور جو عمل عہد صحابہ میں ثابت ہو اس کو بدعت نہیں کہا جاسکتا ۔

اُدھار سامان زیادہ قیمت میں فروخت کرنا
سوال:- ایک سامان بازار میں مثلاً دس روپے میں ملتا ہے ؛ لیکن زید پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے اُدھار خریدتا ہے اور بیچنے والا اس کو یہ سامان بہ مقابلہ نقد کے زیادہ قیمت میں بیچتا ہے تو کیا بیچنے والے کا یہ عمل درست ہے ؟ ( مصباح الدین، سکندرآباد)
جواب :- کسی سامان کی نقد اور اُدھار قیمت میں فرق کرنا درست ہے ؛ البتہ یہ نہ ہونا چاہئے کہ ضرورت مند کا استحصال کرتے ہوئے بہت زیادہ قیمت لگادی جائے ، بازار میں اس سامان کو اُدھار بیچنے کی جو زیادہ سے زیادہ قیمت ہوسکتی ہے ، اس سے بھی زیادہ قیمت لگادی جائے تویہ مکروہ ہے ، اگرچہ خرید و فروخت کا معاملہ درست ہوجائے گا ؛ لیکن اخلاق و مروت کے خلاف ہوگا ، اس کو حدیث میں ’بیع مضطر ‘سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ ( دیکھئے اعلاء السنن : ۱۴؍۲۰۵)

منبر کی نئی وضع
سوال:- ہماری مسجد میں منبر عرب ممالک کی مساجد کی طرح بنایا گیا ہے، یعنی اس کی سیڑھیاں محراب کے اندر سے ہیں، سیڑھیاں ختم ہونے کے بعد ایک اسٹیج ہے، جس میں مصلیوں کی جانب ایک محراب نما کمان ہے، امام ان سیڑھیوں سے ہو کر اس دریچہ میں جا کر کھڑا ہوتا ہے، اور اس میں خطبہ دیتا ہے، جب کہ عام مساجد میں جو محراب ہے اس کی نوعیت الگ ہے، کیا مذکورہ منبر خلافِ سنت تو نہیں ہے؟ (جمال اختر، حشمت پیٹ)
جواب: منبر کا مقصد یہ ہے کہ خطیب کی جگہ اونچی ہو؛ تاکہ سامعین سے خطاب کرنے میں سہولت ہو؛ اسی لئے جب تک منبر نہیں بنا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کے ایک تنے کے سہارے کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منبر مبارک بنا تو وہ تین سیڑھیوں پر مشتمل تھا، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی روایت میں یہ پوری تفصیل موجود ہے، (مجمع الزوائد: ۱؍۴۰۱) پھر مختلف ادوار میں منبر کی شکلیں بدلتی رہیں، اُس دور میں سلف صالحین موجود تھے؛ لیکن تبدیل شدہ وضع پر ان کا معترض ہونا منقول نہیں؛ اس لئے منبر کی مذکورہ شکل بھی جائز ہے؛ البتہ بہتر اور سنت سے قریب وہ صورت ہے جو ہندوستان میں عام طور پر مروج ہے، جس میں منبر تین سیڑھیوں کا ہوتا ہے، اور خطیب سامنے سے منبر پر چڑھتا ہے۔

طویل نماز اور خطبہ مختصر
سوال:- جمعہ کے دن خطبہ طویل اور نماز مختصر ہونی چاہئے، یا خطبہ مختصر اور نماز طویل، نیز یہ بھی وضاحت کریں کہ جمعہ کے بعد دعاء مختصر ہونی چاہئے یا طویل؟ (دلاور حسین، گچی باؤلی)
جواب: حضرت واصل بن حبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ نماز کا طویل ہونا اور خطبہ کا مختصر ہونا فہم دین کے علامت ہے؛ لہٰذا نماز طویل پڑھو اور خطبہ مختصر دو، (مسلم، حدیث نمبر: ۲۰۰۹) اسی حدیث کی روشنی میں فقہاء نے بھی جمعہ کے خطبہ کو بہ مقابلہ نماز کے مختصر رکھنے کو کہا ہے، (بدائع الصنائع: ۱؍۵۹۲) اس لئے خطبہ بہ مقابلہ نماز کے مختصر ہونا چاہئے اور نماز جمعہ نسبتاََ طویل؛ لیکن اتنی طویل بھی نہیں کہ لوگ اُکتا جائیں اور دشواری میں مبتلا ہو جائیں، جن نمازوں کے بعد سنتیں ہیں، ان میں دعاء مختصر کرنی چاہئے؛ چوں کہ جمعہ کے بعد بھی سنت ادا کی جاتی ہے؛ اس لئے اس موقع پر بھی مختصر دعاء کرنی چاہئے۔
(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.