Baseerat Online News Portal

پاؤں رکھنے کا ارادہ ہے کیا انگار میں اب(غزل)

غزل

پاؤں رکھنے کا ارادہ ہے کیا انگار میں اب
وہ جلن خور سقم ڈھونڈے گا اشعار میں اب

حوصلے پست نظر آئے معالج کے مجھے
کیسے امید نظر آئے گی بیمار میں اب

وہ انا دار سا لہجہ بھی نہیں ہے باقی
وہ کڑک پن بھی نہیں آپ کی دستار میں اب

جن کو جانا ہے چلےجاءیں خوشامد کرنے
میں گیٔ تھی نہ کبھی جاوں گی دربار میں اب…

حسن آوارگیٔ شہر کا قائل نہ رہا
کویٔ یوسف ہی نہیں ہے بھرے بازار میں اب

صبح کی چائے کا اک ساتھ ہی کافی ہے مجھے
کب سکوں بخش خبر ملتی ہے اخبار میں اب

اب تو خوشبو جی کنارے ہی ڈبو دیتے ہیں.
کویٔ کشتی بھی نہیں ڈوبتی مجھدھار میں اب

خوشبو پروین قریشی
پی ایچ ڈی،اردو،یونی ورسٹی آف دہلی

Comments are closed.