Baseerat Online News Portal

بدلتی تہذیب اورمٹتے انسانی اقدار

(گاؤں ’گھر اورآنگن کی دنیا)

مفتی احمدنادرالقاسمی
اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا
جب ہم چھوٹے تھے ،گاؤں کی زندگی تھی،اپنوں میں یگانگی تھی ،اب بے گانگی ہے۔پہلے بڑوں کا احترام تھا ۔بزرگوں کے سامنے سے گزرتے ہوئے ڈرتے تھے۔احترام کایہ عالم تھاکہ والد سے کبھی آنکھ ملانے کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔اساتذہ کو راستے میں آتے ہوئےدیکھ کر راستہ بدل لیتے تھے ۔گاؤں میں کسی کے گھرمہمان آتا اوروہ اپنی منزل کاپتہ پوچھتا تو ہم لوگ ان کواپنے منزل مقصود تک نہ صرف یہ کہ چھوڑ آتے تھے بلکہ اسے اپنی سعادت سمجھ کر اس پر خوش ہوتے تھے۔ ہر آنگن میں فصلوں کی کٹائی کے وقت دھان ،گندم، ارہر،چنے،چپڑی ،السی،سرسوں، راگی اوردیگر اناجوں کے ڈھیرلگے ہوتے تھے اورجب رات کو بادل گرجتاتوہرشخص پودوں میں لگے غلوں کو اٹھااٹھاکر گھروں اوردالانوں میں محفوظ کرنے میں لگ جاتا۔ہرآدمی اپنے غلوں کے گٹھر اٹھانے کے بعد دوسروں کے غلے اٹھانے اورمحفوظ مقامات تک پہونچانے میں اپناکام سمجھ کر لگ جاتا۔ غلے گاہنے میں اس زمانے میںجس کا ذریعہ بیل تھے ،دھان کی گہائی میں صبح سخت سردی میں پانچ بجے صبح اورگیہوں اوردلہن وتلہن میں سخت دھوپ میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ۔دوسروں کے بوجھ اپنے کندھوں اورسروں پر لاد کر اس کے گھر پہونچاتے۔اب نہ تو وہ قدریں رہ گئی ہیں اورنہ وہ انسانیت ۔پہلے ایک دوسرے کی مدد پر فخر ہوتاتھا ۔اب لوگوں کی مدد کواپنی ذلت گرداناجانے لگاہے۔پہلے لوگوں میں حقیقی دین تھا۔”من لم یرحم صغیرنا ولم یوقر کبیرنا فلیس منا“ کی تعلیم لوگوں کی زندگی میں رچی بسی تھی،اس لیے بزرگوں کا احترام بھی تھااورچھوٹوں پر شفقت بھی تھی، اخلاق تھا ،انسانیت نوازی تھی ۔اب نہ احترام ہے نہ شفقت واپنائیت،اب خودغرضی ہے ۔پہلے بےلوثی اوراخلاص تھا۔پہلے دوسروں کی مددکرنے کولوگ باعث سعادت سمجھتے تھے ،اب اسے توہین اورباعث ذلت سمجھاجاتاہے۔
ایک زمانہ تھا جب شادی بیاہ کے موقعہ پر انتظامات کے لیےٹینٹ ،کرسیاں تخت اورشامیانے لگانے کےلیے کسی مزدور کی ضرورت نہیں ہوتی تھی ۔گاؤں اورمحلے کے سارے بچے مل کر یہ کام کرلیتے تھے۔کسی کا انتقال ہوجاتا تو محلے کے لوگ گاؤں گاؤں میت کی خبر لے کر خود چلے جاتے تھے ۔نہ قبرکھودنے کےلیے کسی مزدور کی ضرورت اورنہ بانس بلی کے لیے کسی کاٹنے والے لوہار اورکارپنٹر کو بلانے کی حاجت۔ ساراکام لوگ محبت سے خود انجام دے لیتے تھے۔ کیاوقت تھا اورکیسی انسانیت تھی ۔ سب مٹتا جارہاہے۔اس زمانے میں ذرائع نقل وحمل کے لیے صرف بیل گاڑیاں اورسائکلیں تھیں تو کام جلدی ہوجایاکرتے تھے۔ مگر آج موٹر سائکل ،گاڑیاں اور ہوائی جہاز ہے پھر بھی کوئی کام وقت پر نہیں ہوپاتا، ہمیشہ تاخیر کا شکوہ رہتاہے۔ یہ باتیں بہت پرانی نہیں ہیں ۔ابھی تیس پینتیس سال ہی تو گزرے ہیں۔
یہ بات یاد رکھئے جب دنیا بدلتے حالات اوربدلتی تہذیبی روایات کی رومیں بہتی جارہی ہواوراپنے ماضی کے اقدارکو فراموش کرتی جارہی ہوایسے حالات میں اپنی دینی اور اخلاقی اورایک قدم اور آگے بڑھ کے انسانی روش پہ جمے رہنا اورکسی لومۃ لائم کی پرواہ نہ کرنابھی دعوت دین کاایک مظبوط طریقہ ہے۔حضرت بلال،حضرت عمار ،حضرت سمیہ اورصحابہ کرام کی ابتدائی زندگی سے ہمیں یہ روشنی ملتی ہے۔میرے دوستو اخلاق واقدار کے داعی ،کردارکے سپاہی اوراپنی تہذیب کے پاسبان بنو خیر اپنے آپ دلوں میں جگہ بناتاچلاجائے گا۔ اخیر میں جی چاہتاہے آپ سے کہوں ۔”ذراتہذیب رفتہ کو آواز دینا“۔

Comments are closed.