حجاب پر کانگریس لیڈر یوٹی قادر کی زہر افشانی، کہا حجاب پہننا ہے تو پاکستان جاؤ !

 

احساس نایاب ( ایڈیٹر گوشہء خواتین و اطفال بصیرت آن لائن، شیموگہ، کرناٹک )

تیر لگا جب سینہ میں زخم کا اتنا نہ ہوا احساس
درد کی انتہا تب ہوئی جب کمان دیکھی اپنوں کے ہاتھوں میں ۔۔۔۔۔

 

پلٹا جو تیر کھاکے کمیں گاہ کی طرف

اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی

 

کل تک اسلام مخالف سنگھ پریوار اور سوکالڈ مودی بھکت مسلمانوں کو پاکستان افغانستان جانے کی دھمکی دیا کرتے تھے؛
لیکن افسوس کہ اب خود کو سیکولر ہونے کا دعوی کرنے والی کانگریس جماعت کے لیڈران بالخصوص ایک کلمہ گو بھارتی مسلمان اپنی کمسن باحیا مسلم بہنوں، بچیوں کو حجاب پہننا ہے تو پاکستان ، افغانستان اور سعودی جانے کے لئے کہہ رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔

جی ہاں!… حیران نہ ہوں، یہ کانگریس کے وزیر یوٹی قادر ہیں بیشک مسلمان بھی ہیں باوجود
حجاب کے حق کے لئے لڑرہی
حجاب کی حمایت میں انصاف کی گہار لگانے والی غیور حجابی طالبات کو پاکستاں یا افغانسان جانے کی ہدایت دے رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔

گزشتہ دنوں یوٹی قادر نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے اگر حجاب چاہئیے تو پاکستان، افغانستان یا سعودی عرب چلی جاؤ ۔۔۔۔۔

سوشیل میڈہا پر یوٹی قادر کے اس بیان کو لے کر عوام میں شدید غم ؤ غصہ دیکھا جارہا ہے ۔۔۔۔
عوام کا کہنا ہے کہ مظلوم طالبات کے حق میں کھڑے ہونے کے بجائے
اپنی سیاسی مفاد کے لئے سنگ پریوار کو خوش کرنے کا کام یوٹی قادر کررہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔؛

لیکن کانگریس میں رہ کر سنگھ ہریوار کو خوش کرنے کی یہ بات کچھ ہضم نہیں ہوتی؛
کیونکہ اس کے مطابق یا تو کانگریس خود سنگھ پریوار ہے یا سنگھ پریوار ہی کانگریس ہے ۔۔۔۔۔۔ ؟ یا نہیں تو دونوں مرج ہیں ۔۔۔۔۔۔

اگر ایسا ہے تو سوچنے والی بات یہ ہے کہ کل تک حجاب اور کانسٹٹیوشن کی حمایت میں بات کرنے والے سدھ رامیا و دیگر کانگریس لیڈران یہ کس پریوار سے ہوسکتے ہیں ؟؟؟
خیر یوٹی قادر کے اس بیان کو جواں سال لیڈر سہیل قنڈق نے ٹوئیٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ انصاف کے لئے حجابی بہنوں کو افغانسان، پاکستان جانے کی بات کہنے سے بی جے ہی کا ایجنڈا مکمل ہوا ہے ۔۔۔۔۔۔

خیر سیاست اور سیاستدانوں کو لے کر کسی نے کیا خوب کہا ہے
سیاست بھی ایک طوائف کے کوٹھے جیسی ہے یہاں عہدے، طاقت، دولت اور شہرت کے آگے سب کچھ بکتا ہے ۔۔۔۔۔۔ ضمیر بھی ۔۔۔۔۔۔

موجودہ حالات کے مدنظر ہمیں بچھو کی کہانی یاد آرہی ہے جہاں ایک مادہ بچھو بچے پیدا کرنے کے بعد انہیں اپنی کمر پر بٹھاتی ہے اور یہ بچے اپنی ہی ماں کی کمر کا گوشت نوچ نوچ کر کھاتے ہیں
اور اُس وقت تک نوچ کھاتے ہیں جب تک کہ ماں بچھو مر نہ جائے اور بچے چلنے کے قابل نہ ہوجائیں ۔۔۔۔۔۔
ہمارے آس پاس ایسے کئی ایمان فروش ، ضمیر فروش ، کم ظرف، غلیظ فطرت لیڈران موجود ہیں جن کی خصلت ہو بہو بچھو کے ان بچوں جیسی ہے جو اپنی ہی ماں کا جسم کھاکر پروان چڑھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔
ہمارے درمیان ایسے ہی چند لیڈران موجود ہیں جو بچھو کی طرح اپنی قوم کو کھاکر خود کو پروان چڑھاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
جو قوم انہیں اپنا بھائی، دوست، ہمدرد کہہ کر احتراما انہیں سرآنکھوں پر بٹھاتی ہے ، کاندھوں پر اٹھاتی ہے، انہیں پیار و محبت کے نذرانہ پیش کرتی ہے اور بڑے ہی یقین بھروسہ کے ساتھ انہیں ووٹ کی صورت اپنی محبت ، اپنا حق دے کر ان کے سروں پر کامیابی کا تاج پہناتی ہے؛ تاکہ آگے چل کر اچھے بُرے حالات میں یہ ان کی طاقت ، ان کا سہارا بنیں، ان کے حق میں آواز اٹھائیں، ان کے جائز مطالبات کو پورا کرنے میں ان کا ساتھ دیں ۔۔۔۔۔؛
لیکن افسوس کہ انہیں اُن لاکھوں چاہنے والوں کا یقین توڑتے ایک پل بھی نہیں لگتا ۔۔۔۔۔۔۔
جن پر یقین کرکے سر آنکھوں پر بٹھایا گیا تھا وہی عہدے، طاقت اور پیسوں کے خاطر اس قدر گر جاتے ہیں کہ بندے تو بندے بندوں کے رب اور رب کے احکامات بھی بھلا دیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
خیر کیا کیجئیے گا جب کچھ لوگون کی خصلت ہی بچھو جیسی ہو تو شکایت کس سے ۔۔۔۔۔۔۔؟!!!

Comments are closed.