Baseerat Online News Portal

یہ کیسا بھارت تشکیل دے رہے ہیں ہم ؟ 

 

 

نور اللہ نور

 

حجاب کو لیکر جس طرح واویلا مچایا گیا اور غیر موزوں بحث کو اچھالا گیا وہ ایک شرمناک اور غیر آئینی قدم ہے۔

اس واقعہ نے جس طرح ہندوستان کی فضا کو گدلا کیا اس کا زہر بہت سارے علاقوں میں مختلف واقعات کے شکل میں رونما ہوا۔ یوں تو حجاب کی مخالفت میں بہت سے غیر آئینی اور خلاف انسانیت عمل وجود پذیر ہوئے مگر اس دوران دو ایسے واقعے بھی رونما ہوئے جس نے ہندوستان کی جمہوریت کو برہنہ کردیا ، جس نے ہندوستانی کلچر کو مجروح کیا ، انسانیت کو شرمسار کیا۔

پہلا واقعہ یہ ہیکہ وہ بچیاں جو حجاب کی موافقت میں کالج کی انتظامیہ اور سنگھی لوگوں سے بر سر پیکار تھی کیرالا کے ایک بی جے پی لیڈر نے ان بچیوں کی تفصیلات نکال کر عام کردیا جو ان کی پرائیویسی سے متعلق تھا، اور اس نے یہیں پر بس نہیں کیا بلکہ ان کے نمبرات اوباش لڑکوں کو دے دیا کہ وہ ان کو ٹارچر کریں ان کو خوف و ہراس میں مبتلا کرے اور ان کو رسوا کرے۔

دوسرا واقعہ گذشتہ کل یا پرسوں کا ہے ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں ایک معصوم بچی اسکارف پہن کر اسکول گئی تو اسکول کی ٹیچر اس سے کہتی ہے کہ "تم اپنا اسکارف اتارو! ” اس نے اتارنے سے انکار کیا تو وہاں موجود ایک رپوٹر کہتا ہے کہ اگر یہ نہیں اتارے گی تو ہم اتاریں گے جس سے بچی خوف زدہ ہوکر بھاگی اور وہ کم ظرف اس بچی کے پیچھے لپکا۔

یہ دو واقعے ایسے جو ہندوستان کی تہذیب ، اس کے کلچر اور جمہوریت پر وار کر رہے ہیں اور یوں گویا ہیں کہ پرانا ہندوستان ایک خواب ہوچکا ہے اور ہم ایک متعصب، نفرتی اور ذہنی غلامی کے شکار ہندوستان میں آچکے ہیں۔

سوال یہ ہیکہ ایک تو حجاب پر بندش ہی غیر آئینی ہے اس پر یہ مذموم حرکت ، آخر ہمارا یہ نفرتی معاشرہ کیا چاہتا ہے ؟ جہاں ہم” بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ” کا نعرہ لگاتے ہیں وہاں بیٹیوں کے ساتھ ایسا گھٹیا رویہ اختیار کیوں کیا جا رہا ہے؟ ہندوستان میں پردہ جب کہ مسلمہ حیثیت رکھتا ہے جہاں ” گھونگھٹ” آنچل” کا تصور ہو جہاں عورتیں بھگوان کا روپ ہوتی ہو وہاں آخر بچیوں کو برہنہ کرنے کی ضد کیوں کی جا رہی؟

قانون جب ہر ایک کو مساوی حقوق فراہم کرتا ہے اور مذہبی آزادی آئینی مسودے کا اہم جز ہے تو مذہبی عناد کی بنا پر کسی کو تعلیم سے روکنا کہاں تک معقول بات ہے؟ جس دیش میں عدم تشدد کا سبق اور پاٹھ پڑھایا گیا ہو وہاں مذہبی دشمنی میں تشدد پر آمادہ ہونا کیا درست ہے؟ یا یہ کہ مساوات و اخوت کا پرندہ عنقا ہو چکا ہے؟

بچیوں کی تعلیم پر بندش، لوگوں کی نجی زندگی میں مداخلت، رہائش خورد و نوش پر گرفت، عبادت گاہ پر سیاست ، معصوموں کے ہاتھ میں لاٹھی ڈنڈے، خواتین کی بے عزتی اور توہین آخر ہم یہ کس کا کلچر اختیار کر رہے ہیں؟

ہمیں اپنی ثقافت پر ناز ہے ، ہمیں اپنے خوبصورت جمہوریت کا زعم ہے اور اپنے کلچر پر فخر کناں ہے ذرا ایمانداری سے سوچیں! کہ کیا ان واقعات کی روشنی میں اس زعم میں مبتلا ہونا روا ہے ؟ ہمیں اپنے آپ کو سیکولر اور جمہوری پر ناز کرنے کاجواز ہے؟

آخر ہم کیسے بھارت کی تعمیر کر رہے ہیں؟ آخر حکمراں لوگ ملک کو کس رخ پر ڈالنے کے متمنی ہیں ؟ بچیاں محفوظ نہیں ، لوگ محفوظ نہیں، کام کرنے کے بجائے جھوٹے وعدے ، مذہبی تشدد اور برباد ہوتا نوجوانوں کا مستقبل یہ سب کیوں ہو رہا ہے ؟ اس پر بندش کب لگے گی؟ ایک نئی تاریخ رقم کیوں کیا جا رہا ہے؟ نیا دستور تھوپنے کی سعی کیو کی جارہی ہے آخر یہ نفرتی ٹولا چاہتے کیا ہیں؟

اگر یہی سب ہوگا تو قانون کس لئے؟ ایسے نازک وقت میں جب ملک اپنی اصلی ڈگر سے ہٹ رہا ہے ، اصلی شناخت اور پہچان دم توڑ رہی ہو بلکہ اس کے لیے منصوبہ بندی ہو رہی ہو ذمہ دارن شہریوں کا یہ فریضہ ہیکہ اس پر غور کریں اور اس کا سد باب کریں ورنہ آج ہماری بہن بیٹی پر نگاہ ہے کل تمہاری بیٹیاں بھی زد میں آ سکتی ہے۔ کیونکہ جو لوگ نئے بھارت کی تعمیر کر رہے ہیں اور نیا دستور لکھ رہے ہیں وہ اپنے باپ کے نہیں ہوئے تو آپ کے کہاں سے خیر خواہ ہونگے ؟ اس لئے سوچئیے اور خوب سوچئیے اور بلا تفریق قوم و مذہب ان کی دست درازی کو روکئے قبل اس کے کہ تاخیر ہوجائے۔

Comments are closed.