Baseerat Online News Portal

مسجد کے لیے وقف زمین کوبیچنا، زکوۃ کی حیلۂ ملیک کی ممانعت

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال1۔ یہ ہے کہ ایک شخص نے مسجدمیں اپنی زمین وقف کی اور پھر کچھ عرصہ بعد اس وقف شدہ زمین کو بینچ دیا اور جس نے اس زمین کو خریدا ہے اس نے اس پراپنا گھر بنالیا تو اس طریقے سے معاملہ کرنا درست ہے کہ نہیں ؟
2.زکات وصدقات کے مال کو تملیک کرکے مسجد میں لگانا درست ہے یا نہیں ؟
3.مسجد کی وقف شدہ زمین پر مدرسہ بنانا درست ہے یا نہیں۔
4.مسجد کی وقف شدہ زمین کو بیچ کر اس کا پیسہ دوسری مسجد میں لگانا درست ہے یا نہیں؟

حافظ محمدصادق پٹیل
اُجین۔ ایم پی

الجواب حامدا ومصلیا ومسلما امابعد

1.اس کی دوصورتیں ہیں:
اول:مسجد میں زمین وقف کرنے کے بعد اس کو الگ کردیا اور پھر متولی کے انتظام میں دےدیا تو وقف لازم ہے، ایسی صورت میں واقف کے لیے اس موقوفہ زمین کو فروخت کرناجائز نہیں ہے۔(1)
ایسی صورت میں سودہ کو رد(Cancel) کرایا جائے اگر سودہ کینسل نہیں ہوسکتا ہے تو اس زمین سے حاصل شدہ پوری قیمت کو مسجد میں دینا ضروری ہے۔
دوم: دوسری یہ ہے کہ :
اگر صرف زبان سے بولا، اور زمین کو الگ کرکے اس پر متولی کواختیارنہیں دیاتو وقف لازم نہیں ہوا،ایسی صورت میں فروختگی درست ہے(2)
اوراس زمین سے حاصل روپیہ کو مسجد میں دینا ضروری نہیں ہے۔

2.عام حالات میں زکوۃ اور صدقات واجبہ کو مسجد میں استعمال کرنے کے لیے تملیک کرنا جائز نہیں ہے۔
ایک استفتاء جس میں سوال ہے کہ:
” زکوۃ کا پیسہ مسجد میں کس صورت میں لگایا جاسکتا ہے؟ ”
اس کے جواب میں فتاوی محمودیہ(ج 9ص570 ڈھابیل)کے حوالے سے حضرت مفتی محمد سلمان صاحب منصورپوری تحریر فرماتے ہیں کہ:
"مسجد میں زکوۃ کا روپیہ لگانے کی کوئی صورت نہیں ہے” (کتاب النوازل، ج 7ص205،مفتی محمد سلمان منصور پوری، مکتبہ جاوید، دیوبند،2015ء)
دوسری جگہ اسی طرح کے ایک استفتاء کے جواب میں لکھتے ہیں کہ:
"زکوۃ، صدقات اور چرم قربانی کی رقم مسجد یا مدرسہ کی تعمیر میں صرف نہیں کی جاسکتی ہے، اور اس مقصد کے لیے مروجہ حیلۂ تملیک بھی جائز نہیں ہے۔”(کتاب النوازل، ج 7ص202) (3)
3.مسجد کے لیے وقف شدہ زمین پر اسی مسجد کمیٹی کے انتظام میں مدرسہ بنانا جائز ہے.(4)
4.اگرمسجد کو ضرورت نہیں ہے اور نہ آئندہ ضرورت پیش آنے کا کوئی قرینہ ہے، تو اس کی موقوفہ زمین کو فروخت کرکے اس کا روپیہ دوسری مسجد میں لگایاجاسکتاہے۔(5)
(1) فی الدرالمختار:
فاذا تم ولزم لایملک ولایُملّک ولایُعار ولایُرھن
وفی الردالمحتار:
قولہ:لایملک؛ ای لایکون مملوکا لصاحبہ. ولایُملَّک؛ ای لایقبل التملیک لغیرہ بالبیع ونحوہ،لااستحالۃ تملیک الخارج عن ملکہ( الردالمحتار مع الدرالمختار ج 6ص 539زکریا)
لم یجز بیعہ ولا تملیکہ ھو باجماع الفقہاء۔۔..۔ (فتح القدیر، کتاب الوقف، ج6 ص220 مصر)
وعندھما حبس العین علی حکم ملک اللہ تعالی علی وجہ تعودمنفعتہ الی العباد، فیلزم ولایباع ولایوھب ولایورث، کذا فی البدایۃ ( الفتاوی الھندیۃ ج2ص350 زکریا)
(2) ولایتم الوقف حتی یقبض لم یقل للمتولی؛ لان تسلیم کل شیء بمایلیق بہ، فری المسجد بافراز وفی غیرہ بنصب المتولی وبتسلیمہ ایاہ ویفرز. (تنویرالایصار مع الدرالمختار ج 4ص 348،بیروت)
والملک یزول عن الموقوف باربعۃ بافراز مسجد۔۔ الخ( الردالمحتار مع الدرالمختار ج 6ص 350زکریا)

(3) عن الثوری قال: لایعطی زکوۃ مالہ۔۔۔ فی کفن میت ولادین میت ولابناء مسجد….الخ
(المصنف لعبدالرزاق ج 4ص112 برقم الحدیث،7163)
ولایصرف الی بناء نحومسجد کبناء القناطیر والسقایات، واصلاح الطرقات وکری الانھار، والحج والجھاد، وکل مالا تملیک فیہ۔ (الردالمحتارج3 ص191 زکریا)
(3) ویبدا من غلتہ بعمارتہ ثم ما ھو اقرب لعمارتہ کامام مسجد ومدرس مدرسۃ یعطون کفایتھم.(الدرالمختار، کتاب الوقف ج6 ص 559زکریا)
(5)وکذا الرباط والبئر اذا لم ینتفع بھما، فیصرف وقف المسجد و الرباط والبئر والحوض الی اقرب مسجد او رباط او بئراوحوض الیہ۔(الردالمحتار مع الدر المختار ج 6؍ ص 549۔زکریا)

فقط
واللہ اعلم بالصواب
*کتبہ:(مفتی)محمداشرف قاسمی*
خادم الافتاء: شہرمہدپور ضلع:اجین(ایم پی)
[email protected]
8جمادی الثانی1443ھ،
12جنوری2022ء

تصدیق:
مفتی محمد سلمان ناگوری۔
مہد پور، اجین،ایم پی۔

ناقل:
ڈاکٹرمحمداسرائیل قاسمی
آلوٹ، رتلام، ایم پی۔

Comments are closed.