Baseerat Online News Portal

بعض کتب پرمفتی محمداشرف صاحب قاسمی کاتبصرہ اورآپ کے دروس ( قسط30)

پیشکش:ڈاکٹر محمد اسرائیل قاسمی

القرأۃ الراشدہ،الجزء الثالث

یہاں میں نے مختلف درسی کتب پر اپنے تأثرات کوضبط کیا ہے ، لیکن اگر’’ا لقرأۃ الراشدہ الجزء الثالث‘‘ سے متعلق اپنی عقیدت و محبت کا اظہارنہ کروں تو گذشتہ تمام تاثرات میرے لیے بالکل بے معنی ہوکررہ جائیں گے۔
زمانہ طالب علمی میں درس نظامی کے تحت
جب نصاب کا ایک جزوء ہونے کی وجہ سے’’متنبی‘‘اور’’مقامات حریری‘‘ کو پڑھ رہاتھا ، اس وقت’’ متنبی ‘‘اور’’ مقامات‘‘ کے استاد نے اپنے آخری درس میں عربی زبان وادب میں ان کتابوں کی اہمیت وافادیت کو درسگاہ میں رفقاء کے سامنے بیان کیا اور پورا پیریڈ انھیں دونوں کتابوں کی ادبی عظمت بیان کرنے میں صرف کردیا۔نیزآخرمیں فرمایا کہ :

’’اب کل سے تم لوگوں کو’’ مختارات من ادب العرب‘‘ پڑھانے کے لیے فلا ں ۔۔۔۔۔عالم آ ئیں گے اور ان دونوں کتابوں کی خوب برائی بیان کریں گے ، اس لیے میں نے ان دونوں کتابوں کے بارے میں تفصیلی گفتگو کی ہے۔‘‘
دوسرے دن جب وہ عالم صاحب تشریف لائے تو واقعی انھوں نے ’’مختارات من ادب العرب‘‘کی نثری اہمیت وافادیت بیان کرنے کے ساتھ ہی متنبی اور مقامات کی کافی برائی بیان کی ۔ہمیں ان دونوں کتابوں کی مذمت سن کر ایسا محسوس ہوا کہ وہ دوسرے نصاب تعلیم سے کافی متأثر ہیں ، چونکہ دیوبند میں تقابلی امتحان میں ’’مختارات من ادب العرب‘‘ کا پرچہ نہیں تھا۔اس لیے ہم نے طے کیا کہ’’مختارات من ادب العرب‘‘پرتوجہ دینے کے بجائے دارالعلوم دیوبند میں داخلہ کے تقابلی امتحان کے لیے اس پیریڈ میں کوئی دوسری کتاب ہی پرحل کریں گے۔ اس طرح دوران تعلیم اس کتاب سے میں مستفید نہیں ہوسکا۔
پھرلکھنویونیورسٹی ایم اے سال دوم میں بھی یہ کتاب داخل نصاب تھی ۔ بدقسمتی کی بچپن میں ایک استاذکی تقریر سے جوبدظنی پیداہوگئی تھی وہ یہاں بھی نہیں دور ہوئی، سفرمیں یوں ہی اٹھتے بیٹھتے امتحان میں پاس ہونے کے لیے میں نے اس پر سرسری نظر ڈوڑالی تھی۔
آ ج جب کہ یہ کتاب اور اس کے ساتھ’’منثورات من ادب العرب‘‘ کو پڑھانے کو نوبت آئی تو ان کا مطالعہ کرتے وقت افسوس ہوا کہ اپنے بزرگوں کی ان عظیم ومبارک کتابوں سے بے اعتنائی اختیار کرکے میں بڑی سعادت سے محروم رہا۔
لاک ڈاون میں نرمی کی وجہ سے ان کتابوں کے اسباق نہیں ہو سکے،البتہ القرأۃ الراشدۃ تینوں حصوں کو پڑھنے وپڑھانے کا موقع ملا۔ رات میں ان کا مطالعہ کرتا، لغات وغیرہ حل کرتا ، اور ترجمہ ریکارڈ کرتا اور صبح بچوں کو ان کی لغات لکھوا کر ترجمہ سنتا۔ القراۃ الراشدۃ حصہ سوم کا ترجمہ کرتے وقت اور کبھی کبھی سنتے وقت آ نکھیں مصروف وضو ہوجا تیں۔ خیال آتا کہ ہمارے بزرگوں نے اسلامی معاشر ہ وسماج تشکیل دینے اورمسلمانوں کو اپنی بنیادوں سے مربوط کرنے کے لیے طالب علم وقاری کی نفسیات ودلچسپیوں کی رعایت کرتے ہو ئے کتنی محنت وعرق ریزی سے یہ نصاب تیارکیا ہے۔
جب کبھی کسی کواسلامی معاشرہ قائم کرنے کا خیال آ تاہےتو اس کے ذہن ودماغ میں مختلف تہذیبوں کے نقشے ،منصوبے اور خاکے ابھرتے ہیں،پھروہ الجھن کا شکارہوکرکسی حتمی نتیجے تک نہیں پہنچ پاتا ہے۔
’’القراۃ الراشدۃ‘‘ حصہ سوم کا پہلا مضمون(Chapter)’’ الحیاۃ فی مدینۃ الرسولْﷺ‘‘ کو پڑھ کر یہی نہیں کہ وہ اسلامی معاشرہ کے قیام کے لیے مختلف و زولیدہ تصورات سے باہر نکل سکتا ہے بلکہ وہ اپنی شب وروز اورپورے معاشرے کو اسلامی سانچنے میں ڈھالنے کا اہل پاتا ہے۔ ’’خیرالقرون“میں مدینہ منورہ کی دینی باد بہاری تھی،اس سبق سے اس باد بہاری سے اپنے اذعان وایقان میں تازگی وتوانائی محسوس کرتا ہے۔ اوراس کو پڑھنے والے بچے بھی مشرکانہ وملحدانہ ماحول کے بجائے دینی،ایمانی اور اسلامی فضاء وماحول سے محظوظ ہوکر اسی شب وروز میں جینے ومرنے کی امنگیں لے کر درسگاہ سے اٹھتے ہیں ۔
اسی طرح ’’ المنارۃ تتحدث‘‘ کامطالعہ کرتے وقت جہاں فتوحات کے پھریرے، غازیان اسلام کی شجاعت وشہادت کے ایمان پرورمناظر’انقلابات ‘‘ کے روح فرسا احوال طالب علم وقاری کو اپنی جڑوں سے مربوط کرتے ہیں و ہیں حال کے تاریک غارمیں بیٹھ کر ماضی کی روشنی وچمک سے رہنمائی بھی فراہم کرتے ہیں ۔
یہ درس پڑھتے اور پڑھاتے ہوئے میں بے قرارہوگیا اورمصنف حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی علیہ الرحمہ کی روح پُرفتوح کی بلندی درجات کے لیے دل کی گہرائیوں سے دعائیں نکلیں۔
پہلے بھی حضرت کی کئی کتابوں کے مطالعہ کی سعادت حاصل ہوئی ،حضرت والا کی تمام کتابوں میں مشترکہ طورپر قاری کی سوچ کو صحیح وتعمیری رخ پر ڈالنے کی کامیاب ومسعود کوشش کارفرما نظر آتی ہے ۔ وہ چیز اس کتاب میں بھی پوری طرح موجود ہے۔

*ترجمہ قرآن*
بچیوں کو پندرہ پارے ترجمہ وتفسیر کی بھی تعلیم دینی تھی ،عدیم الفرصتی کی وجہ سے معذرت کرتے ہوئے میں نے انھیں بتایا کہ :

’’سب سے اچھا ترجمہ اور تفسیر ’بیان القرآن‘ہے،لیکن تم لوگ اس کو سمجھ نہیں پاؤ گی ، اس لیے ’بیان القرآن‘کے بجائے ’ترجمہ شیخ الہند ‘سے دوایک رکوع ترجمہ یادکرکے آیا کرو، اور اس کی پوری تفسیر’معارف القرآن ‘میں پڑھ لیا کرو،میں کہیں کہیں سے ترجمہ قرآن اور ’معارف القرآن‘ سے بعض آ یات کی شان نزول ،کہیں کہیں مسائل وغیرہ پوچھوں گا۔‘‘
غرض یہ کہ ترجمہ وتفسیر کی تعلیم کاسلسلہ اس طرح چلتا رہا۔ میں کبھی کبھی معارف القرآن میں نشاندہی کردیتا کہ یہ مسائل خاص طورپر پڑھ کرآؤ۔
جب کہ عربی زبان کی تعلیم میں ’’صرف‘‘ کے لیے ’’ماضی‘‘ و’’مضارع‘‘ اور’’ امر‘‘ کی گردانوں اور بعض اشیاء وافعال(Activities) میں اولاً ٹی پی آئی میتھڈ ا(T.P.I.Method)اختیار کرتا ہوں ۔ میں نے لاک ڈاون کے موقع پر اس طریقہ تعلیم کافائدہ اچھی طرح محسوس کیا کہ: دوسرے اداروں کے 15؍16 سال کے بچوں اور بچیوں کوابتدائی گردانیں یاد کرنے میں دشواری ہورہی تھی جب کہ اسکول میں جن بچوں نے مجھ سے ماضی،مضارع اور امرکی گردانیں ٹی پی آئی میتھڈ سے یاد کیا تھا، وہ ان نئے طلباء سے کافی کم عمر ہونے کے باجود دوسری گردانیں بھی کافی جلدی یاد کرلیتے تھے۔
اُردو، ادعیہ ماثورہ ، ناظرہ قرآن مجید، اسکولی بچوں کو ترجمہ قرآن اور گھر پراپنے بچوں کوانگریزی وہندی کی تدریس میں انفرادی انداز کے سا تھ عام طورپرمنصوبی طریقہ(Projective Method) اختیارکرتا ہوں ،منصوبی طریقہ میں مطالعہ (Study)وریڈنگ (Readind)اورمیمورائزیشن (Memorazation)کاذوق بچوں میں پیدا کرنے کی کوشش رہتی ہے۔ بالکل چھوٹے بچوں کو ادعیہ ماثورہ اجتماعی طورپر میں خود پڑھاتا، اوربڑے اسکولی بچوں کو ہندی میں دستیاب’’منسون دعائیں‘‘،’’ اذکارنماز‘‘وغیرہ کتابوں سے یادکرنے کے لیے بول دیتا۔
ہندی میں دستاب ادعیہ سے بچے نماز وغیرہ کی دعائیں یاد کرلیتے،بعض حروف کے مخارج میں ان سے غلطیاں ہوتیں جسے ناظرہ قرآن میں درست کرانے کی کوشش کرتا اور کچھ دنوں تک انھیں خود سے پڑھا دیتا اور چونکہ انگریزی میں Z اور J کے تلفظ کے فرق بچے بولتے اور سمجھتے ہیں،اس لیے ہندی میں عربی الفاظ پڑھنے کے باوجود لزنگ (Listening)کرانے پربچے ان الفاظ کے تلفظ(Pronunciation)کو کسی قدردرست کرلیتے ہیں ۔

جاری۔۔۔

Comments are closed.