Baseerat Online News Portal

تبدیلی کے دور سے گزرتا ھوا سعودی عرب (دوسری اور آخری قسط)

 

 محمد عفان منصورپوری

نئے قابل اشکال رائج کردہ طریقے

ذیل میں ھم ترتیب وار حرمین انتظامیہ کے بعض ان اقدامات کا ذکر کریں گے جو شرعی اصول و ضابطوں کے منافی ھونے کی وجہ سے جمہور امت کی نگاہ میں ناقابل تسلیم ھیں :

اذان جمعہ کا زوال سے پہلے ھونا

( ۱ ) *اذان جمعہ کا زوال سے تقریبا آدھا گھنٹہ پہلے ھونا* حالانکہ نماز کا وقت شروع ھونے سے پہلے نقل و عقل کی روشنی میں سنیت اذان کا کوئی معنی نہیں ، زمانہ نبوت سے اذان جمعہ بعد الزوال ھی ھوتی رھی ھے اور یہی امت کا اتفاقی موقف بھی ھے ؛ لیکن افسوس کہ حرمین میں اب یہ طریقہ متروک ھوچکا ھے ، زوال سے آدھا گھنٹہ پہلے اذان ھوجاتی ھے اس کے بعد لوگ یہ سمجھکر چار رکعت سنتوں کی نیت باندھ لیتے ھیں کہ وقت ھوگیا ھوگا اور پھر وقت زوال ھوتے ھی امام صاحب ممبر پر آتے ھیں اور اذان ثانی شروع ھوجاتی ھے گویاکہ اس عمل کی وجہ سے نہ چاھتے ھوئے لوگوں کو جمعہ کی سنن قبلیہ سے محروم ھونا پڑتا ھے ، معلوم نہیں کون سی ایسی مجبوری یا انتظامی مصلحت ھے جس کے تحت اس عمل کو رواج دیا جارھا ھے ، حالانکہ زوال کا وقت ھوتے ھی اذان دیکر اگر پانچ منٹ کا وقت بھی دیدیا جائے تو لاکھوں لوگوں کے لئے نماز جمعہ سے قبل سنن مؤکدہ کی ادائیگی ممکن ھوجائے ۔

دس رکعات تراویح

( ۲ ) *تراویح کا دس رکعات پر مشتمل ھونا* حالانکہ کورونا کی پابندیوں سے پہلے تک مسلسل بیس رکعات تراویح کا حرمین میں بھی معمول رھا ، یہی ثابت بالسنة ھے اور ائمہ اربعہ کے نزدیک بالاتفاق یہی مسنون ھے ؛ لیکن ان تمام چیزوں کو نظر انداز کرتے ھوئے کورونا کی پابندیوں کے بعد سے بلا کسی دلیل اور عارض کے حرمین میں دس رکعات تراویح کا نظام قائم کردیا گیا ۔
واضح رھے کہ ان دونوں امور کے سلسلہ میں دارالعلوم دیوبند ، جمعیت علماء ھند اور ھند و پاک کے مؤقر و مقتدر علماء کرام کی جانب سے سعودی حکومت کے ذمےداران کے نام صورت مسئلہ کی وضاحت کرتے ھوئے خیرخواھانہ انداز میں خطوط بھی ارسال کئے گئے ؛ لیکن ابھی تک اس کا کوئی جواب اور عملی طور پر اس کا کوئی اثر ظاھر نہیں ھوا ۔

ھم امید کرتے ھیں کہ انتظامیہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے گی اور آئندہ رمضان سے حرمین میں حسب سابق بیس رکعات تراویح کے معمول کو بحال کیا جائے گا ان شاء اللہ ۔

محراب عثمانی کو ترک کرنا

( ۳ ) *محراب عثمانی کو ترک کرکے پھر محراب نبی ﷺ سے امامت کا سلسلہ شروع کرنا* حالانکہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں مسجد نبوی میں توسیع کے بعد جس محراب سے نماز پڑھائی جارھی تھی اس کے بعد سے مسلسل وھیں سے نماز پڑھائی جاتی رھی ؛ لیکن اب اس سے چار صف پیچھے سے نماز پڑھائی جاتی ھے جس کے نتیجہ میں جانب قبلہ مسجد کے توسیع شدہ حصے میں جہاں برسہا برس نماز ھوتی رھی اب نماز نہیں ھوتی ۔
انتظامیہ کی جانب سے اس عمل کی علت یہ بتائی جاتی ھے کہ روضہ پاک پر صلاة و سلام کا نذرانہ پیش کرنے کی غرض سے آنے والے لوگوں کو مسجد کے اس حصہ میں نمازیوں کے موجود ھونے کی وجہ سے دقت اور دشواری ھوتی تھی اسلئے وھاں نماز کا سلسلہ ھی موقوف کردیا گیا ؛ تاکہ ہمہ وقت وھاں لوگوں کا آنا جانا آسان ھوجائے ، ھمارا یہ ماننا ھے کہ زائرین کو سھولت پہنچانے کی غرض سے اگر درمیان کی کوئی ایسی شکل اختیار کی جاتی جس سے مسجد کے اس حصہ میں مستقلا نماز کا سلسلہ موقوف نہ ھوتا تو یہ بہتر تھا ، امید ھے کہ اس پر بھی توجہ دی جائے گی ۔

خطبہ جمعہ میں خلفاء راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کا نام نہ لینا

( ٤ ) *ایک بالکل نئی چیز جس کا احساس اسی مرتبہ ( شوال المعظم ۱٤٤٣ھ ) سفر حرمین کے موقع پر ھوا وہ خطبہ جمعہ میں خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کا نام نہ لینا ھے ، ھمیں مسجد حرام و مسجد نبوی میں شوال کے مہینے میں چار مرتبہ نماز جمعہ پڑھنے کا موقع میسر ھوا لیکن کسی بھی خطبہ جمعہ میں ھم نے خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کا نام نہیں سنا ، ھر مرتبہ خطیب محترم بدلے ھوئے تھے اسلئے یہ بھی ممکن ھے کہ اتفاقی طور پر نام چھوٹے ھوں قصدا نہ چھوڑے گئے ھوں __ خدا کرے کہ ایسا ھی ھو __ لیکن بہرحال یہ روش مناسب نہیں ۔*

*حیرت ھے جو ائمہ کرام سعودی فرماں روا ( الملقب بخادم الحرمین الشریفین ) اور ان کے ولی عہد و اعوان کا ذکر کرنا کسی خطبہ جمعہ میں نہیں بھولتے وہ خلفائے راشدین کا تذکرہ کرنا کیوں بھول جاتے ھیں؟*

یہ صحیح ھے کہ خطبہ جمعہ میں خلفائے اربعہ کا نام لینا کوئی فرض و واجب اور امر لازم نہیں ھے ؛ لیکن حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے زمانہ سے مسلسل خطبات جمعہ میں خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نام کو ذکر کرنے کا معمول رھا ھے کیونکہ اس دور میں روافض کی جانب سے حضرات شیخین و حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ پر تبرا بازی اور طعن و تشنیع کا سلسلہ شروع ھوچکا تھا دوسری طرف بنو امیہ کے بعض لوگوں کی جانب سے حضرت علی کرم اللہ وجھہ پر سب وشتم اور ان کی خلافت کا انکار بھی ھونے لگا تھا اس کے ازالہ کے لئے خلیفہ راشد حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے مسلمانوں کے بڑے اجتماع میں خلفاء اربعہ کے ذکر خیر کا سلسلہ شروع فرمایا تھا ؛ تاکہ ان پاکیزہ نفوس کی عظمت اھل ایمان کے قلوب میں راسخ ھوجائے ، اس موضوع پر علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ” منہاج السنۃ النبویہ ٤ / ١٥٥-١٦٧ ” میں مبسوط کلام فرمایا ھے نیز علامہ ابن امیر الحاج المالکی رحمہ اللہ نے بھی ” المدخل ” میں اس کا تذکرہ کیا ھے ، علامہ شرنبلالی رحمہ اللہ لکھتے ھیں : وذکر خلفاء الراشدین و العمین مستحسن بذلک جری التوارث انتہی۔

طویل خطبہ اور مختصر نماز

( ۵ ) *خطبہ جمعہ میں غیر معمولی طوالت اور نماز میں حددرجہ اختصار* یہ طریقہ بھی حرمین اور مملکہ کی دوسری مساجد میں عام ھے کہ خطبہ کافی لمبا ھوتا ھے اور نماز بہت مختصر اگرچہ بعض ائمہ نماز میں مسنون قراءت کا اھتمام بھی کرتے ھیں ؛ لیکن عام طور پر خطبہ بہت طویل ھوتا ھے ، چنانچہ مسجد نبوی میں شوال کے آخری جمعہ میں امام صاحب نے تقریبا 21 منٹ کا خطبہ دیا اور نماز میں پہلی رکعت میں سورہ نصر جبکہ دوسری رکعت میں سورہ لہب جیسی مختصر سورتیں تلاوت فرمائیں ، یہ صورت کبھی کبھار ھو یا کسی عارض کی وجہ سے ھو تو کوئی قباحت بھی نہیں ھے ؛ لیکن مستقلا ایسا معمول بنا لینا نصوص صریحہ کے منافی ھے جس کا ترک لازم ھے۔

سنن ابی داؤد میں روایت ھے : حضرت عمار رضی اللہ عنہ فرماتے ھیں : امرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باقصار الخطب ( ابوداؤد شریف ۱ / ۱۵۸ ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ھمیں خطبوں کو مختصر کرنے کا حکم دیا ۔

حضرت ابو وائل رضی اللہ عنہ حضرت عمار رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے نقل فرماتے ھیں : خطبنا عمار فاوجز و أبلغ فلما نزل قلنا : يا أبا اليقظان لقد بلغت واوجزت فلو كنت تنفست فقال : اني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : ان طول صلاة الرجل وقصر خطبته مئنة من فقه فاطيلوا الصلاة واقصروا الخطبة وان من البيان لسحرا ( مسلم شریف ۱ / ۲۸٦ )

حضرت ابو وائل رضی اللہ عنہ کہتے ھیں کہ حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے ھمارے سامنے خطبہ دیا جو مختصر ھونے کے ساتھ نہایت بلیغ بھی تھا چنانچہ جب وہ فارغ ھوکر ممبر سے اترے تو ھم نے کہا : یا اباالیقظان ( یہ کنیت ھے حضرت عمار رضی اللہ عنہ کی ) آپ نے بڑا بلیغ اور مختصر خطبہ دیا کاش آپ ھمیشہ زندہ رھتے تو حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے جواب دیا : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ھوئے سنا ھے : آدمی کی عقلمندی کی علامت یہ ھے کہ اس کی نماز سے اس کا خطبہ مختصر ھو ؛ اسلئے نماز خطبہ کے مقابلہ میں لمبی کرو اور خطبہ مختصر کرو اور تقریر تو جادو ھے ۔

حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ھیں : کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یخطب قائما ثم یجلس ثم یقوم و یقرا آیات و یذکر اللہ عزوجل وکانت خطبتہ قصدا وصلاتہ قصدا ( نسائی شریف ۱/ ۱۵۹)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ھوکر خطبہ دیتے پھر بیٹھ جاتے پھر کھڑے ھوتے ، چند آیات تلاوت فرماتے اور اللہ تعالی کا ذکر کرتے آپ کا خطبہ بھی درمیانی اور مختصر ھوتا تھا اور نماز بھی افراط و تفریط سے پاک مختصر ھوتی تھی ۔

فقہاء لکھتے ھیں کہ خطبہ جمعہ میں مسنون یہ ھے کہ طوال مفصل میں سے کسی سورت کے بقدر ھو اس سے لمبا کرنا مکروہ ھے ، وتکرہ زیادتھما علی قدر سورة من طوال المفصل ( فتاوی شامی ۳ / ۲۱ )

ان روایات سے بآسانی یہ اندازہ لگایا جاسکتا ھے کہ پیغمبر علیہ الصلاۃ والسلام کا عمل و حکم اور منشا خطبہ کے باب میں کیا تھا ؟ اور جو طریقہ آج کل حرمین اور عرب کی دیگر مساجد میں رائج ھوگیا ھے وہ سنت نبویہ کے موافق ھے یا مخالف اس میں بھی اصلاح کی ضرورت ھے ۔

صفوں کے درمیان فصل

( ٦ ) *کورونا کی پابندیوں کے بعد سے حرمین میں صفوں کے درمیان غیر ضروری فصل اور جگہ جگہ نمازیوں کے درمیان خالی جگہوں کا پایا جانا عام ھے* دوران جماعت اتصال صفوف کی جو اھمیت ھے اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا ، پیغمبر علیہ الصلاۃ والسلام فرمایا کرتے تھے : سدوا الخلل ولا تذروا فرجات للشيطان ( سنن ابي داؤد ) صفوں کے درمیان فصل کو ختم کرو اور شیطان کے لئے خالی جگہیں مت چھوڑا کرو ۔

ان تصریحات کے باوجود مسجد نبوی میں ریاض الجنة کی ابتدائی صفوں کے بعد سے پہلے صحن تک کا پورا حصہ مصلیان سے خالی رھتا ھے ، وہاں جانے کا راستہ ھی بند کردیا جاتا ھے ، درمیان میں کافی فصل کے بعد پھر صفیں لگتی ھیں ، اسی طرح مسجد حرام میں مطاف کے حصے میں صرف احرام باندھے ھوئے لوگوں کو جانے کی اجازت ھے چنانچہ نمازوں کے وقت مطاف کا بھی کافی حصہ اور مطاف کے چاروں طرف دالان کا بھی بیشتر حصہ مصلیان سے خالی رھتا ھے ، اسی طرح پہلی منزل کو وھیل چیئر سے طواف کرنے والوں کے لئے خاص کیا گیا ھے اس میں بھی بغیر احرام کے داخل ھونے کی اجازت نہیں ، نمازوں کے وقت میں اس منزل کا بھی بیشتر حصہ مصلیان سے خالی رھتا ھے ۔
یہ صورتحال غیر مناسب ھے ، انتظامیہ کو اس پر توجہ دیتے ھوئے ایسی شکل اختیار کرنی چاھئے جس سے خلاف سنت اس عمل کا خاتمہ ھوسکے ۔

مطاف کی پابندیاں

شرعی اعتبار سے بھی یہ مسئلہ قابل غور ھے کہ مطاف کو صرف محرمین کے لئے خاص کرنے کی کہاں تک گنجائش ھے ، بہت زیادہ بھیڑ ھو اور محرمین ھی سے مطاف بھر جاتا ھو تو عارضی طور پر غیر محرمین کو روکنے میں بظاھر کوئی حرج محسوس نہیں ھوتا ؛ لیکن مستقلا محرمین کے لئے مطاف میں داخلے کو ممنوع قراردینا جبکہ آدھے سے زائد حصہ مطاف کا خالی رہ جاتا ھو کسی بھی طرح مناسب نہیں ، آج کل زائرین کی تعداد بہت کم ھے اس کے باوجود غیر محرمیں کو نہ مطاف میں جانے کی اجازت ھے نہ پہلی منزل پر ، یہی وجہ ھے کہ بہت سے لوگوں کو مجبورا یہ غیر مناسب شکل اختیار کرنی پڑتی ھے کہ وہ احرام کی نیت کئے بغیر بے سلی چادریں جسم پر ڈال کر آتے ھیں تاکہ ان کو محرم سمجھکر اندر جانے کی اجازت دیدی جائے ، جبکہ بہت سے حضرات عمرے سے فارغ ھونے کے بعد حلق یا قصر کروانے میں تاخیر کرتے ھیں اور احرام کے سلسلہ کو جاری رکھتے ھیں تاکہ مطاف میں آنے جانے میں ان کو سھولت ھو ، انہی پابندیوں کی وجہ سے بہت سے زائرین جی بھر کر طواف بھی نہیں کرپاتے ، مطاف میں جانے کی اجازت نہیں ھوتی اور اوپر کی منزلوں سے طواف کرنے کی ھمت نہیں ھوتی ۔

روضہ پاک پر حاضری

اسی طرح روضہ پاک پر صلاة و سلام پیش کرنے کی غرض سےمواجھہ شریف تک جانے کے لئے راستہ کو اتنا لمبا کردیا گیا ھے کہ عام دنوں میں جہاں تک جانے آنے میں محض سو قدم چلنا پڑتا تھا اب بلامبالغہ سلام پیش کرنے والوں کو صحن کے بیشتر حصے کا چکر لگا کر گیارہ بارہ سو قدم چلنا پڑتا ھے ، دن میں تیز دھوپ اور فرش کے گرم ھونے کی وجہ سے ننگے پیر چلنے والوں کے چھالے پڑجاتے ھیں اور جوتا پہن کرجائیں تو مجبورا سلام پیش کرتے وقت جوتا ھاتھ میں لئے رھنا پڑتا ھے ؛ اسلئے کہ واپسی کا راستہ بالکل مختلف ھے ، بہت زیادہ بھیڑ ھو تو مجمع کو منتشر کرنے کے لئے راستہ عارضی طور پر انتظامی نقطہ نظر سے کچھ لمبا بھی کیا جاسکتا ھے ؛ لیکن بھیڑ کے کم ھوجانے کے باوجود بھی ان سختیوں کو برقرار رکھنا زائرین کو سہولت دینے کے بجائے زحمت میں مبتلا کرنے کے مرادف ھے ، بہت سے عمر رسیدہ ، کمزور و معذور زائرین انہی پابندیوں کی وجہ سے چاھنے کے باوجود روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضر نہیں ھوپاتے اور دور سے حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے رہ جاتے ھیں ، مستورات کو بھی اس طرح کی پریشانیوں کا بہت سامنا ھے اور جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کردینے کی وجہ سے ان کو چلنا بھی بہت پڑتا ھے ۔

ریاض الجنہ میں حاضری

اسی طریقہ سے ” ریاض الجنہ” میں نماز پڑھنے کے لئے اس وقت انتہائی پریشان کن اور تھکا دینے والا نظام بنا رکھا ھے ، اب پہلے کے طرح مسجد نبوی کے قدیم حصے سے ھوتے ھوئے ریاض الجنة میں جانا ممکن نہیں ؛ اسلئے کہ درمیان میں قناتیں باندھ کر اور الماریاں رکھکر دوسری طرف آنے جانے کا راستہ بالکل بند کردیا ھے ، ریاض الجنہ میں جانے کے خواہشمند حضرات کو باب جبرئیل ، باب نساء اور باب بقیع کے سامنے صحن میں اکھٹا کیا جاتا ھے لمبی لمبی لائنیں بن جاتی ھیں ، چلچلاتی دھوپ میں پسینے سے شرابور اور گرمی سے بے حال زائرین اپنی حسرت پوری کرنے کے لئے انتظار کی گھڑیاں کاٹتے رھتے ھیں ، کورونا کی پابندیاں جب سے شروع ھوئیں اس کے بعد سے اب تک سب کے لئے ” توکلنا ” یا ” اعتمرنا ” کے نام سے موجود ایپ کو اپنے موبائل میں ڈاؤنلوڈ کرنا اور پھر اس کے ذریعہ ریاض الجنہ میں جانے کے لئے موعد اور وقت لینا ضروری ھے ، کتنے ھی زائرین تو ایسے ھوتے ھیں جنہوں نے کبھی ملٹی میڈیا موبائل ھی استعمال نہیں کیا ھوتا ، وہ کہاں سے ایپ ڈاؤنلوڈ کریں گے ؟ اور کیسے موعد لیں گے ؟ چنانچہ گھنٹوں لائن میں لگے رھنے کے بعد جب قریب پہنچتے ھیں اور چیکنگ کے مرحلہ سے گزرتے ھیں تو پیشگی وقت نہ لینے کی وجہ سے ان کو ریاض الجنہ میں جانے سے محروم کردیا جاتا ھے اور دوسرے راستے سے واپس بھیج دیا جاتا ھے ، اور پھر جس کو سفر میں ایک مرتبہ موعد مل جاتا ھے تو دوبارہ پھر اس کو موقع نہیں دیا جاتا ، بھیڑ تو پہلے بھی ایسے ھی ھوتی تھی لیکن ریاض الجنہ میں جانے کے لئے ایسی تکلیف و مشقت نہیں سہنی پڑتی تھی ، آج کل اگرچہ مجمع بہت کم ھے اگر ساری رکاوٹیں ختم کردی جائیں تو سب کو بآسانی وہاں عبادت کا موقعہ ملے گا اور نظام میں کوئی خرابی بھی نہیں آئے گی ؛ لیکن پابندیاں جوں کی توں ھیں ۔

ایسی صورتحال میں ھمیں یہ کہنے میں کوئی تذبذب اور ہچکچاہٹ نہیں کہ انتظامیہ نے چاھے یہ نظام خلوص نیت کے ساتھ زائرین کو راحت پہنچانے کے لئے بنایا ھو ؛ لیکن عام لوگوں کو اس سے راحت کے بجائے دقت زیادہ ھوتی ھے ؛ اسلئے اسے تبدیل کرنے کی ضرورت ھے ۔
دوسری بات یہ کہ ھم تو یہ سمجھتے ھیں کہ مسجد میں داخلے کے لئے اس طرح کی شرائط لگانا اور پابندیاں عائد کرنا شرعا بھی مناسب نہیں ، سعودی حکومت کی جانب سے فخریہ انداز میں” خدمة الحاج شرف لنا ” کا نعرہ لگایا جاتا ھے اور واقعتا حکومت کی جانب سے زائرین کی راحت رسانی کے لئے بہت سے ایسے انتظامات کئے جاتے جو مثالی اور قابل تعریف ھیں اور جن کی ایک لمبی فہرست ھے ؛ لیکن اسی میں بعض ایسے ضابطے بھی بن جاتے ھیں جن سے حجاج کرام اور زائرین کا دل دکھتا ھے اور وہ تکلیف محسوس کرتے ھیں ۔

گذارش

آخر میں ذکر کی جانے والی چیزوں کا تعلق انتظامی اصلاحات سے ھے ، امور حرمین کی نگرانی کرنے والے شعبے کے ذمےداران سے ھمارا بڑا خیرخواھانہ مطالبہ اور گذارش ھے کہ اپنے نظام کے بعض پہلوؤں پر نظر ثانی کریں ، زائرین کو پیش آنے والی دشواریوں پر توجہ دیں اور ان کے ازالہ کی کوشش کرتے ھوئے ھر ممکن سھولت فراہم کرنے کی کوشش کریں ۔ ان اريد الا الإصلاح مااستطعت وماتوفيقي إلا بالله عليه توكلت وإليه انيب .

اخیر میں یہ بات بھی عرض کرنی ھے کہ سعودی حکومت کے عہدیداران کو ھر وقت یہ چیز مستحضر رکھنی چاھئے کہ مملکت سعودیہ کی حکمرانی اور اپنے اور اپنے حبیب ﷺ کے گھر کی دربانی کا یہ موقعہ بطور انعام و امانت کے باری تعالٰی نے ان کے سپرد کیا ھے ، اللہ کی مرضی کے مطابق اگر امور حکومت کو انجام دیا جائےگا تو یہ انعام کی قدر دانی اور امانت کی ادائیگی ھوگی ، بہ صورت دیگر یہ نعمت کی ناقدری ھوگی اور اللہ پاک جس طرح نعمتوں کو دینے پر قادر ھیں اسی طرح نعمتوں سے محروم کرنا بھی انہی کے اختیار میں ھے ، سب کو مالِک ڈرتے رھنا چاھئے اور دعاء کرنی چاھئے کہ الہ العالمیں ھمیں اپنی نعمتوں سے محروم نہ فرمائیے گا ۔

Comments are closed.