Baseerat Online News Portal

عالم اسلام کے عظیم مصلح، شیخ محمود آفندی

مفتی محمد خالد حسین نیموی قاسمی

رکن الاتحاد العالمی لعلماء المسلمین

عالم اسلام کے عظیم مصلح، صوفی مزاج اسلامی داعی اور متحرک رہنما شیخ محمود آفندی اب ہمارے درمیان نہیں رہے ،جاتے جاتے بہتوں کو تڑپا گئے. ان کی محبت میں تو حینِ حیات بھی بہت سے عشاق تڑپتے تھے.. اردو داں طبقے میں ان کے حوالے سے بڑا تجسُّس ہے، ذیل کے سطور میں ان کی شخصیت اور کارنامے کی مختصر عکاسی کی گئی ہے.
وہ عظیم شخصیت جو ترکی اور بیرون ملک لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کی شکل و صورت بدلنے میں کامیاب رہے. ، ایک مذہبی جماعت قائم کی جو دین اسلام کو اپنا محور اور قرآن و سنت کو اپنا فکری سرچشمہ سمجھتی ہے ، اور وہ عثمانیوں سے اپنے نسب پر قائم ہے اور خلافت کی پر شکوہ تاریخ پر فخر کرتی ہے۔
شیخ محمود آفندی یوں تو صوفی منش آدمی تھے لیکن خارجی زندگی میں وہ ایک متحرک رہنما اور اسلام کے داعی اور عملی محافظ تھے، مصطفی کمال اتاترک کی جدید ترکی میں جس طرح اسلام اور اس کے چاہنے والوں پر ظلم وبربریت و استبداد کے مظالم ڈھالے گئے،وہ عالم آشکارا ہے؛ لیکن اس کے باوجود ایک عرصہ بعد آج ایک مرتبہ پھر اگر ترکی میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ ہو رہی ہے تو اس میں اسی شیخ محمود آفندی کا کلیدی کردار ہے،اور رجب طیب اردوغان کی شخصیت کی تعمیر میں بھی ان کا کردار اہم ہے،بہرحال وہ مردم شناس و مردم ساز شخصیت کے مالک تھے ان کی رحلت سے تمام امت مسلمہ بالخصوص اھل ترکی کا بے حد نقصان ہوا،
محمود افندی (محمود استی عثمان اوغلو) 1929 میں ترکی کے صوبے ترابزون کے اوف نامی گاؤں کے ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے، جو کہ موجودہ ترک صدر اردگان کی جائے پیدائش "ریزے” سے متصل شہر ہے۔دینی ماحول میں پرورش ہوئی.. کم عمری میں قرآن مجید حفظ کر لیا.. شیخ تسبیحی زادہ سے نحو صرف اور دیگر علوم عربیہ کو حاصل کیا. پھر شیخ محمد راشد عاشق کوتلو آفندی کی خدمت میں رہ کر ان سے قراءت اور علوم قرآن کی تعلیم حاصل کی، بعدازاں شیخ محمود آفندی نے شیخ دورسون فوزی آفندی (مدرس مدرسہ سلیمانیہ )، سے دینیات، تفسیر، حدیث، ، فقہ اور اس کے ماخذ، علم کلام اور بلاغت اور دیگر قانونی علوم کی تعلیم حاصل کی۔ مذکورہ اساتذہ سے انھوں نے علوم عقلیہ ونقلیہ میں اجازت حاصل کی اس وقت وہ 16 سال کی عمر میں تھے.
آپ اپنے فکری رجحان کے لحاظ سے
صوفی رجحانات کے حامل ہیں ، نقشبندی، حنفی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں انھوں نے روحانی سلسلہ نقشبندیہ کمشنماونیہ کی اجازت اپنے شیخ احمد آفندی مابسیونی سے حاصل کی ، ، یہاں تک اللہ تعالیٰ کی توفیق آپ کی زندگی میں ایک نیا موڑ آیا. فوجی خدمات انجام دینے کا وقت آپ کے لیے میسر ہوا، یہاں ایک نئے شیخ کے ساتھ اپنی عملی زندگی کو پروان چڑھا نے کا موقع ملا. ملٹری سروس کا مرحلہ ان کی زندگی کا ایک روشن صفحہ اور عملی زندگی کا ایک نیا باب تھا جس میں ان کی ملاقات ان کے شیخ اور مرشد علی حیدر اخسخوی سے ہوئی۔ان سے آپ نے بہت کچھ سیکھا اور ان علوم ومعارف اور روحانی کمالات حاصل کیے.
شیخ محمود آفندی نے لوگوں کی نماز کی امامت کی اور اپنے گاؤں کی مسجد میں طلباء کو پڑھایا۔انھوں نے سال میں 3ہفتے ترکی کے اطراف کا دعوتی و تبلیغی سفر کے لیے وقف کررکھا تھا ۔انھوں نے جرمنی اور امریکہ سمیت کئی ممالک کے دعوتی اور تعلیمی دورے کیے، پھر 1954 میں استنبول میں اسماعیل آغا مسجد کے امام مقرر ہوئے۔ 1996 میں ریٹائر ہونے تک وہیں رہے، اور وہ استنبول میں درس و تبلیغ کرتے رہے اور بہت سے طلباء اور مسترشدین کو اپنی طرف متوجہ کرتے رہے، بلکہ سچ یہ ہے کہ کہ لوگوں کی بڑی تعداد خود آپ کی طرف کشاں کشاں چلی آتی تھی.
نتیجتاً ایک عظیم فکری وعملی منہج قائم کرنے میں وہ کامیاب رہے، جس کی بنیاد دعوت الی اللہ ، احیاء سنت اور ریاستی حکام سمیت معاشرے کے تمام طبقات کی حق کی طرف رہنمائی تھی ، انھوں نے ایسا اسلوب پیش کیا جس میں حق اور باطل میں واضح فرق قائم ہوجائے.
استنبول میں 12 ستمبر 1980 کو پیش آنے والی دوسری بغاوت سے پہلے، اور اسّی کی دہائی کے اوائل میں ملک میں پیدا شدہ انتشار کے دوران دائیں اور بائیں بازو کی جماعتوں کے درمیان شیخ آفندی مضبوطی کے ساتھ یہ آواز بلند کر رہے تھے کہ ہماراقومی وملی فریضہ یہ ہے کہ ہم نیکی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں، اور ہمارا فرض لوگوں کو زندگی بخشنا ہے، انہیں مارنا نہیں۔
شیخ آفندی کی فوج اور سیکولرازم کے ساتھ جد وجہد کی روشن تاریخ ہے
ترک عوام پر ان کے بہت زیادہ اثر و رسوخ کی وجہ سے، انہیں فوجی جرنیلوں اور ریپبلکنز (ریپبلکن پیپلز پارٹی) نے ہراساں کیا، خاص طور پر 1960 کی بغاوت اور ملک میں ہنگامی حالت میں داخل ہونے کے بعد،… فوجی انتظامیہ نے انہیں جلاوطنی کی سزا میں انھیں ترکی کے وسط میں واقع اسکی شہر بھیجنے کا فیصلہ کیا ، لیکن اس فیصلے پر عمل درآمد کی نوبت نہیں آئی نہیں. کئی آپ کے جاں نثار اس راہ میں ڈٹ گئے. اس وقت استنبول کے مفتی صلاح الدین قیا ان دفاع کرنے والوں میں سب سے آگے تھے ۔
1982 میں، محمود آفندی پراسکودر خطہ کے مفتی شیخ حسن علی اونال کے قتل میں ملوث ہونے کا بے بنیاد الزام لگایا گیا. ڈھائی سال کے بعد عدالت نے انہیں اس الزام سے بری کر دیا
1985 میں انہیں ریاستی سلامتی کی عدالت میں ماخوذ کیا گیا کیونکہ ان پر الزام تھا کہ ان کی تقریر وبیان ملکی سلامتی اور سیکولر شناخت کے لیے خطرہ ہے لیکن عدالت نے اس معاملے میں بھی ان کی بے گناہی کا فیصلہ سنایا۔
2007 میں استنبول کے Çavuşpaşa محلے میں شیخ محمود آفندی کی نئی رہائش گاہ کے قریب ان کی گاڑی پر فائرنگ کی گئی جہاں قریب کے اسپتال میں وہ زیر علاج تھے ،اس طور پر انھیں قتل کرنے کی کوشش کی گئی ، لیکن جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے ” کے مصداق انھیں کوئی چوٹ نہیں آئی۔
15 جولائی 2016ء کی فوجی بغاوت میں انہوں نے اپنے چاہنے والوں کو صدر ایردوان کا ساتھ دینے کے لیے میدان میں نکلنے کا کہا تھا۔ وہ اسلام پسند سیاستدانوں کے سچے اور مخلص ساتھی تھے۔
ان کے اثر و رسوخ کا دائرہ کافی وسیع اور اس کے پیروکاروں کی تعدادکثیر ہے.
ایک ایسے وقت میں جب عربی حروف میں پڑھنے لکھنے والے خال خال ہی نظر آتے تھے اور 40 سے 50 سال کا عرصہ ایسا بھی گذرا کہ قرآن پڑھنے والے کم ہی نظر آتے تھے.عربی میں اذان تک پر پابندی تھی .. لیکن شیخ کی کوششوں سے مختصر عرصہ میں ہزاروں کی تعداد میں حفاظ قرآن کریم تیار ہوئے ۔ اور دسیوں ہزار طلباء و طالبات کو اسلامی نہج پر تربیت دی گئی اور شیخ پوری دنیا میں لاکھوں لوگوں میں اسلامی بیداری پیدا کرنے کا ذریعہ بنے ۔(بعض معلومات الجزیرہ نیٹ ورک کے صحافی احمد درویش کی تحریر سے مستفاد ہیں.)
جدید ترکی، اور معاشرہ کی اصلاح میں آفندی رحمۃ اللہ علیہ کا بڑا اہم رول رہا ہے، ایسے وقت میں جبکہ ترکی دہریت کی دہلیز پار کرچکا تھا، اسلامی شعائر کو پامال کیا جارہا تھا؛ تب :مردے از غیب بیرون آید؛ کے مطابق اس مردِ مصلح نے توحید واصلاح بلکہ اعلاء کلمۃ اللہ کا آوازہ بلند کیا. اسی وجہ سے انھیں بعض اہل علم ترکی کا مجدد بھی کہتے ہیں.
ترکی زبان میں آپ کی زبردست تفسير روح الفرقان عظیم علمی کارنامہ ہے.
2010 میں، 42 ممالک کے 350 اسکالرز ممتاز ماہر تعلیم کی موجودگی میں شیخ محمود آفندی نقشبندی کو انسانیت کی خدمت کے لیے بین الاقوامی سمپوزیم ایوارڈ سے نوازنے کا فیصلہ کیا گیا یہ ایوارڈ پیش کرنے کی تقریب میں شرکت کے لیے ہزاروں اسکالرز استنبول پہنچے۔ اکتوبر کو استنبول میں ان کے لیے ایک اعزازی تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ 24، 2010، اور انہیں امام محمد بن قاسم النانوتوی ایوارڈ پیش کیاگیا. جو اسلامی دعوت کے میدان میں اپنا اثر چھوڑنے والی شخصیات کو دیا جانے والا ایوارڈ ہے۔یہ ایوارڈ بانی دارالعلوم دیوبند حجۃ الاسلام مولانا امام قاسم نانوتوی سے منسوب ہے
اس طور پر اس عظیم شخصیت کا عملی دارالعلوم دیوبند سے رشتہ بھی قائم ہوجاتا ہے.. روحانی وعلمی رشتہ تو پہلے سے قائم تھا….
نومبر 2018ترکی، استنبول کے سفر میں راقم السطور بندہ خالد نیموی کی خواہش تھی کہ حضرت والا سے ملاقات و زیارت کا شرف حاصل کر لیں، لیکن ان ایام میں شیخ علاج و معالجہ کی سخت نگہداشت کے مراحل سے گذر رہے تھے، جس کی وجہ سے ہم ان کی ملاقات کے شرف سے محروم رہے ۔یہاں تک کہ ان کی وفات کی خبر صاعقہ بن کر گری.
اللھم ارحمہ وعافہ واغفرلہ وادخلہ فسیح جنانک

Comments are closed.