Baseerat Online News Portal

بعض کتب پرمفتی محمداشرف صاحب قاسمی کاتبصرہ اورآپ کے دروس ( قسط28)

پیشکش:ڈاکٹر محمد اسرائیل قاسمی

آلوٹ،رتلام، ایم پی

حسامی
سراجی اور حسامی پڑھنے کے لیے رتن پورمدرسہ کامحمد نامی ایک انتہائی ذہین اور ذی استعداد طالب علم آتا۔سراجی میں بسم اللہ کراکے میں نے اپنی کا پی ’’ محفوظات سراجی ‘‘(جو میں درجہ پنچم، پھر ہفتم اس کے بعد افتاء میں تین بار تین سالوں میں سراجی پڑھنے کے دوران تیار کی تھی)اسے دینا چاہا، لیکن اسی درمیان مفتی محمد زبیرصاحب ندوی نے جدول (Table) کی صورت میں اصحاب الفروض وغیرہ کا نقشہ تیار کیا ۔زیادہ قریب الفہم ہونے کی وجہ سے میں نے اسی نقشے کی پرنٹ نکال کر بچے کو دے دیا، اور یہ طے کیا کہ حسامی ختم کرکے ایک دو ہفتے میں سراجی مکمل کرادوں گا۔ ان شاء اللہ۔
لیکن سراجی کا درس نہیں ہوسکتا۔
ہمارے پاس یہاں جو حسامی کا نسخہ تھا وہ میں نے مفتی محمدسلمان ناگوری سے حاصل کیا تھا، انھوں رتن پور(گجرات) مدرسہ میں اپنے زمانہ طالب علمی میں اس میں پڑھائی کی تھی، اس میں جگہ جگہ پنسل سے اردو میں اہم حواشی دیکھ کر اندازہ ہوا کہ سلمان کافی ذی استعداد ہیں ، میں نے مدرسہ احیاء العلوم کی انتظامیہ اور دیگر لوگوں کو بتایا کہ شہر میں اس لڑکے سے زیادہ ذی استعداد کوئی عالم نہیں ہے۔بعد میں جب وہ شاہی مرادآ بادسے فارغ ہو کر وہ مہد پور آ ئے تو فوراً انتظامیہ نے مدرسہ میں ان کاتقرر کرلیا۔
زمانۂ طالب علمی میں استاذ کے درس کے علاوہ حسامی کا حاشیہ اور اس کی عربی شرح’’ نامی ‘‘سے میں استفادہ کرتا تھا، ’نامی‘ میرے برادر بزرگوار حضرت مولانامحمدمعظم صاحب قاسمی دامت برکاتہم کے نوادرات میں مجھے ملی تھی ،چونکہ دوران تعلیم وہ گویامیری ملکیت تھی اس لیے میں نے اس کامطالعہ کرتے وقت جگہ جگہ اس میں عربی حاشیہ بھی لگایا تھا۔ لیکن یہاں میرے پاس وہ ’نامی‘ دستیاب نہیں تھی ، میں بہت زیادہ مصروف بھی تھا، نیز یہ طالب علم کافی ذہین تھا، اس لیے مجھے فکر تھی کہیں ترجمہ میں کچھ سقم کی وجہ سے بچے کے ذہن میں منفی خیال نہ پیدا ہوجائے۔اس لیے میں نے اُردو میں حسامی کی دوتین شرحیں پی ڈی ایف کی صورت میں ڈاون لوڈ کرلیں ، اور رات میں سیرحاصل ان کا مطالعہ کرکے مضمون پر قابوحاصل کرتا،اور حسامی کا حاشیہ بھی پڑھتا۔
دوسرے دن جب وہ بچہ آتا تومیں خود ترجمہ کرنے کے بجائے اسی کو ترجمہ کے لیے بولتا ، وہ بچہ اتنا عمدہ ترجمہ کرتا کہ طبیعت باغ باغ ہوجاتی ،جس طرح عربی عبارات پوری طرح جامع ومانع ہے ،اس بچے کا ترجمہ بھی کافی جامع اور مانع رہتا، مجھے ایسا محسوس ہوتا کہ بچہ حاشیہ وغیرہ کا اچھی طرح مطالعہ کرکے آتاہے ، اور میری تقریر کے بغیرہی ساری باتیں سمجھ رہا ہے اسی لیے اس طرح ترجمہ کرتا ہے ،اس احساس کی و جہ سے میں نے اس سے کہا :

’’ تمہارے ترجمہ سے ہی معنی ومفہوم اچھی طرح واضح ہوجاتا ہے اور تم اس کے حاشیہ سے بھی باقی مضامین سمجھ سکتے ہو، میں رسمی طورپر اس کو تمہیں سمجھا رہاہوں تاکہ تدریج وترتیب کے ساتھ تمہاری پڑھائی جاری رہے ، اگر یہاں پڑھنا بند کردو تو شاید مرتب انداز میں پڑھائی کا سلسلہ جاری نہ رہ سکے۔‘‘

اس بچے کی ذہانت واستعداد پرخوشی ومسرت کے ساتھ کبھی کبھی اس کے ضائع ہوجانے خیال بھی دماغ میں پیدا ہوجاتا ۔ کیونکہ یہاں مولوی نمابعض لوگوں نے یہ سوچ پیدا کردی ہے کہ :
”باہر کے مولیوں کو بھگاکر مقامی لوگوں کواپنی گلی و محلوں کی مسجدوں ومدرسوں میں امام نام کا مزدور بن کر رہنا چاہئے۔ “
ان نادانوں نے دین کی بڑی خدمت یہ ہے کہ باہر کے مولیوں سے افادہ استفاہ کو کسی طرح موقوف کردیاجائے ۔ دین کے نام پران کے قلب ونظریہ کی ایسی تنگی میرے دل ودماغ میں کچوکے لگاتی ہے کہ اتنا ذہین بچہ جوکہ دنیا کے کسی بھی براعظم میں اسلام کی تبلیغ و اشاعت اوردینی تعلیمی خدمات انجام دے سکتا ہے ، کہیں کوئی اس کے بھی ذہن میں یہ نادانی پیدا کرکے اس کی صلاحیتوں کوعلاقہ پرستی اورباہمی تصا دم وٹکراؤ کی طرف نہ پھیردے۔
جاری۔۔۔۔

Comments are closed.