Baseerat Online News Portal

اسلام اور مسلمان (جلد دوم) مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھند

چند ماہ قبل امیر شریعت حضرت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم کے ہاتھوں امارت شرعیہ کی میٹنگ روم میں پروفیسر ڈاکٹر محمد یونس حسین حکیم (ولادت ۲۲؍جولائی ۱۹۴۳ئ؁) بن سخاوت علی کی کتاب’’ اسلام اور مسلمان حصہ دوم‘‘ کا اجراء عمل میں آیا، جو عقیدۂ رسالت مع سیرۃ النبی کے موضوع پر ہے، اس کتاب کی اشاعت دینی تعلیمی مرکز گرین دھرم پورسمستی پور سے ہوئی ہے، کمپوزنگ سیف اللہ ندوی علی گڑھ کی ہے، جس میں سلیقگی ہے، ٹائٹل پر گنبد خضرا مع مسجد نبوی کے مینار کی شمولیت نے اسے دیدہ زیب بنا دیا ہے، تین سو اٹھائیس(۳۲۸) صفحہ کا ہدیہ تین سو روپے ہے، ہدیہ اجباری نہیں ہوتا، لیکن جب یہ قیمت کے معنی میں آتا ہے تو اس کے حقیقی معنی متروک ہوجاتے ہیں، تین سو روپے دیجئے اور کتاب حاصل کیجئے، کتاب حاصل کرنے کا پتہ گرین لینڈ اسکول ہے اور پتہ ناشر کے ذیل میں اوپر درج کیا گیا ہے، رابطہ نمبر 9661754509 پر رابطہ کرلینے سے شاید مفت ملنے کی شکل بھی نکل آئے، طلب کی دونوں قسم ہے، ہدیۃً بھی اور مجاناً بھی، آپ طلب کرکے تو دیکھئے۔
’’عقیدہ رسالت اور مضامین سیرۃ النبی‘‘ سے پہلے آپ کو نصف درجن ان علماء کے تاثرات بھی پڑھنے ہوںگے، جو کتاب کی قدر وقیمت کو واضح کرنے کے لئے ابتداء کتاب میں شامل کیے گیے ہیں، حرف آغاز جو خود مؤلف کتاب کی طرف سے ہے، اس کو شامل کرلیں تو یہ تعداد سات ہوجاتی ہے، حرف آغاز کے بعد مقدمہ مولانا انیس الرحمن قاسمی سابق ناظم امارت شرعیہ، تقریظ پروفیسر شمیم الدین احمد منعمی، کلمات تحسین مولانا ڈاکٹر ابو الکلام قاسمی شمسی تأثرات پروفیسر فاروق احمد صدیقی، اظہار رحمانی، جناب امتیاز احمد کریمی اور تعارف مولانا محمد خالد ضیا صدیقی ندوی کا ہے، ان حضرات نے اپنی تحریروں میں کتاب کے خصائص اور صاحب کتاب کے وسعت مطالعہ کی د ا دی ہے، بعض نے کتاب کے اقتباس نقل کرکے اپنی تحریر کو طویل کیا ہے، مولانا انیس الرحمن قاسمی لکھتے ہیں: ’’یہ کتاب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا بہتر مرقع پیش کرتی ہے۔۔۔ ہمیں امید ہے کہ یہ کتاب عند اللہ بھی مقبول ہوگی اور عند الناس بھی (صفحہ ۲۴) پروفیسر سید شاہ شمیم الدین احمد منعمی نے اس اقرار کے بعد کہ وہ عدیم الفرصتی کی وجہ سے پوری کتاب کا مطالعہ خاطر خواہ طورپر نہ کرسکے، لکھا ہے کہ ’’ایک سرسری نظر میں ان کی کاوش صحت مند محسوس ہوئی، لب ولہجہ آسان اور گفتگو واضح ہے، جس سنجیدگی اور توجہ کے ساتھ انہوں نے سیرت کے مطالعے اور پھر حاصل مطالعہ کے اس قدر ضخیم اظہار کے لیے اپنی علمی وسیاسی مصروفیت کے باوجود وقت نکالا وہ قابل حیرت بھی ہے اور لائق آفریں بھی، (صفحہ۲۷) مولانا ڈاکٹر ابو الکلام قاسمی کی رائے کہ ’’عقیدہ رسالت مع سیرۃ النبیؐ نہایت ہی اہم کتاب ہے، کتاب کی زبان سادہ اور سلیس ہے، یہ کتاب اپنے موضوع پر محیط ہے (صفحہ۲۹) پروفیسر فاروق احمد صدیقی لکھتے ہیں ’’ہر مقام پر ان کا قلم بے حد محتاط اور مؤید من اللہ رہا ہے (صفحہ۳۱) امتیاز احمد کریمی لکھتے ہیں: ’’یہ کتاب سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر طویل کوششوں کا سرمایہ ہے اور سیرت نبوی کے سلسلے میں مفصل رہنمائی کرتی ہے، مولانا محمد خالد ضیا صدیقی ندوی نے اس کتاب کا تعارف پیش کیا ہے، ان کا خیال ہے کہ ’’کتاب جہاں مواد ومباحث اور حسن ترتیب کے لحاظ سے امتیازی شان وشوکت رکھتی ہے، وہیں اپنے اسلوب بیان کے لحاظ سے بھی منفرد مقام رکھتی ہے، پوری کتاب انتہائی سہل، عام فہم، مگر شگفتہ وشائستہ اسلوب کی نمائندگی کرتی ہے، ہر خاص وعام آسانی سے استفادہ کر سکتا ہے، انہوں نے اس کتاب میں پوری دیانت داری کے ساتھ حوالہ کا بھی اہتمام کیا ہے‘‘۔
ان اساطین علم وادب کی تحریروں کے بعد لکھنے کو بچ ہی کیا جاتا ہے، یقینا ڈاکٹریونس حکیم صاحب کی دلچسپی اسلامیات ودینیات سے قابل رشک ہے، وہ سائنس کے طالب علم رہے ہیں اور ایک زمانہ تک اسے پڑھایا بھی ہے، اس لیے ان کے انداز بیان میں حشو وزوائد کا گذر نہیں ہے، انہیں دو اور دو چار کی طرح اپنی بات رکھنے کا فن آتا ہے، اس لیے مشکل مباحث بھی ان کی تحریروں سے قاری کی ذہنی گرفت سے گریزاں نہیں ہوتے، بات عقیدۂ رسالت کی ہو یا سیرت کے واقعات کی وہ بہت سادہ لفظوں میں حقیقت بیان کردیتے ہیں، وہ اسلوب اور تعبیر میں اس کا خیال رکھتے ہیں کہ بات متنازع امور کے دائرے میں نہ جائے، جو متفقہ امور، عقائداور سیرت پاک کے صحیح اور سچے واقعات ہیں، ان کا انتخاب انہوں نے اس کتاب میں پیش کیا ہے اور بہت سارے رطب ویابس سے دامن کشاں گذر گئے ہیں انتخاب واقعات اور عقیدہ کے اس طریقہ کی وجہ سے یہ کتاب سب کے لئے قابل قبول بن گئی ہے، کتاب کے آخر میں حدیث وسیرت کے جن حوالہ جاتی کتب کا ذکر ہے ان میں عربی واردو دونوں زبانوں کی کتابیں ہیں، غالب گمان یہ ہے کہ انہوں نے عربی کتب کے اردو تراجم سے استفادہ کیا ہوگا، حالاں کہ پروفیسر صاحب قرآن کی تفسیر بھی ہر ہفتہ بیان کرتے ہیں، جن میں ان کے مریدین متوسلین اور معتقدین کثرت سے شریک ہوتے ہیں، پروفیسر یونس حسین حکیم صاحب صوفی شہباز علی قادری چشتی کے خلیفہ ہیں، جنہیں سید نور الدین احمد قادری جیلانی سے خلافت ملی تھی، اس حوالہ سے بھی کالج واسکول کے طلبہ اور شاگردوں کی اصلاح کا کام کرتے ہیں، وہ ایک فعال اور متحرک شخص ہیں، عمر کی اس منزل میں جب ان کی زندگی کا سفینہ اسی(۸۰) کی دہائی کراس کرنے والا ہے، وہ انتہائی مستعد اور چاق وچوبند نظر آتے ہیں، وہ چیرمین بہار اسٹیٹ مدرسہ بورڈ بھی رہے ہیں اور ابھی حال ہی میں بہار ریاستی اقلیتی کمیشن کے چیرمین کے عہدے سے سبکدوش ہوئے ہیں اور دونوں عہدے پر رہتے ہوئے جو کچھ ان سے بن پڑا کرنے سے دریغ نہیں کیا، ماضی قریب میں جو مدارس ملحقہ باتنخواہ ہوئے اور جو بقیہ کے لئے کوشش ہورہی ہے، اس کی داغ بیل بھی انہوں نے اپنے وقت میں ہی ڈالی تھی، گذشتہ کئی برسوں سے درس قرآن دینا، دینی کتابوں کا مطالعہ کرنا اور مذہبی جلسوں میں تقریر کرنا ان کا محبوب مشغلہ ہے، اللہ سے ان کی کتاب کی مقبولیت کے ساتھ موصوف کی محبوبیت اور اخروی زندگی میں مغفرت کی بھی دعا کرنی چاہئے، ہماری خواہش تو یہی ہے کہ وہ اپنے عمر کی سنچری لگا لیں اور جب تک رہیں صحت وعافیت کے ساتھ رہیں۔

Comments are closed.