Baseerat Online News Portal

آپ کے شرعی مسائل

فقیہ العصرحضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی
بانی وناظم المعہدالعالی الاسلامی حیدرآباد ۔ جنرل سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا

ابتدائی رکعتوں میں زیادہ اور بعد میں کم قرآن مجید پڑھنا
سوال:- بعض جگہ تراویح میں قرآن مجید کے کئی پارے پڑھائے جاتے ہیں ، ایسی صورت میں امام صاحب پہلی رکعتوں میں زیادہ قرآن مجید پڑھتے ہیں اور بعد کی رکعتوں میں قرآن کی مقدار کافی کم کردیتے ہیں ؛ کیوںکہ شروع میں لوگ تھکے ہوئے نہیں ہوتے ہیں اور بعد میں تھک جاتے ہیں ، کیا ایسا کرنا درست ہے ؟ (محمد کبیر الدین، چارمینار)
جواب:- افضل طریقہ یہ ہے کہ تمام ترویحوں میں قرآن مجید برابر پڑھا جائے ، البتہ دو رکعت کی نماز میں پہلی رکعت کو نسبتا تھوڑا سا طویل رکھنے اور زیادہ قرآن پڑھنے کی فقہاء نے اجازت دی ہے ، تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ جماعت میں شریک ہوسکیں : الأفضل تعدیل القراء ۃ بین التسلیمات ، فإن خالف لابأس بہ وعند محمد یطول القراءۃ في الأولی علی الثانیۃ (ھندیہ: ۱؍۱۱۷)

روزہ کا ابتدائی وقت جنابت کی حالت میں
سوال:- اگر رمضان المبارک کی شب میں میاںبیوی کے تعلق کی نوبت آئی ، اور کسی وجہ سے فجر سے پہلے غسل نہیں کرسکے ، صبح ۸، ۱۰/بجے غسل کیا ، تو کیا اس سے روزہ پر کوئی اثر پڑے گا ؟( مزمل حسین، ملک پیٹ)
جواب:- نماز کے لئے پاک ہونا شرط ہے ، روزہ کے لئے پاک ہونا شرط نہیں ہے ؛ البتہ یہ ضروری ہے کہ عورتیں حیض یا نفاس کی حالت میں نہ ہوں ، اس لئے ہونا تو یہ چاہئے کہ اگر غسل کرنے سے کوئی مانع نہیں ہو تو جب سحری کے لئے اٹھے ، اسی وقت غسل کرلے ، اوراگر بیمار ہونے یا بیمار ی بڑھ جانے کے قوی اندیشہ کی وجہ سے پانی کا استعمال کرنا دشوار ہو تو تیمم کرلیا جائے ، تاکہ فجر کی نماز قضا نہ ہو ، اور پورا روزہ پاکی کی حالت میں ہو ، تاہم اگر ایسا نہیں ہوسکا اور روزہ کا کچھ حصہ ناپاکی کی حالت میں گزرگیا ، تب بھی روزہ درست ہوجائے گا ، بلکہ اگر پورا دن بھی اس حالت میں گزر جائے تو گو نماز کے ترک کرنے اور دوسری عبادتوں سے محروم ہونے کا گناہ ہوگا ، لیکن روزہ ادا ہوجائے گا : أو اصبح جنبا ( وإن بقی کل الیوم ) لم یفطر (درمختار مع الرد:۳؍۳۷۲)

لفافہ کا گوند تھوک سے تر کرنا
سوال:-پوسٹل لفافوں میں ، ہلکی گوند لگی رہتی ہے ، لوگ اسے تھوک سے تر کرکے ، چپکایا کرتے ہیں ، کیا روزہ کی حالت میں اس طرح چپکانا درست ہے ؟ ( محمد احسان، سنتوش نگر)
جواب:- روزہ کی حالت میں گوند کو اپنی زبان سے تر کرنا کراہت سے خالی نہیں ؛کیونکہ اگر گوند کے اجزاء حلق سے نیچے چلے گئے ، تب تو روزہ ٹوٹ جائے گا اور اگر اس کے اجزاء حلق سے نیچے نہیں گئے ، تب بھی کم سے کم چکھنے کی کیفیت پائی گئی ، جو مکروہ ہے ، ہاں اگر انگلی میں تھوک لے کر اس سے گوند کو تر کرلے ، تو کوئی حرج نہیں ۔

روزہ کی حالت میں کان میں پانی چلا جائے ؟
سوال:-روزہ دار غسل کر رہا تھا کہ کان میں پانی چلا گیا ، تو کیا اس کی وجہ سے روزہ ٹوٹ جائے گا ؟ ( عبدالصمد، کوکٹ پلی)
جواب:- اگر کان میں بلا اختیار پانی چلا جائے ، تب تو بالاتفاق اس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا؛ لیکن اگر کوئی شخص جان بوجھ کر پانی ڈال لے ، تب بھی راجح اور صحیح قول یہی ہے کہ روزہ نہیں ٹوٹے گا ، کیونکہ کان میں پانی کا ڈالنا ایسی چیز نہیں ، جس سے بدن کی صلاح اور اس کا نفع متعلق ہو ، بلکہ یہ نقصان دہ ہے ، اور غیر فطری راستہ سے ایسی ہی چیز کے داخل ہونے سے روزہ ٹوٹتا ہے، جس سے جسم کا صلاح متعلق ہو ، چنانچہ فتاوی عالمگیری میں ہے : و لو اقطر فی أذنہ الماء لا یفسد صومہ کذا فی الھدایۃ و ھو الصحیح (ہندیہ: ۱؍۲۰۴)

ہوائی جہاز میں افطار
سوال:-ہوائی جہاز میں جس علاقہ سے گذرنا ہوتا ہے ، اس علاقہ کے لحاظ سے افطار کا وقت ہوجاتا ہے ، لیکن چونکہ جہاز بلندی پر ہوتا ہے ، اس لئے سورج نظر آتا رہتا ہے ، ایسی صورت میں افطار کس لحاظ سے کرنا چاہئے ؟( محمد شعیب، کھمم)
جواب:- افطار اس وقت کرنے کا حکم ہے ، جب سورج غروب ہوچکا ہو ، جب تک سورج موجود ہو افطار کرنا درست نہیں ہوگا ، سورج کا باقی رہنا اورڈوب جانا ، اس مقام کے اعتبار سے ہے ، جہاں روزہ دار ہو ، اگر زمین پر ہو تو زمین کے اعتبار سے حکم ہوگا اور فضاء میں ہو تو فضا کے اعتبار سے حکم ہوگا ، جب روزہ دار فضاء میں ہے ، اور وہاں سورج غروب نہیں ہوا ہے ، تو اس کے لئے ابھی روزہ افطار کرنا درست نہیں ہوگا ۔

حافظہ لڑکی کے پیچھے خواتین کی اقتداء
سوال:- حافظہ لڑکیوں کے قرآن کی حفاظت کے لئے اپنے ہی مکان میں موجود خواتین کو جوڑ کر جماعت کے ساتھ تراویح پڑھانے کی شرعا گنجائش ہے یا نہیں ؟ اگر گھر میں خواتین نہ ہوں ، تو کیا پڑوسی خواتین بلا اعلان جمع ہو کر اس طرح تراویح پڑھ سکتی ہیں یا نہیں ؟ غالبا مسائل تراویح (ترتیب : مفتی رفعت قاسمی ) میں مولانا عبد الحئی صاحب کے حوالہ سے اس کی اجازت دی ہے ، آپ کی کیا رائے ہے ؟ ( حافظہ تسنیم، خواجہ باغ)
جواب:- اگر خواتین اپنی جماعت بنا کر نماز پڑھ لیں ، تو نماز کے درست ہوجانے پر تو جمہور کا اتفاق ہے، علامہ ابن ہمام ؒ بڑے محقق ، فقیہ اور محدث ہیں ،وہ تو اس سلسلہ میں اجماع کا دعویٰ کرتے ہیں : فإنھن لو صلین جماعۃ جازت بالإجماع (فتح القدیر:۱؍۳۰۶) مگر اجماع کا دعویٰ محل نظر ہے ، مالکیہ کے یہاں خواتین کی جماعت جائز نہیں ؛ (الخرشی: ۲؍۱۴۵) البتہ اس میں شبہہ نہیں کہ خواتین کی جماعت کا اہتمام بہتر نہیں ہے ؛ کیونکہ اس میں فتنہ کا اندیشہ ہے ، اسی اندیشہ کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک طرف مردوں پر جماعت کو واجب قرار دیا اوردوسری طرف عورتوں کے لئے مستحب بھی نہیں رکھا ؛ بلکہ فرمایا کہ ان کا گھر میں نماز پڑھنا مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے ،نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : و صلاتک في دارک خیر لک من صلاتک في مسجد قومک ألخ (مسند احمد، حدیث نمبر: ۲۶۵۵۰ ) اس لئے خواتین کے لئے تراویح کی جماعتوں کا اہتمام ایسا عمل نہیں ہے کہ اس کی حوصلہ افزائی کی جائے ۔
فتنہ کا اندیشہ دو وجوہ سے پیدا ہوتا ہے ، ایک تو دور دور سے خواتین کا آنا ، دوسرے نماز پڑھانے والی حافظہ کی آواز ؛ اس لئے اگر گھر کی خواتین یا پڑوس کی خواتین ایسے محفوظ گھر میں جمع ہوجائیں ،جہاں پردہ کا پورا اہتمام ہو اور دور سے آنا نہ پڑے ، نیز امامت کرنے والی حافظہ خاتون قرآن ایسی معتدل آواز میں پڑھے کہ آواز نماز میں شریک ہونے والی خواتین تک محدود رہے، غیر محرموں تک نہ پہنچے ، تو اس کی گنجائش ہے ؛ البتہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی روایت کے مطابق خواتین امامت کرتے ہوئے صف کے بیچ میں ہی کھڑی ہوں گی ، نہ کہ صف کے آگے ؛ چنانچہ روایت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہارمضان کے مہینہ میں خواتین کی امامت کرتی تھیں اور بیچ میں کھڑی ہوتی تھیں : کانت تؤم النساء فی شھر رمضان فتقوم وسطا (کتاب الآثار، حدیث نمبر: ۲۱۷) یہی رائے میرے استاذ حضرت مولانا مفتی نظام الدین اعظمی ؒ سابق صدر مفتی دارالعلوم دیوبند کی بھی ہے ، چنانچہ اپنے ایک تفصیلی فتوی کے اخیر میں فرماتے ہیں :
( ب) اگر اتنی بڑی جماعت کی امامت ہو ، جس میں آواز معتاد آواز سے زائد ہوتو تمام قیود و شرائط کے باوجود مکروہ تحریمی و ناجائز ہوگا۔
(ج) اگر ماہِ رمضان میں حافظہ قرآن عورتوں کی چھوٹی جماعت جس میں آواز معتاد کے اندر اندر رہے اور تمام قیود وشرائط کے اندر رہے اور عورت صف سے صرف چار انگل آگے رہے تو ’’ الأمور بمقاصدھا ‘‘ کے تحت یہ فعل جائز رہے گا۔
(د) اگر ماہِ رمضان المبارک میں صرف دو دو ، تین تین عورتوں کی جماعت جو محض بہ نیت حفظِ قرآن پاک اور بطور دور ہو ، اور قیود و شرائط کے موافق ہو اور مکان محفوظ کے اندر ہو، جس میں آواز اپنی معتاد آواز سے زائد نہ رہے تو بلا شبہ جائز رہے گی؛ بلکہ ’’ الأمور بمقاصدھا ‘‘ کے تحت مستحسن بھی ہوسکتی ہے۔ والعلم عند اللہ ‘‘ (مطبوعہ سہ ماہی حراء، شمارہ نمبر: ۱؍صفحہ نمبر: ۸۳)

اگر احتلام کا وقت معلوم نہ ہو ؟
سوال:- کل میں نے فجر کی نماز ادا کرلی ، نماز سے فارغ ہوکر دوسرے کاموں میں لگ گیا اور دفتر چلا گیا ، ظہر کے وقت جب وضوء سے پہلے استنجاء کے لئے حمام میں داخل ہوا تو اپنے پاجامہ پر دھبہ نظر آیا ، جو بظاہر احتلام ہی کا ہوسکتا ہے ، ایسی صورت میں مجھے کیا کرنا چاہئے ؟ (محمد تنویر ، حمایت نگر)
جواب:- بظاہر کپڑے پر دھبہ کا پایا جانا بد خوابی اور احتلام کی علامت ہے ، کم سے کم اس سے غالب گمان تو پیدا ہوہی جاتا ہے اور شریعت میں احکام کی بنیاد گمان غالب پر بھی ہے ؛ اس لئے آپ پر غسل کرنا واجب ہے ؛ چوںکہ یہ متعین کرنا مشکل ہے کہ احتلام کی نوبت کب آئی ؟ اس لئے فقہاء نے ظاہری قرائن کو سامنے رکھتے ہوئے کہا ہے کہ دھبہ دیکھنے سے پہلے آخری بار جب وہ سویا ہو ، سمجھاجائے گا کہ اسی وقت اس کو غسل کی ضرورت پیش آئی ؛ لہذا صرف آج کی نماز فجر آپ کو لوٹانی ہوگی : وروی ہشام ؒعن محمدؒ : فیمن رأی في ثوبہ أثر المني قال : یعید الصلاۃ من أقرب نومۃ إلیہ (تاتارخانیہ:۱؍۶۸۵)

اگر ٹنکی میں مراہوا چوہا پایا جائے ؟
سوال:- اگر کسی شخص نے نماز پڑھی یا امام نے پڑھائی ، بعد میں معلوم ہوا کہ پانی کی ٹنکی میں چوہا مرا ہوا تھا ، تو کیا ایسی صورت میں اس پانی سے کئے ہوئے غسل ، وضوء کے بعد پڑھی جانے والی نماز درست ہوگئی ؟ (مہہ جبیں، کوکٹ پلی)
جواب:- اگر پانی کسی بڑے حوض میں ہو جو مجموعی طور پر سومربع ہاتھ ہو تب تو جب تک پانی کا رنگ ، بو ، مزہ تبدیل نہ ہوجائے ، پانی پاک رہتا ہے ؛ اس لئے اس سے کیا ہوا غسل اور وضو بھی درست ہوگا ، اور اگر چھوٹا حوض ہو یا ٹنکی ہو ، جس کی لمبائی ، چوڑائی سو مربع ہاتھ نہ ہوتی ہو اور اس میں چوہا گرا اور مرا ہوا پایا جائے تو اگر وہ پھولا ، پھٹا ہوا نہیں ہے تو سمجھا جائے گا کہ یہ ایک دن و رات پہلے حوض میں گر کر مرا ہے اور ایک دن و رات کی نماز لوٹانی ہوگی ، اور اگر پھول پھٹ گیاتھا تو سمجھا جائے گا کہ یہ تین دنوں سے ٹنکی میں مراہوا موجود ہے ؛ لہٰذا تین دن اور رات کی نماز اسے لوٹانی ہوگی ، یہ رائے امام ابوحنیفہؒ کی ہے ، اور اسی پر حنفیہ کے نزدیک فتوی ہے ۔ (ہدایہ مع الفتح:۱؍۱۰۶)
رہ گئی یہ بات کہ تمام مقتدیوں کو اس کی خبر کرنا مشکل ہے تو اس سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ؛ کیوںکہ یہ عمل ناواقفیت کی بنا پر ہوا ہے اور ناواقفیت کی وجہ سے جو عمل ہو ، جب تک اس کا علم نہ ہوجائے انسان معذور ہے ، نیز امام ابو یوسفؒ و امام محمدؒ کے نزدیک اس صورت میں پچھلی نمازوں کو لوٹانا ضروری نہیں ؛ بلکہ جس وقت مرے ہوئے چوہے کو دیکھا گیا ہے ، اس وقت سے ، یا جس وقت پانی میں اس کے مرنے کی یقینی اطلاع ہوجائے ، اس وقت سے پانی ناپاک سمجھا جائے گا : ’’ وقال : لیس علیہم إعادۃ شئ حتی یتحقق متی وقعت (حوالۂ سابق) ؛ لہٰذا بعض فقہاء کے نزدیک تو پہلی نمازوں کا لوٹانا ضروری ہی نہیں ۔

Comments are closed.