بعض کتب پرمفتی محمداشرف صاحب قاسمی کاتبصرہ اورآپ کے دروس( قسط27)

پیشکش:ڈاکٹرمحمد اسرائیل قاسمی
آلوٹ،رتلام، ایم پی
فقہ حنفی پرعلامہ انور شاہ کشمیریؒ کا اعتماد
لاک ڈاون بلکہ این آر سی کے خلاف شاہین باغوں کی تحریکات سے قبل حجۃ الاسلام اکیڈمی ،دارالعلوم (وقف) دیوبند سے بندہ کو ایک مکتوب موصول ہوا، جس میں بتا یا گیا کہ:4 تا6جولائی 2020ء ، مطابق12 تا14 ذی قعدہ1441ء کو دارالعلوم (وقف)دیوبند میں سہ روزہ بین الا قوامی سہ لسانی سیمینار منعقد ہو گا، جس میں مجھے ’’علامہ انورشاہ کشمیری ؒ اورعلوم وفنون‘‘ موضوع پر مقالہ لکھنے کا حکم دیا گیاتھا ۔ میں نے اپنی سعادت مندی یقین کرکے متعلقہ موضوع کے پہلے جزو کو چھوڑ کر دوسرے حصے حضرت علامہؒ کے’’ علوم وفنون‘‘ پراے فور سائز کے 36صفحات پر مشتمل تحقیقی مقالہ لکھا۔ اس سلسلے میں حضرت کے مختلف علمی وفنی پہلووں کاجا ئزہ لیتے ہو ئے فقہ کے سلسلے میں آ پ کے تعمق وگہرائی اور گرفت کا بھی بہ نظر غائر مطالعہ کرنے کا مو قع ملا۔(کمپیوٹر ہیک ہوجانے کی وجہ سے اس کی انپیج فائل کرپٹ ہوگئی، لیکن چونکہ اس کی پرنٹ موجود ہے )اس لیے فقہ حنفی پر حضرت کی گرفت کے بارے میں اپنا تأثر اور فقہ حنفی کے تعلق سے حضرت کی رائے گرامی کوذیل میں نقل کررہاہوں :
’’ مختلف دبستان فقہ پر عمیق نظر کے ساتھ آپ کو فقہ حنفی پر کلی اعتماد و یقین تھا۔ فقہ حنفی سے غیر معمولی شغف و تأثر اور اس کی حقانیت واصابت پر بھر پور شعوروآ گہی کے ساتھ آ پ کو یقین کامل حاصل تھا۔ فقہ حنفی کی اصابت و متانت پرکس قد روثوق اور اعتماد تھا؟اس کا کچھ انداز علامہ یوسف بنوریؒ صاحب کی درج ذیل تحریرسے ہو سکتا ہے کہ:
’کان یقول مارأیت مسألۃ فی الفقہ الحنفی لم تکن لہ حج مؤزرۃ ازید من مذاھب الأئمۃ او مساویۃ لھا، اللھم! الا فی مسألۃ الخمر، فان دلائل الجمھور فیھا غالبۃ کثیرۃ، ولم أفز لقول الامام بشیء یقام براھینھم ۔‘
(نفحۃ العنبر ص93، علامہ یوسف بنوریؒ صاحب )
یعنی شاہ صاحبؒ فرماتے کہ: صرف ایک مسئلہ؛ مسئلۂ خمر کے علاوہ کوئی بھی ایسا مسئلہ فقہ حنفی میں نہیں ہے جو بے دلیل ہو۔ مجھے حنفی فقہ کے پورے ذخیرے میں کوئی مسئلہ بلا دلیل نہیں ملا۔‘‘
( علا مہ انورشاہ کشمیری ؒ اور علوم وفنون، ص 17،از: بندہ :محمد اشرف قاسمی ۔ مقالہ برائے :سہ روزہ بین الا قوامی سہ لسانی سیمینار،حجۃ الاسلام اکیڈمی ،دارالعلوم ،وقف، دیوبند4 تا6جولائی 2020ء ، مابق21تا14ذی قعدہ1441ء)
*خمر کے سلسلے میں حضرت ؒکی بے اطمنانی ناقابل فہم*
حضرت کے علوم وفون سے متعلق دوسری کتابیں مطالعہ میں آ ئیں، جن میں ایک مسئلہ مزید ہے جس کے بارے میں حضرت نے بے اطمنانی کا اظہار فرمایا ہے ۔ نیز نماز کے بعض مسائل ہیں جنہیں احناف کے یہاں ناجائز کہا گیا ہے جب کہ حضرت نے انھیں غیرافضل قرار دیااور تلاش بسیار کے بعداپنے اس موقف پرکچھ متقدمین علماء احناف کے اقوال بھی بیان فرمائے ہیں ۔
دوسرا مسئلہ جس پر حضرت نے بے اطمانی کا اظہار فرمایا ہے وہ کچھ کچھ سمجھ میں آ رہا ہے، لیکن ائمہ متبوعین کی باغی جماعت کو ہر قسم کی شرارت سے باز رکھنے کے لیے اس دوسرے مسئلے کو اپنے مقالہ میں نے نہیں نقل کیا تھااور یہاں بھی اسے ترک کررہوں۔ البتہ نماز کے وہ مسائل جنھیں ناجائز کے بجائے غیر افضل قرار دیا ہے ، حضرت کے اس موقف سے طبیعت مکمل طو پر مطمئن ہے۔ لیکن خمر کے تعلق سے احناف کے موقف کو اصول فقہ کی کتاب اصول الشاشی کو تازہ تازہ پڑھانے کا موقع ملا تو مجھے حضرت کی بے اطمنانی سمجھ میں نہیں آئی۔ خمر کے سلسلے میں اصو ل الشاشی میں جو تقریر ہے اسے ذیل میں ملاحظہ کریں:
فضل شروط صحۃ القیاس خمسۃ، أحدھا أن لا یکون فی مقابلۃ النص ،والثانی أن لا یتضمن تغییر حکم من احکام النص ،والثالث أن لا یکون المعدی حکما لا یُعقل معناہ، والرابع أن یقعَ التعلیلُ لِحکم شرعی لالاَمرٍ لغوی ،و الخامس أن لا یکون الفرع منصوصا علیہ۔
’’قیاس کے صحیح ہونے کی پانچ شرطیں ہیں: ان میں سے ایک یہ کہ قیاس نص کے مقابلہ میں نہ ہو، دوم یہ کہ احکام نص میں سے کسی حکم کے متغیر کرنے کو متضمن نہ ہو، سوم یہ کہ جس حکم کو (اصل سے فرع کی طرف) متعدی کیا گیا ہے ایساحکم نہ ہو جس کے معنی معقول نہ ہوں، چہارم یہ کہ علت کا استخراج حکم شری کے لیے ہو، نہ کہ امر لغوی کے لیے، پنجم یہ کہ فرع منصوص علیہ نہ ہو۔‘‘
ومثال الرابع وھو مایکون التعلیل لامرشرعی لا لامر لغوی فی قولھم المطبو خ المنصف خمرٌ،لان الخمرَ إنما کان خمراً لأنہ یُخامر العقلَ وغَیْرُہ یُخامِرُ العقلَ أیضا،فیکون خمراً بالقیاس ،والسارق إنما کان سارقالأنہ أخذ مالَ الغیر بطریق الخُفیۃِ ،وقد شارکہ النَّبَّاشُ فی ھذا المعنی فیکون سارقابالقیاس ،وھذا قیاس فی اللغۃ مع اعترافہٖ ان الإسم لم یوضع لہ فی اللغۃ ،والدلیل علی فساد ھذا النوع من القیاس :أن العرب یُسمّٰی الفرس اَدْھَم َلِسَوَادِہ و کُمَّیَْتًا لحُمْرتِہٖ ثم لا یُطلق ھذا الإسم علی الزنجی و الثوب الأحمر،ولو جرت المُقَایَسَۃُ فی الاسَامِی وذلک لان الشرع جعل السرقۃَ سببا لنوع من الا حکام فإذا علَّقنا الحکمَ بما ھو أعم من السرقۃ وھو أخذ مال الغیر بطریق الخُفیۃِ ، تبین أن السبب کان فی الأصل معنیً ھو غیر الشرقیۃ وکذالک جعل شُرْبَ الخمر سببا لنوع من الأحکام، فإذا علَّقنا الحکمَ بامرأعمّ من الخمر تبین أن الحکم کان فی الأصل متعلقا بغیر الخمر۔
(اصول الشاشی، الا صل الرابع، بحث کون شرط صحۃ القیاس خمسۃ، صفحات85،86،87،یاسر ندیم اینڈ کمپنی دیوبند)
’’ اور مثال رائع اور وہ ہے کہ بیان علت امر شرعی کی وجہ سے ہو،امر لغوی کی وجہ سے نہ ہو۔
شوافع کے قول میں ہے کہ شیرہ جس کو پکا کر نصف کر لیا گیا ہو خمر ہے ،کیونکہ خمروہ خمر ہوتی ہے اس لیے کہ وہ عقل کو چھپادیتی ہے اور اس کے علاوہ بھی(چیز) عقل کو چھپادیتی ہے ،پس اس کے علاوہ چیز بھی بذریعہ قیاس خمر ہوگی۔
اور سارق، سارق اس لیے ہے کہ اس نے چپکے سے دوسرے کا مال لیا ہے اور اس معنی میں(نباش) کفن چور بھی اس کے ساتھ شریک ہے ،پس بذریعہ قیاس وہ بھی سارق ہوگا،اور یہ قیاس فی اللغۃ ہے ۔اس اعتراف کے باوجود کہ لفظ سارق لغت میں نباش کے لئے وضع نہیں کیا گیا ہے۔
اور قیاس کی اس نوع کے فاسد ہونے پر دلیل یہ ہے کہ عرب سیاہ گھوڑے کا نام ادہم اور سرخ گھوڑے کا نام کمیت رکھتے ہیں، پھر اس لفظ کا اطلاق حبشی اور سرخ کپڑے پرنہیں کرتے ہیں ۔ اگر اسامی لغویہ(لغوی) میں قیاس جاری ہوتا تو علت کے پائے جانے کی وجہ سے یہ اطلاق جائز ہوتا۔
اور اس لیے کہ یہ اسباب شرعیہ کے ابطال کا سبب بنے گا۔اور یہ اس لیے کہ شریعت نے سرقہ کو ایک قسم کے حکم کا سب بنایا ہے، پس جب ہم علم کو اس پرمعلق کر دیں جو سرقہ سے عام ہے اور وہ دوسرے کے مال کو چپکے سے لینا ہے ،تو ظاہر ہوگا کہ سب اصل میں ایک ایسا معنی ہے جوسرقہ کے علاوہ ہے، اور اسی طرح شرب خمر کو ایک قسم کے حکم کا سبب بنایا ہے، پس جب ہم حکم کو اس امر پرمعلق کردیں جوخمرسے عام ہوتو ظاہر ہوگا کہ حکم اصل میں غیرخمر کے ساتھ متعلق تھا۔ ‘‘
اسماء میں مسمی ہی متعین ہوتا ہے ، لغوی لحاظ سے مسمی کی تعریف کا کوئی جزو دوسرے مسمی میں پایا جائے تو اس بنیاد پر ایک مسمی کا حکم دوسرے مسمی میں جاری کرنے کا مطلب یہ ہے کہ پہلے مسمی میں کمی تھی، اور پہلے مسمی سے عدول اختیار کیا جارہا ہے ۔ اس طرح مسمی اول کے لیے جاری ہونے والے حکم کا کو ئی مطلب نہیں باقی بچتا ہے ۔ احناف نے خمر جو کہ مسمی ہے اس میں حکم نص کو محصور کیا اس کی یہی وجہ ہے کہ مسمی پر جاری ہونے والا حکم چھوڑنا لازم نہ آ ئے۔
احناف نےاس پرنظائر بھی قائم فرمائے ہیں : جیسے نباش او رطرار میں سرقہ کالغوی معنی پایا جاتا ہے لیکن طرار اور نباش میں اجرائے حکم کے سلسلے میں سرقہ کے لغوی معنی کے بجائے مسمی کا پورا خیال کیا گیا ۔جیسے کہ گھوڑے کی سرخی کی وجہ سے اس کا نام کمیت تو رکھ دیا گیا، لیکن وہ اسم سرخ کپڑے پر نہیں جاری کیا جاتا ہے۔کالا ہونے کی وجہ سے گھوڑے کو ادھم سے موسوم کیا گیا ،لیکن لغوی طور پر حبشی میں کالا کے معنی پائے جانے کے باجود حبشی کو ادھم نہیں کہا جاتا ہے، اسی طرح خمر کے لغوی معنی کی رعایت میں دوسری اشیا میں اس کا حکم نہیں جا ری کیا جایائے گا ۔
اتنا واضح اصول ہونے کے باجود حضرت ؒنے کس لحاظ سے اس پر اپنی بے اطمنانی ظاہر فرمائی ، میری سمجھ میں نہیں آ رہا ہے۔
احناف پرقیاس کا الزام لگانے والے ذرہ برابر بھی ایمانداری کے ساتھ غیر جانب دار ہوکر اصول الشاشی اور دیگر حنفی اصول فقہ کا مطالعہ کرلیں تو اچھی طرح یہ بات ان کی سمجھ آجائے گی کہ احناف سب سے زیادہ اہتمام وشدت کے سا تھ احادیث نبوی پر عمل کے پابند ہیں۔حتی کہ قیاس پر ترجیح دے کر ضعیف احادیث، صحابہ کرام کی انفرادی آراء کو بھی احکام ومسائل میں اپنا معمول بنائے ہو ئے ہیں ۔
جاری۔۔۔۔۔۔۔
Comments are closed.