Baseerat Online News Portal

تذکرہ مولانا محمد عثمان معروفی (1928ء – 2001ء)

 

? محمد روح الامین میوربھنجی

مولانا محمد عثمان معروفی رحمۃ اللّٰہ علیہ (1347ھ م 1928ء – 1422ھ م 2001ء) ایک مشہور مصنف، مؤرخ، سوانح نگار، فن تاریخ گوئی کے ماہر، ایک کامیاب مدرس اور ایک مایۂ ناز عالم دین تھے، وہ 1950ء سے 1995ء تک تقریباً نصف صدی تک تدریسی خدمات انجام دیتے رہے، اس کے بعد 1997ء تا 2001ء اپنی وفات تک چار سال ماہنامہ مظاہر علوم سہارنپور کے مدیر و ایڈیٹر رہے۔ ان کے بارے میں مندرجۂ ذیل کتابوں سے استفادہ کرتے ہوئے بندہ نے یہ مضمون تیار کیا ہے: (1) نقوش عثمان کردار و آثار کے چند زاویے از مولانا انصار احمد معروفی، (2) ایک عالمی تاریخ، (3) مشاہیر کوپا گنج، (4) مشاہیر پورہ معروف۔ (5) دار العلوم دیوبند کی جامع و مختصر تاریخ از ڈاکٹر مولانا محمد اللّٰہ خلیلی قاسمی اور دیگر کئی کتابوں سے موصوف کے بعض اساتذہ کے سنینِ وفات ماخوذ ہیں۔

ولادت و خاندان
ان کی ولادت 20 جمادی الاولی 1347ھ بہ مطابق 4 نومبر 1928ء بہ روز اتوار محلہ بانسہ، پورہ معروف، ضلع اعظم گڑھ (جو اس وقت ضلع مئو میں آتا ہے) میں پیدا ہوئے۔ تاریخی نام محمد مظہر علی تھا۔ ان کے والد قاری محمد حنیف صاحبؒ (متوفّٰی: 1391ھ م 1971ء)؛ حکیم الامت مولانا محمد اشرف علی تھانویؒ (متوفی: 1362ھ م 1943ء) سے بیعت تھے اور قاری محمد حنیف کے بڑے بھائی قاری عبد الکریم (متوفی: 1345ھ)؛ حکیم الامت کے خلیفہ اور مجاز بیعت تھے۔ ان کا سلسۂ نسب کچھ پشتوں تک مذکور ہے: ”عثمان بن محمد حنیف بن محمد یوسف بن عبد القادر بن عبد اللّٰہ بن محمد دلار بن محمد دانیال بن محد روشن“۔ وہ مفتی عبد اللّٰہ معروفی صاحب (متولّد: 1386ھ م 1966ء) استاذ حدیث و ناظم شعبۂ تخصص فی الحدیث دار العلوم دیوبند کے والد اور چچا مولانا زین العابدین اعظمیؒ (متوفی: 1434ھ م 2013ء)، استاذ حدیث و سابق صدر شعبۂ تخصص فی الحدیث مظاہر علوم سہارنپور کے ماموں زاد بھائی تھے۔

تعلیم و تربیت
انھوں نے قرآن اپنے والد سے پڑھا، پھر انھوں نے 1357ھ م 1936ء تا 1362ھ م 1943ء پانچ سال مدرسہ معروفیہ، پورہ معروف میں مولانا شبلی شیدا خیر آبادیؒ (متوفی: 1374ھ) سے اردو، فارسی اور ابتدائی عربی کی تعلیم حاصل کی، نیز مذکورۂ بالا استاذ سے کتابت بھی سیکھی۔ پھر شوال 1362ھ تا شعبان 1363ھ ایک سال مولانا عبد الحئی مئوی (متوفی: 1363ھ) سے نور الایضاح، ہدایۃ النحو وغیرہ کتابیں پڑھیں، پھر شوال 1363ھ تا 1364ھ ایک سال مفتاح العلوم مئو میں پڑھائی کی، پھر شوال 1364ھ م تا شعبان 1367ھ م 1948ء تین سال احیاء العلوم مبارک پور، ضلع اعظم گڑھ میں جلالین و مشکوۃ تک کی کتابیں پڑھیں؛ البتہ نصف شوال سے نصف صفر (1366-67ھ) تک چھ ماہ اپنے والد کے سفر حج کے موقع پر، گھر پر رہنا ضروری ہونے کی وجہ سے مدرسہ معروفیہ، پورہ معروف ہی میں مولانا عبد الستار معروفیؒ (متوفی: 1414ھ م 1994ء) کے پاس مشکوۃ و جلالین کا ابتدائی حصہ پڑھا۔ اس کے بعد شوال 1367ھ میں دار العلوم دیوبند آگئے اور امتحان داخلہ علامہ محمد ابراہیم بلیاویؒ (متوفی: 1387ھ م 1967ء) نے لے کر دورۂ حدیث میں داخل کر دیا۔

دار العلوم دیوبند سے فراغت
1368ھ بہ مطابق 1949ء میں دار العلوم دیوبند سے فارغ ہوئے۔ اگلے سال شوال 1368ھ تا شعبان 1369ھ دیوبند ہی میں رہ کر کتب فنون کی تکمیل کی، فتوی نویسی کی تمرین و مشق کی اور خوش نویسی و خطاطی میں کمال پیدا کیا۔

دار العلوم دیوبند میں ان کے اساتذہ
ان کے اساتذۂ دار العلوم میں یہ حضرات شامل تھے:
شیخ الاسلام مولانا سید احمد مدنیؒ (متوفی: 1377ھ م 1957ء)؛ جن سے انھوں نے صحیح البخاری مکمل اور جامع الترمذی جلد اول؛ یہ کتابیں پڑھیں۔
علامہ محمد ابراہیم بلیاویؒ (متوفی: 1387ھ م 1967ء)؛ جن سے انھوں نے صحیح المسلم، جامع الترمذی اور قاضی مبارک؛ یہ کتابیں پڑھیں۔
شیخ الادب والفقہ مولانا محمد اعزاز علی امروہویؒ (متوفی: 1374ھ م 1955ء)؛ جن سے انھوں نے سنن ابی داؤد مکمل، جامع الترمذی جلد دوم اور شمائل ترمذی؛ یہ کتابیں پڑھیں۔
مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ (متوفی: 1394ھ م 1974ء)؛ جن سے انھوں نے مؤطا امام مالک پڑھی۔
قاری محمد طیبؒ، مہتمم دار العلوم دیوبند (متوفی: 1403ھ م 1983ء)؛ جن سے انھوں نے سنن ابن ماجہ پڑھی۔
مولانا فخر الحسن مرادآبادیؒ (متوفی: 1400ھ م 1980ء)؛ جن سے انھوں نے سنن نسائی، تفسیر بیضاوی، توضیح تلویح، دیوان متنبی اور عروض المفتاح؛ یہ ساری کتابیں پڑھیں۔
مولانا سید فخر الدین احمد مرادآبادیؒ (متوفی: 1392ھ م 1972ء)؛ جنھوں نے ختم بخاری شریف (سن: 1368ھ بہ مطابق 1949ء) کے موقع پر شیخ الاسلام کے ایما پر مولانا محمد عثمان معروفی کو بخاری شریف کی چند حدیثیں پڑھا کر انھیں اجازت حدیث عطا فرمائی تھی۔
مولانا معراج الحق دیوبندیؒ (متوفی: 1412ھ م 1991ء)؛ جن سے انھوں نے دیوان حماسہ اور السبع المعلقات پڑھیں۔
مولانا بشیر احمد خان بلند شہریؒ (متوفی: 1386ھ م 1966ء)؛ جن سے انھوں نے تصریح، شرح چغمینی، بست باب اور اقلیدس؛ یہ کتابیں پڑھیں۔
مفتی سید مہدی حسن شاہجہاں پوریؒ (متوفی: 1396ھ م 1976ء)؛ جن کے پاس انھوں نے فتویٰ نویسی کی مشق و تمرین کی۔
مولانا قاری اعزاز احمد (معروف بہ: قاری احمد میاں) امروہویؒ؛ جن سے انھوں نے ترتیلًا مشق قراءت کیا۔
مولانا اشتیاق احمد دیوبندیؒ (متوفی: 1395ھ م 1975ء)؛ جن سے انھوں نے باقاعدہ خط نستعلیق و خط نسخ میں خطاطی سیکھی۔

لکھنؤ یونیورسٹی سے فاضل ادب عربی
دار العلوم دیوبند سے فراغت کے بعد 1369ھ بہ مطابق 1950ء میں انھوں نے لکھنؤ یونیورسٹی سے درجۂ دوم سے فاضلِ ادب عربی کا امتحان پاس کیا۔

تدریسی خدمات
تعلیم سے فراغت کے بعد مدرسہ معروفیہ، پورہ معروف میں 11 ذوالقعدہ 1369ھ م 26 اگست 1950ء تا 20 شعبان 1389ھ بیس سال مدرس رہے اردو فارسی سے لے کر شرح جامی تک کی کتابیں پڑھاتے رہے۔ درمیان میں 21 صفر 1377ھ م 12 ستمبر 1957ء میں شعبان تک کے لیے سینئر مدرسہ اسلامیہ، گوما پھولباڑی، کامروپ (آسام) میں اسسٹنٹ سپرینٹنڈنٹ کی حیثیت سے مشکٰوۃ وغیرہ کا درس دیا (آسام سے واپسی پر مدرسہ معروفیہ کے صدر مدرس منتخب ہوئے)۔ 9 شوال 1389ھ م 20 دسمبر 1969ء سے 4 صفر 1397ھ م 25 جنوری 1977ء تک سوا سات سال مدرسہ احیاء العلوم مبارک پور میں مشقِ خوش نویسی اور میزان و منشعب سے شرحِ جامی، ہدایہ اولین اور دورۂ حدیث کی مؤطینِ امام مالک و محمد، شمائل ترمذی، نسائی، ابوداؤد، جلالین وغیرہ جیسی کتابوں کا درس دیا۔ 1397ھ میں احیاء العلوم سے مستعفی ہو کر کچھ دنوں مدرسہ مدرسہ اشاعت العلوم، پورہ معروف میں رہے۔ پھر ذی القعدہ 1397ھ تا شعبان 1398ھ ایک سال مدرسہ منبع العلوم، گلاوٹھی، ضلع بلند شہر میں رہے۔ شوال 1398ھ سے ذوالحجہ 1399ھ تک جامعہ اسلامیہ مدنیہ، مدنی نگر، کولکاتا (نمبر -51) میں درجات علیا کے مدرس اور ناظم تعلیمات رہے۔ اس کے بعد محرم الحرام 1400ھ م نومبر 1979ء تا 1408ھ م جون 1988ء جامع العلوم کوپاگنج میں صدر مدرس رہے، پھر وہاں سے ریٹائرمنٹ لینے کے بعد سے 1413ھ م 1993ء تک جامعہ اسلامیہ سلطانپور کے صدر مدرس رہے۔ 1413ھ تا 1415ھ م 1995ء مدرسہ ضیاء العلوم پورہ معروف میں مدرس رہے۔

زمانۂ تدریس میں فن قراءت بروایت حفص کی تکمیل
1394ھ میں احیاء العلوم مبارکپور کے زمانۂ تدریس میں تدریس کے ساتھ ساتھ قاری ظہیر الدین معروفی اور قاری محمد ادریس مبارکپوری سے 14 جمادی الاخری 1394ھ کو روایت حفص میں تجوید وقراءت کی تکمیل کی، مشق کے ساتھ کئی کتابیں بھی پڑھیں۔ 9 شعبان 1394ھ م 28 اگست 1974ء کو احیاء العلوم میں فراغت قراءت کی دستار محدث کبیر حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی (متوفی: 1412ھ م 1992ء) وغیرہ کے ذریعے ہوئی اور اجلاسِ صد سالہ کے موقع پر 4 جمادی الاولی 1400ھ م 22 مارچ 1980ء کو دار العلوم دیوبند سے دستار فضیلت بھی ملی۔

بیعت و اصلاحی تعلق
غالباً 1371ھ میں ٹانڈہ جاکر اپنے استاذ شیخ الاسلام حضرت مدنی سے بیعت کی، اکثر رمضان میں اپنے شیخ کی خدمت میں رہ کر سلوک و تصوف کے اسباق لیتے، شیخ الاسلام کی وفات کے بعد؛ بعد میں فدائے ملت مولانا سید اسعد مدنیؒ (متوفی: 1427ھ م 2006ء) کی طرف رجوع کیا۔ نیز سہارنپور کے زمانۂ قیام میں مولانا پیر محمد طلحہ کاندھلویؒ (متوفی: 1440ھ م 2019ء) سے بھی رمضان میں ان کے خانقاہ میں مقیم رہ کر استفادہ کرتے تھے۔

خطاطی و طغرا نویسی
وہ ایک بہترین خطاط اور طغرا نویس بھی تھے۔ جمعیت علمائے ہند کے کل ہند اجلاس میرٹھ 1963ء، ضلع گیا 1966ء، دہلی 1972ء میں بورڈ اور بینر کی کتابت کے لیے بلائے گئے اور وہاں خوش نویسی کے لیے انھیں اعلیٰ نمبروں سے نوازا بھی گیا، اور کئی مدارس وغیرہ میں ان کے لکھے ہوئے بورڈ اور کتبے لگے ہوئے ہیں۔ اس فن میں ان کے اساتذہ مولانا شبلی شیدا خیر آبادی اور مولانا محمد اشتیاق احمد دیوبندی تھے۔

تاریخ گوئی
فن تاریخ گوئی کے وہ تاجور تھے، تاریخ گوئی میں ان کی مہارت تامہ کو سمجھنے کے لیے مولانا و مفتی محمد اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی، استاذ دار العلوم دیوبند کی تحریر سے یہ اقتباس ہی کافی ہوگا:
”حضرت مولانا معروفی میں تاریخ کی تخریج کا عجیب وغریب ملکہ قدرت نے ودیعت فرمایا تھا، موصوف اعداد کی جمع وتفریق میں بالکل غرق ہوجاتے تھے، مشق وتمرین اور ریاضت ومجاہدہ کی وجہ سے ابجدی حروف کے اعداد بالکل ازبر تھے، پوری پوری سطر لکھ لیتے اور لمحوں میں ان کا حساب نیچے رقم فرمادیتے تھے، حساب کے دوران ذہنی پرواز تو بہت اونچی ہوتی تھی؛ لیکن نگاہ، قلم اور جسم بالکل ساکت و صامت رہتے تھے اور سانسوں کے ساتھ گھن گھن کی دھیمی آواز نکلتی رہتی تھی، جو قریب بیٹھنے والے کو سنائی دیتی تھی، کبھی کبھی تو پوری پوری آیت یا حدیث کی تاریخی تخریج عمل میں آجاتی، اور الفاظ و تراکیب نہایت موزون و مناسب ہوتے تھے، عام طور سے اہلِ علم تاریخ کی تخریج تو کرلیتے ہیں؛ مگر موزونیت و تناسب سے وہ اکثر خالی ہوتے ہیں، حضرت مولانا معروفی کو اتنی ریاضت ہوگئی تھی کہ اس طرح کے عیب سے ان کی تحریر پاک تھی، اس میں بہت زیادہ وقت بھی نہیں لگتا تھا، تعجب و حیرت اس وقت اور بھی بڑھ جاتی تھی، جب اشعار میں مادۂ تاریخ نکالتے تھے، تاریخ گوئی کی جتنی صنعتیں اور نوعیں ہیں، مولانا مرحوم ہر ایک میں مادۂ تاریخ نکالنے پر قادر تھے، تفصیل کے لیے ”محاسن التواریخ“ کا مطالعہ کافی ہوگا۔“

شاعری
شاعری میں باقاعدہ ان کا کوئی استاذ نہیں تھا، تخلص عاصی تھا، کبھی بطورِ تخلص عثمان بھی استعمال کیا، انھوں نے حمد، نعت، غزل، مرثیہ، نیز ترانے میں اپنی شاعری کے جوہر دکھائے ہیں۔ جو محاسن التواریخ یا ان کی دیگر کتابوں اور مضامین میں دیکھے جا سکتے ہیں۔

مضمون نگاری
مضمون نگاری کا طرز انھیں قاضی محمد اطہر مبارک پوریؒ سے ملا، شاعری میں ان کا کوئی استاذ نہیں تھا، خداداد صلاحیت کہہ سکتے ہیں۔ مختصر نویسی ان کا خاصہ تھی، جو بقول مفتی عبد اللّٰہ معروفی صاحب؛ انھیں ابوالمآثر مولانا حبیب الرحمٰن اعظمیؒ سے ملی تھی۔

مضامین وغیرہ کی اشاعت
ان کے مضامین و اشعار اور تاریخ گوئی کے شہ پارے کبھی کبھی الجمعیۃ دہلی، سیاست کانپور، انصاری دنیا مرادآباد، البلاغ بمبئی، القاسم دیوبند، ماہنامہ دار العلوم دیوبند، المنار کوپاگنج، پیغام پورہ معروف، ماہنامہ الفاروق کراچی، ماہنامہ ضیاء الاسلام، شیخوپور (اعظم گڑھ) ماہنامہ مظاہر علوم سہارنپور، معارف اعظم گڑھ، ترجمان الاسلام بنارس، ابوالمآثر مئو وغیرہ میں شائع ہوتے رہے ہیں، نیز کئی خصوصی نمبروں جیسے: الجمعیۃ کے شیخ الاسلام نمبر (فروری 1958ء)، مجاہد ملت نمبر (مارچ 1963ء)، حیات فخر الاسلام نمبر، تذکرہ مولانا عبد اللطیف نعمانیؒ، تذکرۂ طیب، تذکرہ علمائے اعظم گڑھ، ماہنامہ البلاغ کے احمد غریب نمبر (ستمبر 1968ء) وغیرہ میں بھی شائع ہوئے۔

مناصب
اپنی تدریسی زندگی کے درمیان مختلف عرصوں میں مختلف مدارس کی نظامت تعلیم یا صدارت تدریس کے مناصب پر فائز رہے۔ نیز مدرسہ معروفیہ کے زمانۂ تدریس میں ”المعروف“ کے نام سے ایک رسالہ جاری کیا تھا، ماہنامہ پیغام پورہ معروف کے روز اول (پہلا شمارہ: ربیع الثانی 1407ھ م اگست 1996ء) سے تاوفات سرپرست رہے۔

ماہنامہ مظاہر علوم کی ادارت
1418ھ بہ مطابق 1997ء کو ماہنامہ مظاہر علوم سہارنپور کے مدیر مقرر ہوئے اور تاوفات چار سال اس کی ادارت کے فرائض انجام دیے۔ ماہنامہ مظاہر علوم کی ادارت کے دوران ان کی تحریری سرگرمیاں تیز سے تیز تر ہوگئیں، ملک کے مشہور و معروف اہل قلم؛ بالخصوص اپنے دوست اہل قلم حضرات سے خطوط بھیج کر مضمون منگواتے، شائع کرتے، بسا اوقات خطوط کے ذریعے سپاس گزار ہوتے، مدح سرائی کرتے اور ہدیۂ تشکر پیش فرماتے۔

وفات
13 ربیع الاول 1422ھ بہ مطابق 6 جون 2001ء بہ روز بدھ سہارنپور ہی میں اِس دار فانی سے اُس دار بقا کی طرف کوچ کرگئے۔

پسماندگان
پسماندگان میں صرف اکلوتے بیٹے مولانا محمد سفیان معروفی ہیں۔

تصانیف
مولانا محمد عثمان معروفی کا قلم ”مختصر مگر جامع“ کا نمونہ تھا، مختصر انداز میں سوانح و تذکرہ نگاری، تاریخ، فن تاریخ گوئی، علم عروض و قوافی، علم ہیئت وغیرہ میں انھوں نے اکیس کتابیں لکھیں، ان کی تصانیف مع سن اشاعت مندرجۂ ذیل ہیں:
1. حیات طاہر (اشاعت اول: 1967ء، اشاعت دوم: 2014ء؛ مولانا قاضی محمد طاہر معروفیؒ (1808ء – 1879ء) کی سوانح حیات)۔
2. مشاہیر پورہ معروف (اشاعت اول: 1976ء)
3. تذکرۂ مشاہیر کوپا گنج (اشاعت اول: 1985ء)
4. حالات المصنفین (اشاعت اول: 1986ء)
5. محاسن التواریخ (اشاعت اول: 1987ء؛ فن تاریخ گوئی کے شہ پارے)۔
6. ایک عالمی تاریخ (اشاعت اول: 1987ء)
7. تذکرۃ الفنون (اشاعت اول: 1983ء)
8. تاریخ وقائع لاثانی (اشاعت اول: 1981ء؛ محی الدین الخیاطؒ (1865ء – 1914ء) کی شہرہ آفاق کتاب ”دروس التاریخ الاسلامی“ کا اردو ترجمہ)۔
9. مختصر تاریخ نبوی (اشاعت اول: 1983ء)
10. معجزات و کرامات (اشاعت اول: 1981ء؛ باحوالہ 80 معجزات اور 20 کرامات کا ذکر)۔
11. مفتاح التقادیم (اشاعت اول: 1990ء؛ ہجری و عیسوی سالوں کی مطابقت پر رہنما کتاب)۔
12. بابری مسجد (اشاعت اول: 1986ء)
13. ارکان تبلیغ (اشاعت اول: 1990ء)
14. پرتاثیر نماز (اشاعت اول: 1991ء)
15. سیرت الرسول
16. گلدستۂ فاخرہ (اشاعت اول: 1984ء؛ ان کا شعری مجموعہ)
17. کمیونزم اور مذہب (اشاعت اول: 1968ء)
18. ترجمہ مقامات حریریہ (1990ء؛ غیر مطبوعہ)
19. تقاریر مولانا آزاد (مولانا ابوالکلام آزادؒ (متوفی: 1958ء) کے الہلال و البلاغ سے ماخوذ تقاریر کا مجموعہ)
20. درس مغفرت (اشاعت اول: 1984ء؛ روز مرہ حالات زندگی سے متعلق 80 احادیث کا مجموعہ؛ پہلا ایڈیشن حرمِ مغفرت کے نام سے شائع ہوا تھا)۔

اللّٰہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے، ان کی خدمات جلیلہ سے امت کو مزید مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور بندہ کو بھی ان کے جیسا بااخلاق بنائے اور خدمت دین کے لیے قبول فرما لے۔ آمین

Comments are closed.