آپ کے شرعی مسائل

فقیہ العصرحضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی
بانی وناظم المعہدالعالی الاسلامی حیدرآباد ۔ جنرل سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا

رقعوں اور اخبارات میں حدیث
سوال:- شادی بیاہ کے رقعوں اور اردو اخبارات میں حدیث شریف تحریر ہوا کرتی ہے ، میں نے کئی بار ایسے کاغذات ازراہِ احترام زمین پر سے اٹھائے ہیں، کیا اس طرح احادیث کا لکھنا جائز ہے اور اس بے حرمتی کا ذمہ دار کون ہے ؟ (رضوان احمد، کھمم)
جواب:- دعوت ناموں یا اخبارات و رسائل میں حدیث لکھنے کا اصل مقصد دعوت و تذکیر کا ہے ، اس طرح بہت سے لوگ حدیث اور اس کا ترجمہ پڑھ لیتے ہیں، بعض لوگوں کو اس پر عمل کرنے کی توفیق بھی ہوجاتی ہے ،اس لئے یہ گناہ نہیں ہے ،بلکہ نیت کے اعتبار سے ثواب ہی کی امید ہے ،فقہاء نے سِکّوں پر اللہ تعالی کا نام لکھنے کی اجازت دی ہے ، کیونکہ اس کا مقصد اسم باری تعالی کی اہانت نہیں۔ لا بأس بکتابۃ اسم اللّٰہ تعالی علی الدراھم ؛ لأن قصد صاحبہ العلامۃ لا التھاون ، کذا في جواھر الاخلاطی(ہندیہ: ۵؍۳۲۳) اس سے بھی اس کا جائز ہونا معلوم ہوتا ہے ۔

ایک ساتھ دوچیزیں کھانے سے منع کرنے کی مراد
سوال:- ایک روایت کے مطا بق حضر ت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دو چیزیں ایک سا تھ کھانے سے منع فر مایا ہے ،کیا یہ صحیح ہے؟ اگر صحیح ہے تو ایک اور روایت کے مطابق حضر ت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو کھجور پسند تھی ، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھجور اور تر بوز ملا کر کھا یا کر تے تھے ،دو نوں روایا ت میں ٹکراؤ محسو س ہو رہا ہے،آپ ہماری رہنمائی فر مائیں۔(ابو طالب، ہمایوں نگر)
جواب:-حد یث میں رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ساتھ دو کھجو ریں ملا کر لینے کو منع فرما یا ہے،(ترمذی، ۲؍۳) اس کا مقصد یہ ہے کہ اگر کوئی چیز محدود ہو اور کھانے وا لے زیا دہ ہوں،ایک شخص ایک دفعہ میں دو دو لینا شروع کردے ، تویہ دوسروں کے لئے کدور ت کا باعث ہو جا تا ہے ، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ تو ضرورت سے زیا دہ کھا لیں، اور کچھ کو ضرورت کے بقدر بھی نہ مل پائے، اگر دو الگ چیزیں ہوں، جیسے کھجور اور تربوز، یا دستر خوان پر اتنی زیادہ مقدار میں ہوں کہ ایک شخص کا دو پیس اٹھانا دوسروں کے لئے اورمیزبان کے لئے بارخاطر نہ ہو، تو اس میں کچھ حرج نہیں۔

مائیک پر قرآن مجید کی تلاوت
سوال:- رمضان المبارک کے موقعہ سے لوگ سماعتِ قرآن کا نظم کرتے ہیں، قرآن مجید پڑھاجاتا ہے ،لوگ اسے سماعت کرتے ہیں ، بعض محلوں میں کوشش کی جاتی ہے کہ مائیک پر قرآن پڑھا جائے ، تاکہ محلہ کے سب لوگ اسے سن سکیں ، اس طرح مائیک پر قرآن کی تلاوت کا کیا حکم ہے ؟ ( سرفراز احمد، کریم نگر)
جواب:- قرآن کی تلاوت میں بہ مقابلہ سماعت کے زیادہ اجر ہے ،کیونکہ تلاوت میں زبان بھی مشغول ہے ، نگاہ بھی، قرآں مجید ہاتھ میں ہوتو گویا ہاتھ بھی مصروف ِ عبادت ہے ، اورکان بھی اپنی تلاوت آپ سنتا ہے ،گویا جسم کے متعدد اعضاء ایک نیک کام میں شریک ہوتے ہیں، قرآن سننے کی صورت میں صرف کان ہی شریکِ عمل ہے ،اس لئے ظاہر ہے کہ قرآن پڑھنے کا اجر زیادہ ہے اور کوشش یہی ہونی چاہئے کہ لوگ اپنے اپنے طور پر تلاوت کا اہتمام کریں، یوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے قرآن سنا ہے ، (مصنف ابن ابی شیبہ، حدیث نمبر: ۱۷۷۶۳) اس لئے ایک شخص قرآن پڑھے اور چند افراد ادب و احترام کی پوری رعایت کے ساتھ قرآن سنیں ، اس کی بھی گنجائش ہے ؛ البتہ قرآن کی آواز سامعین تک محدود رکھنا چاہئے ، اگر مائیک لگا کر آپ نے آواز پورے محلہ تک پہونچا دی تو ظاہر ہے کہ محلہ میں لوگ اپنے کاموں میں مشغول ہوں گے ، کوئی قرآن کی طرف متوجہ ہوگا ،اور کوئی نہیں ،ہوسکتا ہے کہ لوگ اپنے مشاغل کی وجہ سے گرانی بھی محسوس کریں ، بات چیت میں مشغول رہیں ،اس سے قرآن مجید کی بے حرمتی ہوگی ،اور قرآن کا جو ادب بتا یا گیا ہے کہ خاموشی اور توجہ کے ساتھ قرآن سناجائے : إِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَ اَنْصِتُوْا (الاعراف : ۲۰۴ ) اس کی خلاف ورزی ہوگی ،اور اس خلاف ورزی اور بے ادبی کا باعث وہ لوگ بھی بنیں گے جنہوں نے بلا ضرورت مائیک لگا کر آواز دور دور تک پہنچائی ؛ اس لئے اس سے اجتناب کرنا چاہئے ۔

سفر میں تلاوت
سوال:- سفر کے دوران قرآن شریف کی تلاوت کا کیا حکم ہے اوربلند آواز میں کی جاسکتی ہے یا نہیں ؟ ( سید زاہد فردین ،یاقوت پورہ )
جواب:- قرآن مجید پیدل اور سوار دونوں حالتوں میں پڑھاجاسکتاہے ،اس لئے حالتِ سفر میں تلاوتِ قرآن میں کچھ حرج نہیں، بلکہ باعثِ اجر وثواب ہے ،البتہ چند امور کا خیال رکھنا چاہئے ، ایک تو ایسی جگہ جو نجاست وغیرہ کے لئے ہو ،ایسی جگہ قرآن مجید پڑھنا مکروہ ہے : لم یکن ذلک الموضع معدا للنجاسۃ ، فإن کان یکرہ (ہندیہ:۵؍۳۶۱)دوسرے جہاں لوگ دوسرے کاموں میں مشغول ہوں اور قرآن کی طرف متوجہ نہ ہوں ،وہاں بآواز بلند قرآن شریف پڑھنے سے گریز کرنا چاہئے ، تیسرے بازار میں اور لہو ولعب کی جگہ پر بھی قرآن کی تلاوت نہیں کرنی چاہئے: لایقرأ جھرا عند المشتغلین بالأعمال في الأسواق وفي موضع اللغو (۵؍۳۱۶)ان امور کے رعایت کے ساتھ سفر میں قرآن مجید کی تلاوت کی جاسکتی ہے ، اور بہ آواز بلند بھی کی جاسکتی ہے ۔

اللہ کے بندے ! میری مدد کر
سوال:- میں نے یہ بات سنی ہے کہ اگر کوئی شخص پریشانی میں ہو ، یا راستہ بھٹک گیا ہو ، تو یوں کہنا کہ : ’’اے اللہ کے بندے میری مددکر‘‘ کیا یہ درست ہے ؟ ( عبداللطیف، سنتوش نگر)
جواب:- اگر کوئی آدمی موجود ہو تو اس سے مدد مانگنے میں کچھ حرج نہیں ؛ لیکن اگر کوئی شخص موجود نہ ہو ، تو اللہ سے مدد کی دعاء کرنی چاہئے ، نہ کہ اللہ کے بندوں سے ؛ کیونکہ ہر جگہ موجود ہونا اور ہر ضرورت کو پوری کرنے پر قادر ہونا صرف اللہ ہی کی شان ہے ، اللہ کے سوا کسی اور کو یہ قدرت حاصل نہیں؛ اس لئے اس طرح کا جملہ نہیں کہنا چاہئے ؛ بلکہ اس میں کفر کا اندیشہ ہے ۔

نماز جمعہ اور اس کی سنتیں
سوال:- نماز جمعہ فرض ہے یا واجب ؟ اور جمعہ میں کل کتنی رکعتیں ہیں ؟ (محمد حسنین، ملک پیٹ )
جواب:- جمعہ کی نماز فرض ِ عین ہے ،یہاں تک کہ اس کا انکار باعثِ کفر ہے ،ھی فرض عین یکفر جاحد ھا(درمختار مع الرد:۳؍۳) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ جمعہ سے پہلے چار رکعت اور جمعہ کے بعد بھی چار رکعت پڑھا کرتے تھے ، (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: ۱۱۳۲) اس لئے امام ابو حنیفہ ؒکے نزدیک جمعہ سے پہلے اور جمعہ کے بعد چار چار رکعتیں سنت ہیں ، بعض روایتوں میں جمعہ کے بعد چار کے علاوہ مزید دو رکعتوں کا ذکر ہے ، اس لئے امام ابو حنیفہ ؒکے دونو ں ممتاز تلامذہ امام ابو یوسف ؒ اور امام محمد ؒ جمعہ کے بعد چھ رکعت سنت کے قائل ہیں اور بعض صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے بھی یہ عمل ثابت ہے،اس لئے بہتر ہے کہ جمعہ کے بعد چھ رکعتیں اداکی جائیں، گویافریضۂ جمعہ اور اس سے متعلق پہلے اور بعدکی سنتیں ملا کر ۱۲ رکعتیں ہو جاتی ہیں۔

سنت جمعہ کے درمیان خطبہ شروع ہوجائے
سوال:- اگر کوئی شخص سنت ِمؤکدہ پڑھ رہاہواور جمعہ کاخطبہ شروع ہوجائے ، تو کیاسماعت ِخطبہ کے لیے سنت کو چھوڑدیناچاہیے ، کیونکہ خطبہ واجب ہے اور یہ نماز سنت ، یاسنت کوپوراکرناچاہیے ؟ (ابو ظفر، مہدی پٹنم )
جواب :- سنت شروع کرنے کے بعد خطبہ شروع ہوتو صحیح یہی ہے کہ سنت کو پورا کرلے اور توڑے نہیں :إذاشرع فی الأربع قبل الخطبۃ ثم افتتح الخطبۃ تکلموا فیہ والصحیح أنہ یتم ولایقطع (بحرالرائق:۲؍۲۷۱)یہ شبہ نہ ہوناچاہیے کہ خطبہ واجب اور یہ نماز سنت ہے ، کیونکہ نفل نماز بھی شروع کرنے کے بعد واجب ہوجاتی ہے ، اس لیے اس صورت میں ایک واجب ہی کے لیے دوسرے واجب کوچھوڑہاہے۔

متولی کا مسجد کی اشیاء استعمال کرنا
سوال:- اہل محلہ اور ذمہ داران مسجد (اراکین کمیٹی ) مسجد کے سامان کو اپنے ذاتی کاموں کے لئے استعمال کرتے ہیں ، کیا ایساکرنا درست ہے ؟(محمد توفیق، دلسکھ نگر)
جواب:- متولی کے لئے مسجد کی اشیاء کو اپنے ذاتی کاموں میں استعمال کرنا جائز نہیں ، اس لئے کہ وہ مسجد کی ضروریات کے لئے وقف ہیں ، اور متولی کے ہاتھ میں امانت ہیں ، اگر وہ اس میں سے اپنی ذات کے لئے استعمال کرے گا تو یہ امانت میں خیانت ہوگی، (ردالمحتار:۶؍۵۷۴)ہاں اگر کوئی چیز خدام مسجد کیلئے وقف کی جائے تو متولی کے لیے بھی اس سے استفادہ کی گنجائش ہے ۔

مال رہن کو فروخت کرنا
سوال:-ہم لوگ یہاں خدمت خلق کے نقطۂ نظر سے کچھ سامان رکھ کر بلا سودی قرض دیتے ہیں، لوگ سامان رکھ کر برسوں نہیں آتے ، انتظار کے بعد ہم انہیں فروخت کردیتے ہیں ، کیا یہ جائز ہے ؟ ( سید بلال احمد، کوکٹ پلی)
جواب:- آپ قرض دیتے وقت ان سے لکھا لیا کریں کہ اگر میں نے مقررہ تاریخ پر قرض ادانہیں کیا تو ادارہ کو حق ہوگا کہ وہ میرا رہن رکھا ہوا سامان فروخت کر کے اپنا قرض وصول کرلے ، ایسی صورت میں آپ کے لیے یہ بات جائز ہوگی کہ سامانِ رہن فروخت کردیں اور قرض وصول کرلیں اور باقی رقم محفوظ کردیں، جب وہ آئے تو اسے ادا کردیں، رہن رکھنے والا مقروض ہی سامان کا اصل مالک ہوتا ہے ، اس لیے جب تک اس کی اجازت نہ ہو سامان فروخت نہیں کیا جاسکتا : و لیس للمرتھن أن یبیعہ إلا برضاء الراھن ؛ لأنہ ملکہ و ما رضی بیعہ (فتح القدیر: ۵؍۵۳۸)

کاروبار کی ایک صورت اور اس کا جائز متبادل
سوال:- ایک صاحب کے پاس کچھ رقم ہے ، انہوں نے اس رقم کو کمپنی میں لگا دیا اور کمپنی کے مالک کو اجازت دی کہ وہ اس رقم کو اپنے کاروبار میں شامل کر کے جو منافع آئے ہمیں دے دے ، کمپنی کے مالک نے اس رقم کو لے کر مارکٹ میں نقد خریدی کی اور جو سامان خریدا اس پر فی فرد پانچ روپیہ لگا کر اس شخص کو نفع دے دیا، کیا یہ طریقہ درست ہے ؟ (ساجد حسین، حیات نگر)
جواب:- ایک شخص محنت کرے اور دوسرا شخص سرمایہ لگائے ، اس کو ’’مضاربت ‘‘ کہتے ہیں، یہ اسی صورت میںجائز ہے ، جبکہ نفع و نقصان میں دونوں شریک ہوں اور اس کا تناسب متعین کر لیا جائے ،مثلا دونوں فریق پچاس فیصد نفع کے حقدار ہوں گے اور اسی نسبت سے نقصان بھی برداشت کریں گے ؛ اس لئے جو صورت آپ نے بتائی ہے ، یہ اپنی موجودہ شکل میں جائز نہیں؛ البتہ تھوڑی تبدیلی کے ساتھ جائز ہوسکتی ہے ، اور وہ اس طرح کہ سرمایہ لگانے والے شخص سے اجازت لے لے کہ میں اس سے تمہارے لئے فلاں مخصوص سامان جو مجھے کاروبار میں مطلوب ہیں ، خرید لیتا ہوں ، پھر جب اس سامان کو خریدے تو خرید نے کے وقت اسے ساتھ لے جائے یا خریدنے کے بعداسے لا کر دکھا دے؛ تاکہ اس شخص کا قبضہ ثابت ہو جائے ، پھر فی عدد پانچ روپے کے اضافہ کے ساتھ وہ اس شخص سے خرید کر لے ، یہ صورت جائز ہوگی ، اور اس کو فقہ میں ’’مرابحہ ‘‘ کہتے ہیں ۔
(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.