Baseerat Online News Portal

بیوی،ایک بیٹی، تین بیٹوں کے درمیان تقسیم وراثت

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین مسلہ ذیل کے بارے میں:

زیدکا انتقال ہو گیا،اس نے تین لڑکے ایک لڑکی اور بیوی کو چھوڑا ہے، مکان تین جگہ ہے ایک آبائی مکان ہے اور دومکان علیحدہ علیحدہ ہے، جس میں دو بچے زید کی موجودگی میں رہنے لگے تھے اس کے علاوہ چھ دوکانیں اورہیں، پانچ دوکانیں معمولی کرایہ پر ہیں،ایک دوکان ایسی ہے جو زید کے بچوں کے قبضے میں ہے اسی سے سب کا خرچ چل رہا ہے۔ اب وراثت تقسیم کرنی ہے تو وراثت کیسے تقسیم ھوگی؟ کس کو کتناملےگا؟ کتاب وسنت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔والسلام
محمداطہر،پان منڈی،صدرِ بازار،دھلی

الجواب حامدا مصلیا ومسلما امابعد
بشرط صحتِ سوال،بعد ادائے حقوق متقدمہ علی الارث( قرض اوراگر کوئی جائز وصیت کی ہوتو ترکہ کے تہائی سے ادا ئیگی) کے بعد جملہ ترکہ کو 8 حصوں میں تقسیم کریں گے، متروکہ سے ثمن یعنی ایک حصہ بیوی کو ملے گا(1)
اور لڑکی کے مقابلے ہر لڑکے لڑکوں دوگنا یعنی دو دوحصے ملیں گے۔ لڑکی کو ایک حصہ ملے گا۔(2)
آبائی مکان کے علاوہ دوسرے دو مکانات جن میں دوبچے زید کی زندگی سے رہتے ہیں، اگر زید نے وہ مکانات صرف انتظامی لحاظ سے دیا ہے، اور بچوں کو ان کا مالک نہیں بنایا تھا، تو اس میں بھی اسی طرح تینوں لڑکوں اور ایک لڑکی وبیوی کےحصے ہوں گے۔
اور اگر مالک بنا دیا تھا، تو چونکہ زید کی زندگی میں دونوں بچے ان مکانات پر قابض ہوگئے تھے، اس لیے ان دونوں مکانات میں وراثت نہیں جاری ہوگی بلکہ ان مکانات کے مالک وہی دونوں لڑکے ہوں گے۔اور صرف آبائی مکان میں وراثت کا قانون جاری ہوگا۔
لیکن قرائین ایسے ہیں کہ تینوں مکانات کو تینوں بچوں کے درمیان زید نے اپنی زندگی میں تقسیم کرکے دے دیا ہے، اگرایسا ہے، تو تینوں مکانات کے وہی بچے مالک ہیں جن میں وہ رہتے ہیں(3)
اس لیے تینوں مکانات میں وراثت کا قانون نہیں جاری ہوگا۔
پانچ دوکانیں اوران کا کرایہ آٹھ حصوں میں تقسیم ہو کر ایک ایک حصہ بیٹی وبیوی کو اور دو دوحصے تینوں لڑکوں کوملیں گے۔
اورچھٹی دوکان میں بھی ایسی ہی تقسیم ہوگی،اور اس کی بھرتی(Investment) میں
اگر والد کاسرمایہ لگا ہوا ہے، تو بھرتی وآمدنی میں بھی آٹھ حصے ہوں گے اور اسی طرح تقسیم ہوگی۔ (4)
اور اگر بھرتی میں لڑکوں نے اپنا سرمایہ لگایا ہے تو اپنے سرمایہ کے بقدر سرمایہ اور آمدنی میں حصوں کے حقدار ہوں گے۔
(1)وَ لَہُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکۡتُمۡ اِنۡ لَّمۡ یَکُنۡ لَّکُمۡ وَلَدٌ ۚ فَاِنۡ کَانَ لَکُمۡ وَلَدٌ فَلَہُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَکۡتُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِوَصِیَّۃٍ تُوۡصُوۡنَ بِہَاۤ اَوۡ دَیۡنٍ (ؕالنساء آیت 12)
(2) لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ ٱلْأُنثَيَيْنِ (نساءآیت11)
(3) عن الثوری عن منصور عن ابراھیم قال:الھبۃ لاتجوز حتی تقبض.(مصنف عبدالرزاق: ج9 ص107)۔
وحجتنا فی ذالک ماروی عن النبی ﷺ:لاتجوز الھبۃ، معناہ لایثبت الحکم وھوالملک. (المبسوط لسرخسی: ج 12ص57)
اقول الاثار المذکورۃ تدل علی ان الھبۃ لایصح الا مقبوضۃ، والدلالۃ ظاھرۃ لاتحتاج الی التقریر، (اعلاء السنن: ج16، ص71)
(4) مطلب: اجتمعا في دار واحدة واكتسبا ولا يعلم التفاوت فهو بينهما بالسوية [تنبيه] يؤخذ من هذا ما أفتى به في الخيرية في زوج امرأة وابنها اجتمعا في دار واحدة وأخذ كل منهما يكتسب على حدة ويجمعان كسبهما ولا يعلم التفاوت ولا التساوي ولا التمييز.
فأجاب بأنه بينهما سوية، وكذا لو اجتمع إخوة يعملون في تركة أبيهم ونما المال فهو بينهم سوية، ولو اختلفوا في العمل والرأي اهـ(الدر المختار وحاشية ابن عابدين علی د المحتار ،ج4/ص 325)
فقط
واللہ اعلم بالصواب

کتبہ:محمداشرف قاسمی،
خادم الافتاء: شہر مہدپور، اُجین،(ایم پی)
19جمادی الاخر1443ھ
مطابق23جنوری2022ء

[email protected]
تصدیق:
مفتی محمد سلمان ناگوری۔

ترتیب: ڈاکٹر محمد اسرائیل قاسمی۔ آلوٹ رتلام، ایم پی۔

Comments are closed.