Baseerat Online News Portal

تبدیلی کے دور سے گزرتا ھوا سعودی عرب

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

( اسلامی روایات و اقدار کی پاسبانی اور اپنی مخصوص شناخت و پہچان رکھنے کے حوالہ سے دنیا کے نقشہ پر متعارف ملک : ” المملکة العربية السعودية ” اپنی پرانی ڈگر اور قدامت پسندانہ روایات سے کس حد تک دور ھوتا جارھا ھے ؟ کیا ھے ویژن 2030 ؟ اصلاحات کے نام پر رونما ھونے والی تبدیلیوں نے کیوں امت مسلمہ کے حساس ذھن رکھنے والے افراد کو مضطرب اور بے چین کیا ھوا ھے ؟ سفر حرمین سے واپسی پر ایک تاثراتی تحریر )

✍️ : محمد عفان منصورپوری

حجاز مقدس : مہبط وحی ، مرکز اسلام ، کعبة اللہ اور روضہ پاک کے وجود ، پیغمبر علیہ الصلاۃ والسلام اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے وابستہ یادوں اور خدمات کے نتیجہ میں روز اول سے مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن اور ان کے لئے باعث کشش ھے ، ھر مسلمان دیار مقدسہ کے پاکیزہ مقامات سے کسب فیض کو اپنا مذہبی حق سمجھتا ھے __ اور سمجھنا بھی چاھئے __ یہی وجہ ھے کہ سعودیہ میں اصلاحات کے نام پر رونما ھونے والی نت نئی تبدیلیوں کو بڑی باریک بینی اور دقت نظر سے دیکھا جاتا ھے ، دنیا کا مسلمان اس ملک کو جس سے اسلام اور پیغمبر اسلام علیہ الصلاۃ والسلام کی تاریخ جڑی ھوئی ھے اسی رنگ میں دیکھنا چاھتا ھے جس سے اگر ایک طرف اسلامی تہذیب و تمدن اور کلچر و ثقافت کی عکاسی ھوتی ھو تو دوسری طرف اسلامی نظام حکومت ، قانون اسلامی کے نفاذ اور نبوی اخلاق و کردار کی ترجمانی ھورھی ھو مگر گذشتہ چند سالوں میں جس تیزی کے ساتھ مملکت سعودیہ میں بدلاؤ کی بیار آئی ھے اس نے امت مسلمہ کے مذہبی طبقہ کو خاص طور پر حد درجہ متفکر و مضطرب کردیا ھے ۔
ویژن 2030 کے تحت اصلاحات کے نام پر جو اقدامات ھورھے ھیں اس سے مغربی کلچر کو فروغ مل رھا ھے ، بے پردگی عام ھوتی جارھی ھے ، مخلوط تعلیم کو اسکولوں اور کالجوں میں لازم کیا جارھا ھے ، ائرپورٹس ، شاپنگ مالس ، اسپتال ، سرکاری و غیر سرکاری دفاتر میں بڑی تعداد میں عورتوں کی تقرری عمل میں آرھی ھے ، ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر کار چلانے اور ملک و بیرون ملک بغیر محرم سفر کرنے کی کھلی چھوٹ عورتوں کو دیکر دنیا کو یہ باور کرایا جارھا کہ ھم نام نہاد آزادئ نسواں کے حامی اور عورتوں کے حقوق کے محافظ ھیں ، جرائم پر اسلامی نقطہ نظر سے مجمع عام میں چور و قاتل ، زانی اور منشیات کا استعمال کرنے والوں کو سزا دینے کا جو رواج تھا اس میں بہت حد تک تخفیف اور ترمیم ھوچکی ھے ، ملک کے مختلف شھروں میں دنیا کے نامی گرامی فنکاروں کو بلاکر رقص و سرود اور موسیقی کی محفلیں آراستہ کی جارھی ھیں جن میں ھزارھا ھزار سعودی بڑی دلچسپی کے ساتھ شرکت کررھے ھیں ، فلم فیسٹیول منعقد ھورھے ھیں ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے شعبہ کو بڑی حد تک بے اثر کردیا گیا ھے ، سیر و سیاحت کی غرض سے نئے نئے تفریحی مقامات اور شھر کے شھر تیار کئے جارھے ھیں غرضیکہ وہ سب کچھ ھورھا ھے جس کی توقع ماضی قریب میں سعودیہ کے بارے میں تو نہیں کی جاسکتی تھی ، ھم نے خود سرکار دوعالم ﷺ کے شھر : مدینہ منورہ میں ” مدینہ بالی وڈ ” کے نام سے سڑک کے کنارے قائم ایک اسٹوڈیو کا سائن بورڈ دیکھا ھے ، ابھی تو 2022 ھی چل رھا ھے 2030 آتے آتے نہ جانے کیا کیا تبدیلیاں ھوچکی ھوں گی ؟ باوثوق ذرائع سے یہ بھی سنا گیا کہ ملک کے متعدد شھروں میں ایسی کالونیاں اور ریسٹورنٹ بن چکے ھیں جن میں برقعہ اور پردے کے ساتھ عورتوں کا داخلہ ممنوع ھے وہاں تو اسلامی تہذیب و ثقافت کو خیراباد کہکر ھی جایا جاسکتا ھے الامان والحفیظ ۔
اب حدود حرم میں غیر مسلموں کی آمد و رفت پر بھی غالباً کوئی پابندی نہیں رہ گئی ھے ؛ اس لئے کہ پہلے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ جاتے وقت حدود حرم شروع ھونے سے پہلے جو سائن بورڈ دکھائی دیتے تھے جن پر لکھا ھوتا تھا : ” ممنوع الدخول لغیر المسلمین ” ( غیر مسلموں کے لئے داخلہ ممنوع ھے ) پھر دوسرے راستہ کی طرف اشارہ کرتے ھوئے لکھا ھوتا تھا : ” ھذا طریق لغیر المسلمین ” ( یہ غیر مسلم حضرات کے جانے کا راستہ ھے ) اب یہ سب سائن بورڈ ندارد ھیں اور پرانے زمانے کی باتیں ھوچکی ھیں اب تو جو چاھے جہاں چاھے بلا روک ٹوک جاسکتا ھے ۔

*ایک نئے شھر کی منصوبہ بندی*
مملکت میں تجارت ، صنعت و سیاحت اور دیگر سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لئے NEOM ( نیوم) کے نام سے ایک نئے شھر کی منصوبہ بندی کی گئی ھے ، یہ نام انگریزی کے لفظ new اور عربی کے لفظ میم کو ملا کر رکھا گیا ھے ، یہاں میم مستقبل کی نمائندگی کررھا ھے جس کا مطلب ھے : نیا مستقبل ۔
ساحل سمندر ، پہاڑ اور صحراء پر مشتمل خطے میں بسایا جانے والا یہ شھر اردن اور مصر کی سرحدوں کے ساتھ 500 ارب ڈالر کی لاگت سے 26000 پانچ سو مربع کلومیٹر پر تعمیر کیا جارھا ھے ، 2030 تک یہ شھر تفریح و سیاحت کا بڑا مرکز ھوگا ، *ایک خاص بات یہ ھے کہ سعودی عرب کے مروجہ قوانین اس شھر پر لاگو نہیں ھوں گے ، نیوم کے لئے علیحدہ قوانین ھوں گے* ، مختلف ویب سائٹس پر اس نئے شھر سے متعلق تفصیلات جانی جاسکتی ھیں ۔
اسی طرح مدائن صالح کے نام سے موسوم اس پہاڑی علاقہ کو جہاں اللہ کے نبی حضرت صالح علیہ الصلاۃ والسلام کی قوم کو مبتلائے عذاب کیا گیا تھا ایک بڑے سیاحتی مرکز کے طور پر پروجیکٹ کیا گیا ھے جہاں ھر طرح کے تعیش کا سامان اور ثقافت و کلچر کے نام پر رقص و سرود و موسیقی کی مجلسیں آراستہ کرنے کا معقول انتظام کیا گیا ھے ۔

*تیز رفتار دنیوی ترقیات*
بدلاؤ کی اس لہر میں بعض مثبت تبدیلیاں بھی رونما ھورھی ھیں جیسے مکہ مکرمہ ، مدینہ منورہ اور اس کے قرب و جوار میں واقع آثار قدیمہ کی قبیل سے تاریخی مقامات کو زائرین کے لئے ڈیولپ کیا جارھا ھے ، باقاعدہ ” مشروع تطویر التاریخ الاسلامی ” کے نام سے شعبہ قائم کیا گیا ھے جس کے تحت تمام تاریخی مقامات کو متعارف کرانے کا منصوبہ ھے ؛ کیونکہ حکومت کا منشا ملک میں سیاحت کو فروغ دینا ھے ، اسی لئے ھر طرح کے ویزے کی حصولیابی میں بھی سھولت دی جارھی ھے اور عمرے کا ویزہ حاصل کرنے والے زائر کو بھی پورے مملکہ میں آنے جانے کی اجازت دے دی گئی ھے ، اب کسی کو بھی ان تاریخی مقامات پر جانے کی اجازت ھے جبکہ پہلے وھاں جانا ممنوع تھا ، اب باضابطہ حکومت کی طرف سے ان مقامات پر بڑے بڑے سائن بورڈ لگائے گئے ھیں جن پر اس مقام کے تاریخی پس منظر کو درج کیا گیا ھے ، مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں بڑے شاندار میوزیم تیار کئے گئے ھیں جن سے مقامات مقدسہ کی پرانی تاریخ و تہذیب اور تمدن کو سمجھنے میں بڑی سھولت ھوتی ھے ۔
ھم نے بھی اس مرتبہ متعدد تاریخی مقامات دیکھے جن کے تفصیلی تذکرے کے لئے مستقل مضمون درکار ھے ان میں بہت سی مسجدیں ، کنویں ، مکانات اور مزارع ھیں ، حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا محل ، کعب بن اشرف یہودی کا قلعہ ، بیت السبایا کے نام سے موسوم وہ مکان جس میں واقعہ کربلا کے بعد باقی رہ جانے والے اھل بیت کے بعض حضرات نے سکونت اختیار فرمائی ، بنو قریظہ اور بنو نضیر کے باغات ، اھل مدینہ کے لئے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی جانب سے خریدا گیا میٹھے پانی کا کنواں ، کھجور کا باغ اور حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے باغ کی سنچائی کرنے والا کنواں وغیرہ وغیرہ اس طرح کے بہت سے اماکن ھیں جو دیکھنے ھی سے تعلق رکھتے ھیں ، اسی طرح مکہ مکرمہ اور طائف مین بھی تاریخی مقامات کی زیارت کرائی جاتی ھے ۔
یہاں آنے والے زائرین کو ان مقامات سے واقفیت رکھنے والے کسی مرشد کے ساتھ موقع پر جانا چاھئے ؛ تاکہ کتابوں میں پڑھے ھوئے واقعات کو مشاھدہ کی روشنی میں تطبیق دیا جاسکے ۔
اسی طرح ویژن 2030 کے تحت رونما ھونے والی تبدیلیوں میں ملک میں مختلف ترقیاتی منصوبوں کو عملی جامہ پہنایا جارھا ھے ، کوشش یہ ھے کہ ملک کی معیشت کا دارومدار صرف تیل پر نہ رھے ، مملکہ کو دبئ ( Dubai ) کے طرز پر کھلی منڈی کی شکل دیدی جائے ، ظاھر سی بات ھے کہ اس خواب کو پورا کرنے کے لئے ملک میں آزادی کے اس ماحول کو عام کرنا ھوگا جس سے دنیا راغب ھو اور بیرونی کمپنیاں بے فکری کے ساتھ یہاں سرمایہ کاری کرسکیں ، چنانچہ ملک کو اسی رنگ میں ڈھالنے کا منصوبہ بنایا گیا ھے جس کی تکمیل کے لئے 2030 کو بطور مدت متعین کیا گیا ھے ۔
اسی ضمن میں پرانی عمارتوں کو زمیں بوس کرکے نئی نئی بلڈنگیں تعمیر کی جارھی ھیں ، شاپنگ مالس بن رھے ھیں ، سعودی نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کے لئے نئی نئی اسکیمیں وضع کی جارھی ھیں ، عصری تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں کا قیام عمل میں آرھا ھے ، کشادہ سڑکیں ، صاف ستھرے اور پلاننگ کے ساتھ شھر بنائے جارھے ھیں ، ” قطار الحرمین السریع ” کے نام سے مکہ مکرمہ ، مدینہ منورہ اور جدہ کے درمیان 300 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی تیز رفتار ٹرین کی سروس مہیا کی جارھی ھے جس کا دائرہ آنے والے دنوں میں بڑھے گا اور ملک کے دوسرے اھم شھروں کو بھی اس ٹرین سے جوڑا جائے گا ، غرضیکہ ھر شخص کی زبان پر یہی ھے کہ سعودیہ بدل رھا ھے ۔
ظاھر ھے کہ اس طرح کی تبدیلیاں تو مثبت ھی کہلائیں گی جو ملک و قوم کے حق میں مفید ھیں اور ان کو سراھا بھی جانا چاھئے ؛ لیکن اس بدلاؤ کی آڑ میں اگر اسلامی تہذیب و تمدن ھی رخصت ھونے لگے اور مملکت سعودیہ عربیہ اپنی اصلی شناخت ھی سے محروم ھونے لگے تو یہ وہ منفی اثرات ھوں گے ، جنکی ھرگز تحسین نہیں کی جاسکتی ؛ بلکہ اصلاح احوال کی فکر کرنا ضروری ھوگا ۔

*اعمال متوارثہ سے کنارہ کشی*
منفی بدلاؤ کے یہ اثرات خارج حرمین ھی تک محدود رھتے تو کیا کم تھے ؟ لیکن اب تو حرم مکی و مدنی کے امور بھی تبدیلی کی زد میں ھیں جس سے مسلمان شدید قسم کی بے چینی اور کرب سے دوچار ھے ؛ کیونکہ حرمین شریفین سے جذباتی رشتہ کی بنا پر وہ اس کے نظام میں کسی بھی غیر مناسب تبدیلی کو گوارا نہیں کرتا یہی وجہ ھے کہ حرمین انتظامیہ کی جانب سے جب بھی کوئی ایسا امر صادر ھوتا ھے جس کے نتیجہ میں امت کے متوارث عمل پر آنچ آتی ھو تو ھر ذی علم اور فہیم مسلمان کا جی دکھتا ھے اور وہ اپنی سطح پر اظہار ناگواری بھی کرتا ھے ، مسلمان کی یہ خواہش رھتی ھے کہ دور نبوت ، دور صحابہ اور دور تابعین و تبع تابعین سے جو طریقہ حرمین میں چلا آرھا ھے اس میں کوئی تخلف نہ ھو ؛ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ھے کہ پچھلے چند سالوں سے یکے بعد دیگرے حرمین میں جاری اعمال متوارثہ کو کالعدم قرار دے کر جو نئے طریقے رائج کئے جارھے ھیں وہ پوری امت کے لئے بڑی تشویش اور تکلیف کا باعث ھیں ، *حرمین کی انتظامیہ کو چاھئے کہ وہ محض اللہ کی رضاء کے لئے ساری دنیا کے مسلمانوں کے جذبات کا خیال رکھے ، متوارث طریقے کو چھوڑ کر نیا طریقہ رائج کرنے کا حکم واپس لے اور آئندہ بھی کوئی ایسا قدم نہ اٹھائے جو ملت میں عدم اطمینان اور بے چینی کا باعث بنائے ۔*

*(جاری)*

Comments are closed.