نوپور شرما کو ملی عبوری ضمانت: ذمہ دار کون؟

حمیرا سعدیہ

گذشتہ کچھ دنوں سے برسر اقتدار جماعت کی خاتون ترجمان "نوپور شرما“ اپنے بے بنیاد اور قابل مذمت بیان کے سبب سرخیوں میں ہے، نوپور شرما نے پیغمبرِ اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف انتہائی نازیبا اور قابل مذمت الفاظ کا استعمال سرعام کیا اور اس گستاخی نے نہ صرف بھارت؛ بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچاںٔی، اس کے بعد ملک بھر میں نوپور کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی گئی؛ لیکن ” بے شرم جماعت“ کی یہ ” بے شرم ترجمان “ اب بھی پیچھے نہ ہٹی اور عدالت میں اپنی جان کی دہائی دے کر تمام ایف آئی آرز کو دہلی میں جمع کرنے کی عرضی داخل کردی؛ لیکن سپریم کورٹ نے اس عرضی کو خارج کرتے ہوئے نوپور اور اس کے وکیل کو کھری کھری سنا دی، اس پر جو ہنگامہ کھڑا کیا گیا وہ مزید برآں؛ لیکن پھر وقت نے کروٹ لی اور مسلمانوں کی ازلی حماقت آمیز جذباتیت مچل اٹھی؛ پھر اس کے بعد کسی نے نوپور کے سر کاٹنے پر انعام کا اعلان کردیا اور کسی نے خود ہی اس کام کا بیڑا اٹھا لیا اور جو یہ کام ملک بھر کے "غیور“ افراد نہ کرسکے تو پڑوس کے ایک شخص کو ہماری سرحد میں "گھس پیٹھ“ کی زحمت اٹھانی پڑی۔ اولاً تو کسی غیر ملکی کا غیر قانونی طور پر سرحد پار کرکے یوں ملک میں گھس آنا خود سرحد کی حفاظت پر تعینات سپاہیوں کی اہلیت پر ایک سوال ہے، دوم یہ بات بھی قابل غور ہے کہ "را“ جیسی خاص الخاص خفیہ ایجنسی کو اس معاملے میں شامل کرنے اور را کے ضابطوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس بات کو چرچے میں لا کر ملزم کو عام پولیس فورس کے حوالے کردیا گیا۔ بہرحال ان تمام حماقت آمیز کاموں کا نتیجہ اس طرح نکلا کہ بالآخر کورٹ کو یہ یقین دلا دیا گیا کہ نوپور شرما کی جان کو خطرہ ہے اور اس طرح اسے تمام شکایتوں سے عبوری ضمانت دے دی گئی، یہ ہوتا ہے جلد بازی، غیر ذمہ داری ، جذباتیت اور اشتعال انگیزی کا نتیجہ؛ اگر ہم قانون کے دائرے میں رہ کر اپنے جاںٔز حق کی لڑائی لڑتے تو امید قوی تھی کہ اس مرتبہ ضرور باطل کا منہ کالا ہوجاتا؛ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ہم نے اس مرتبہ بھی اپنی جذباتیت کے سبب اپنا نقصان کروایا اس موقعے پر علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی بات یاد آتی ہے۔ بہ قول حضرت رحمتہ اللہ علیہ کے: "یورپ کے حکماءِ تاریخ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی ترقی اور تنزلی دونوں کا ایک ہی سبب ہے یعنی غیر قوموں کے ساتھ نسبی اور اجتماعی میل جول۔ ہم بھی کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی ترقی اور تنزلی دونوں کا ایک ہی سبب ہے، اور وہ ان کا فوری اور وقتی جوش! وہ سیلاب کی مانند پہاڑ کو اپنی جگہ سے ہلا سکتے ہیں؛ لیکن کوہکن کی طرح ایک ایک پتھر جدا کرکے راستہ صاف نہیں کرسکتے، وہ بجلی کی مثل ایک آن میں خرمن کو جلا کر خاکِ سیاہ کرسکتے ہیں؛ لیکن چیونٹی کی طرح ایک ایک دانہ نہیں ڈھو سکتے، وہ ایک مسجد کی مدافعت میں اپنا خون پانی کی طرح بہا سکتے ہیں؛ لیکن ایک منہدم مسجد کو دوبارہ بنانے کے لیے کوشش جاری نہیں رکھ سکتے۔“
مختصر یہ کہ اس مرتبہ مسلمان نہ تو اکابر علماء پر، نہ ہی عدالتِ عظمیٰ اور نہ ہی ہندوتوا نواز حکومت پر الزام لگا کر اپنا دامن بچا سکتے ہیں؛ اس مرتبہ ہم نے خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری ہے؛ اگر ہم اپنے جذبات کو قابو میں رکھتے اور عقل کا صحیح استعمال کرتے تو امید یہی تھی کہ اس مرتبہ نفرت کے نظریے پر ایک کاری ضرب لگتی۔ الغرض  گستاخ نوپور شرما کو ضمانت مل جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ ہماری جذباتیت نے عدالت  کو موقع فراہم کیا کہ وہ "نوپور کی جان کو خطرہ ہے” کا حوالہ دے کر اسے ضمانت دیدے، اس قضیے میں فرقہ پرست حکومت کے ساتھ ساتھ ہم بھی برابر کے مجرم ہیں.

Comments are closed.