Baseerat Online News Portal

رمضان گزرگیا ،مگراس ماہ مبارک سے ہم نے کیا حاصل کیا ؟ایک احتسابی تجزیہ !

مفتی احمدنادرالقاسمی
اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا
رمضان ہماری اصلاح وتربیت کا ایک بابرکت مہینہ ہے جسے اللہ تعالی نے سال کے بارہ مہینوں میں سے ایک مہینہ کو اس نام سے موسوم کیاہے ۔ اورسال کے365 دنوں کے دورانیہ میں 29 یا 30 دنوں کا یہ مہینہ بھی ہرسال آتاہے ۔اوراسی طرح دنیاکے اختتام تک آتارہےگا ۔ان شا اللہ ۔
رمضان کی غرض وغایت حکما اوراطبا نے اپنے انداز سے بیان کی ہے اورعلما اورماہرین شریعت اورروحانی پیشواوؤں نے اپنے انداز سے ۔اورہرایک نے اپنے اپنے دائرہ فکروادراک کااستعمال کیا ہے ۔میں ان تفصیلات سے قطع نظر آپ کی توجہ تربیت نفس اورتزکیہ واصلاح باطن کے اس انقلابی مقصد کی جانب مبذول کراناچاہتاہوں جسے رات ودن کے خالق ومالک نے بیان فرمایاہے اوروہ ہے ”تقوی کا حصول “۔جیساکہ سورہ بقرہ آیت نمبر 183 میں بیان کیاگیاہے ”یایھا الذین آمنوا کتب علیکم الصیام کماکتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون “
امت محمدیہ سے پہلے روزہ کی کیاکیفیت تھی اس بارے میں قران خاموش ہے ۔مگر چونکہ روزہ کاتعلق نظام الہی سے ہے ۔اس لئے اندازہ یہی ہوتاہے کہ روزہ کی جوشکل اورحدود وقیود اس امت میں ہیں وہی سابقہ امم میں بھی رہے ہوں گے ۔باقی واللہ اعلم ۔
اب رمضان کریم کے پورے نظام پر غور کیاجائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ”نہایت ہی سنجیدگی اوروقار کے ساتھ پورے ایک ماہ تک طلوع صبح صادق سے غروب آفتاب تک کھانے پینے اورنفسانی خواہشات کی قید سے آزاد ہوکر اپنے آپ کو عبادت اوررب کی بندگی کے لئے یک سو ہوجانے کانام اہتمام رمضان ہے“۔
اس میں حیوانی نفس کی تربیت کے مختلف طریقے اللہ نے اوررسول نے بتائے ہیں ۔مثلا کھانے پینے اورنفسانی خواہشات سے اپنے آپ کو روکے رکھنے کاطریقہ قران نے بتایاروزے چھوٹی چھوٹی لغزشوں جیسے غیبت ،چغلی ،گالم گلوج ،نازیبا گفتگو اوردل ونگاہ کی حفاظت ۔یہ طریقے رسول نے بتائے ہیں تاکہ روزہ حقیقی معنی میں ہرناروا چیزوں سے پاک وصاف اور اللہ کی فرمانبرداری میں کیاجانے والاعمل قرار پاجائے اورہماری زندگی کو یہ احساس دلادے کہ واقعی ہماراروزہ وہ روزہ ہے جسے حدیث میں کہاگیاہے ”الصوم لی وانا اجزی “یہ حدیث قدسی ہے ۔اللہ فرماتاہے روزہ میری اطاعت میں انجام دیاجانے والاعمل ہے اور میں خود اس کا بدلہ ہوں ۔
اب ذراہم جائزہ لیں کہ ہمارے روزے اورہمارا رمضان واقعی ویساہی گزرا جیسا گذرنا چاہئے تھا ۔ہم ویسے ہی روزے اوررمضان کے لئے دنیاکی مشغولیتوں سے آزاد ہوکر عبادت کےلئے یکسو ہوپائے ۔ہم نے اس ماہ مبارک کے تقاضوں کاویساہی خیال رکھا جیسا رکھنا چاہئے تھا ؟اگر آپ اس کا جواب تلاش کرناچاہیں گے تو جواب نفی میں ملے گا ۔بلکہ اس کا صحیح جواب یہ ہے کہ رمضان ،ہمارا رمضان نہیں۔ بلکہ ایک ماہ کا ”فیسٹیول“ رہا جوگذر گیا اورامت کےزیادہ تر بلکہ 90فیصد مردوخواتین اورہم اپنے نفس کی تربیت اور اس کی قدردانی سے محروم رہ گئے ۔
آپ اگر اس کی سچائی اورحقیقت جانناچاہیں تو پڑھئےاوراحتساب کیجئے ۔
جیسے ہی رمضان کاچاند نظر آیا ،بازار سج گئے ۔دوکانوںاور شاپنگ کمپلیکسوں کی رونقیں بڑھادی گئیں ۔رمضان میں بجائے عبادتوں کی تیاری کے بازاروں کوپرکشش بنانے کی تیاریاں شروع ہوگئیں ۔دن کے 12 بجے سے رات کے2 ۔3 بجے تک بازاروں میں بجائے عبادت وتلاوت نماز واذکار کی طرف متوجہ ہونے کے بازاروں کی طرف نکلنے کا روزکامعمول بن گیا ۔مسلم محلوں کےبازاروں میں مردوخواتین کے جتھوں کی شکل میں آنے اورجانے کاسلسلہ شروع ہوگیا اورایک جشن اورمیلے کاسماں بن گیا اورپورے رمضان بنارہا ۔
ہم نے کبھی سوچاکہ جب ہماری عورتیں پورے رمضان اس قدر بازاروں میں رہیں کہ تل رکھنے کوایک دن بھی جگہ نہیں بچی تو آخر انھوں نے رمضان کی راتوں کی عبادتیں کب کیں ؟ایسا لگاکہ رمضان تو عبادت کامہینہ نہیں جشن اورخریدار کامہینہ بن گیا ۔نوجوانوں کی بڑی تعداد3 دن ۔5 دن7دن کی تراویح پڑھ کر چھٹی کرلی ۔بازاروں کے نکڑوں پر جگہ جگہ اپنی اپنی موٹرسائکلوں پر بیٹھنے لگے اورجانے والی بھیڑ کے تماشبین بن کر وقت گذاری میں مصروف رہے ۔کبھی ہم نے سوچاکہ کیا اسی لئے اللہ نے ایسا مقدس مہینہ ہمیں عطافرمایاتھا کہ ہم بجائے عبادت کے غیرقوموں کے میلوں کی طرح بازار سجالیں ؟ رمضان میں میلوں کا کلچرکہاں سے آیا ۔ہمیں عبادتوں سے ہٹاکر رمضان کے تقدس کوپامال کرنے والی ثقافت میں کس نے مشغول کیا ؟ یہ تو رمضان نہیں بلکہ خریداری اورجشن کا مہینہ لگا ۔
دن میں بھی کھانوں کے ہوٹل کھلے رہے ۔مسلما ن ڈھٹائی کے ساتھ بریانی اورقورمے کھاتے رہے ۔ جوس کارنرزپر لوگ گنوں اورمختلف قسم کے جوس پیتے رہے کہیں بھی تو رمضان نہیں لگا ۔کیا یہی اس ماہ مکرم کا احترام ہے؟ و اہ رے آج کا مسلمان پھر بھی ہمیں رب سے ہی شکوہ ہے کہ ہماری دعائیں قبول نہیں ہوتیں اورمسلمان دنیا میں ذلیل ورسواہے ۔
ہوناتو یہ چاہئے تھا کہ رمضان شروع ہونے سے مہینہ ڈیڑھ مہینہ قبل ہی کپڑے خریدلئے جاتے ،ضرورتیں پوری کرلی جاتی ،تاکہ مرد وخواتین اوربچے یکسو ہوکر اللہ کی عبادت کرتےاور رمضان کی قیمتی سعادتوں کے مستحق ہوتے اورجشن اورمیلوں کی خرافات سے محفوظ رہتے ۔
نئے کپڑے بنوانے سے شریعت نے نہیں روکا مگر ترجیحات طے کرنے کاشعور تودیاہے ہرچیز کاموقعہ اورمحل ہے ۔
رمضان تو اللہ نے اسلئے عطافرمایاتھاکہ سال کے گیارہ مہینے دنیاکی مصروفیات کی وجہ سے دلوں پر جو زنگ لگ گئے ہوتے ہیں ،ایمانی حرارت میں کمی آگئی ہوتی ہے ،اس کاازالہ ہوجائے ،نفس امارہ قابومیں آجائے ۔ دل شیطان کی پیروی سے بیزار ہوکر رب کی فرماںبرداری قبول کرنے والا بن جائے ،باطن کاتزکیہ ہوجائے ،مگربازاری کلچرنے خوب رنگ دکھایا ،دکانداروں نے سمجھا کہ دکانداری کاموسم بہار آگیا ،ہم نےسمجھا یہی موقعہ ہے جتناچاہو گھرکےلئے خریداری کرلو ،یہ رمضان ہے موقعہ اچھاہے ۔”پھرالتفات دل دوستاں رہے نہ رہے ۔“
عید کاچاند نظر آیا پوری رات فجر کی اذان کے بعدتک بازار کی خاک چھانی ۔جیسے تیسے عیدالفطر کی نماز پڑھ کر آئے ۔اب سلسلہ کپڑوں کی نمائش کاشروع ہوا ،تم نے کتنے کےکپڑے خریدے ۔تمہیں کیاگفٹ ملا ،تم نے چپل کتنے کی لی ،دکاندار ایک دوسرے سے دریافت کرنے لگے ۔رمضان میں دکانداری کیسی رہی ۔الحمدللہ ۔ماشا اللہ ۔
یہ کسی نے نہیں پوچھا اورنہ ہم نے خود سے سوال کیاکہ رمضان کا ایسامبارک مہینہ ملا، پورے مہینے کے روزے کیسے رہے ۔آخر عشرے کی راتیں کیسی گزریں ۔عبادتوں کا اہتما م کس حد رہا ۔حقیقت یہ ہے کہ اپنے دل سے پوچھئے بازارکی رونق نے سب کچھ لوٹ لیا ۔اورہم ایسا غنیمت موقعہ پاکر بھی اسکی سعادتوں سے محروم رہ گئے ۔
بس جس نے اس کی قدرپہچانی اس بازار کی گہماگہمی سے دوررہے ،خلوت نشین ہوئے ،مساجد کو مسکن بنایا ،گھروں میں آہ سحرگاہی کی ،اس نے اپنے رب کی رحمتوں کوخوب بٹورا ،اورجن مردوخواتین اورنوجوانوں نے بازارکی سیروتفریح اورخریداری کو ترجیح دی ،یقینا خالی ہاتھ رہ گئے ۔اب تو رب ہی کومعلوم اگلاماہ مقدس مقدرہونہ ہو ،جوملاتھا وہ تورخصت ہوگیا ،ہائے ۔”گیاوقت پھرہاتھ آتانہیں“۔
کپڑوں ،چپلوں ،زیورات اور کاسمیٹکس کی دوکانوں پر پورے رمضان ایسی ماراماری رہی کہ کہیں سے بھی نہیں محسوس ہواکہ یہ رمضان ،دن کے روزوں اورراتوں کے عبادت کامہینہ ہے۔پھردل میں یہی سوال گردش کرتاہے ۔عبادت وریاضت اورنزول قران کے اس موسم بہار کو بجائے روحانیت اورتقوی کے حصول میں ڈوب جانے والے ماحول کے جشن خریداری میں کس نے تبدیل کیا ؟عید میں نئے کپڑے پہننا اوربچوں کوپہنانا یقینا مستحب ہے مگر اس کا مطلب یہ تو نہیں ہے کہ رمضان کی راتوں کے عبادتی مقاصد کو اس طرح تبدیل کردیاجائے ۔روزانہ رات کے تین بجے تک ہمارے گھروں کی مستورات بازارکی زینت بنی رہیں ۔دنوں میں تھوڑاساوقت نکال کر ضرورت پوری کی جاسکتی ہے ۔
مسلمانوں سے گزارش:
میں خاص طور سےبرصغیر ہندوپاک اوربنگلہ دیش کے اپنے مسلمان بھائیوں سے گزارش کرناچاہوں گا کہ آئندہ سالوں سے رمضان کے اس نائٹ شاپنگ کلچر کو تبدیل کیجئے ۔اللہ نے رمضان کی راتیں اس طرح کی خریدوفروخت کی ہنگامہ آرائی کے لئے نہیں عطاکی ہیں بلکہ عبادت کےلئے عطافرمائی ہیں ۔راتوں کو زیادہ سے زیادہ آٹھ بجے تک دکانیں کھلی رکھنے کانظام بنائیں ۔آپ نے کبھی غورنہیں کیاکہ جوپولیس کاعملہ عام دنوں میں رات کوگیارہ بجے کے بعد دکان کھلی رکھنےپر چالان کاٹ دیتاہے ۔آخر رمضان میں کیوں نہیں بھٹکتا ۔آپ کیاسمجھتے ہیں کہ وہ آپ کے رمضان کی رعایت کررہاہے نہیں ۔بلکہ اس لئے کہ وہ سوچتاہے کہ اچھاہے انھیں اسی طرح اس مقدس ماہ میں بجائے عبادت کے اسی میں غرق رہنے دو ورنہ بھارت کے قانون کے مطابق رمضان ہویاغیررمضان رات کوگیارہ بجے کے بعد دوااورکھانے کی دکانوں کے علاوہ کوئی دکان کھلی نہیں رکھ سکتے ۔بات دراصل یہ ہے کہ ہم نے دنیامیں غرق ہوکر خود اپنے آپ کو بے وزن کرلیا ۔نتیجہ اللہ کی نظروں میں بھی گرگئے اوردنیاوالوں کی بھی۔

Comments are closed.