ایک طرف پران پرتشٹھان دوسری جانب بلقیس بانو

ڈاکٹر سلیم خان
الکیمی یا کیمیا گرپاؤلو کویلہو کاوہ مشہور ناول ہے، جس کا ترجمہ دنیا کی0 8 زبانوں میں ہوا اوراس کتاب کے 14 کروڈ نسخےفروخت ہو چکےہیں ۔ اس کی کہانی میں اسپین کا ایک چرواہا خوابوں، شگون اور اشاروں کی مدد سے مدفون خزانے کی تلاش میں شمالی افریقہ کے صحرا کی خاک چھاننے کے بعد واپس اسی گرجا گھر کے کھنڈر میں خزانہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے جہاں سے اس نے سفر شروع کیا تھا۔ناول کی فضا میں خواب ا ور تکمیل کی آمیزش ہےاور درمیان میں عشق و شوق کی منازلیں عبور ہوتی ہیں۔ اس کاپیغام یہ ہےکہ مقصد کی دھن سے سب کچھ سہل ہوجاتا ہے اور لاحاصل خوابوں شرمندۂ تعبیر ہوجاتے ہیں۔ مثبت توانائی زندگی کو بدل ڈالتی ہے اوراہداف کے حصول کا جنون انسان کو دنیا کی ہر شئے سے بیگانہ کردیتا ہے یہاں تک کہ کوشش کرنے والے کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہوجاتے ہیں۔ مختصر یہ کہ بقول پاؤلو :’’ جب تم کوئی چیز حاصل کرنا چاہتے ہو، تو پوری کائنات مددگار ہوجاتی ہےتا کہ تم اسے اپنے قبضے میں کرسکو‘‘۔
کیمیا گر کی کہانی کو چائے بیچنے پر فخر کرنے والے وزیراعظم نریندر مودی پر منطبق کریں تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ انہوں سومناتھ مندر سے رام رتھ یاترا میں شامل ہوتے ہوئے ایک خواب دیکھا اور اب تیسری بار اسے شرمندۂ تعبیر کرنے کی خاطر ایودھیا کے پھیرے لگا رہے ہیں کائنات کی قوتیں الکیمیا کا ہیرو سینٹیاگو کی مانند ان کا ساتھ نہیں دے رہی ہیں کیونکہ یہاں عشق و شوق کے بجائے قتل و غارتگری ہے۔ پاؤلو کوہیلو کا ہیرو نفرت اور کینہ پروری سے پاک محبت اور محنت کی بنیاد پر جدوجہد کرتا چلا جاتاہے جبکہ مودی جی کا معاملہ اس سے متضاد ہے۔ اس لیے قدرتی آسانیوں کے بجائے ہر روز نت نئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہاہے مثلاً کبھی بلقیس بانو پر حکومت کے خلاف فیصلہ آجاتا ہے تو کبھی متھرا کے مندر معاملے میں الہ باد ہائی کے فیصلے کو سپریم کورٹ مسترد کردیتا ہے۔اس طر ہندوتوا نواز خوشیوں پر پانی پھر جاتاہے ۔ اس سے پہلے کہ یہ لوگ پھر سے نعرہ لگاتے کہ ’یہ تو بس اک جھانکی ہے کاشی متھرا باقی ہے‘‘ عدالتِ عظمیٰ نے ایک دلیرانہ فیصلے سے ان کا دل توڑ دیا اور اس کے ساتھ ہی ’دل کے ارماں آنسووں میں بہہ گئے‘۔
ایودھیا کےگرما گرم ماحول میں سپریم کورٹ نے متھرا کی شری کرشن جنم بھومی-شاہی عیدگاہ مسجد تنازعہ پر اپنے دو ٹوک فیصلے سے مودی سرکار کو ایک بڑا جھٹکا دیا۔ عدالت عظمیٰ نے الہ آباد ہائی کورٹ کے مسجد کا معائنہ کرنے کی خاطر کمشنر (کورٹ کمشنر) کا تقرری معطل کردیا۔ جسٹس سنجیو کھنہ اور جسٹس دیپانکر دتہ کی بنچ نے شاہی عیدگاہ مسجد کمیٹی کی طرف سے دائر خصوصی اجازت کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے الہ آباد ہائی کورٹ کے حکم پر روک لگا دی۔اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ نے ہندو فریق کے دلائل پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ آپ کی درخواست بہت مبہم ہے۔ آپ کو واضح طور پر بتانا ہوگا کہ آپ کیا چاہتے ہیں؟ عدالت کے اس معصومانہ سوال کا جواب ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے۔ سنگھ پریوار اس قسم کے تنازعات کو اچھال کر مسلمانوں کو ظالم قرار دینا چاہتا ہے اور خود کو ہندو عوام کا مسیحا ثابت کرکے ان کے ووٹ بنک پر قبضہ کرنا چاہتا ہے تاکہ اقتدارپر تسلط باقی رہے اور سرکاری خزانے پر عیش و عشرت کا سامان ہوتا رہے۔
ملک میں جب رام مندر تحریک اپنے عروج پر تھی اور اس کے سبب ہر سو فرقہ وارانہ ماحول تھاتونرسمھا راو کی حکومت نے عبادت گاہوں میں تبدیلی کے خلاف ایک قانون وضع کیا ۔ عبادت گاہوں کے حوالے سے مذکورہ قانون کے تحت 15؍ اگست 1947 کے بعد ملک میں تمام مذہبی مقامات کو جوں کا توں برقرار رکھنے کی یقین دہانی کی گئی تھی ۔ اس میں کہا گیا تھا کہ مندر، مساجد، گرجا گھر اور دیگر تمام عبادت گاہیں تاریخ کی روایت کے مطابق وہی رہیں گی جو ملک کی آزادی کے وقت تھیں، انہیں کوئی عدالت یا حکومت تبدیل نہیں کر سکتی۔ اس کے باوجود الہ آباد ہائی کورٹ نے ایڈوکیٹ کمشنر (کورٹ کمشنر) کی تقرری کا حکم دےدیا تھا تاکہ وہ مسجد کے احاطے کا سروے کرے۔اس پر مسجد کمیٹی کی جانب سے ایڈووکیٹ تسنیم احمدی سپریم کورٹ میں پیش ہوئے اور یہ دلیل دی کہ ہائی کورٹ اس وقت سروے کا حکم نہیں دے سکتا۔ اس کے ساتھ متھرا شری کرشنا جنم بھومی۔شاہی عیدگاہ مسجد تنازعہ کیس کو خارج کرنے کی اپیل بھی کی جس کی سماعت زیر التواء ہے۔ سپریم کورٹ بنچ نے ہائی کورٹ کے فیصلے پر روک لگانے کا عبوری حکم تو دے دیا لیکن ٹرانسفر کیس ہنوز عدالت میں زیر سماعت ہے۔
ماضی قریب میں عدالتِ عظمیٰ کی جانب سے مودی سرکار کو سب سے بڑا جھٹکا بلقیس بانو کیس میں لگا۔ سپریم کورٹ نے 8؍ جنوری 2024 کو مذکورہ مقدمہ میں 11 قصورواروں کو بری کرنے کے گجرات حکومت کے فیصلے کو منسوخ کر کے مرکزی حکومت کا منہ پر کالک پوت دی اور مجرموں کو دو ہفتوں کے اندر سرینڈر کرنے کے لیے کہہ دیا ۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ یہ مدت 21؍جنوری کو ختم ہوتی ہے یعنی 22؍ تاریخ کے ایک دن پہلے جیسا کہ15؍ اگست سے صرف ایک روز قبل مودی سرکار نے اپنی کٹھ پتلی گجرات حکومت کے ذریعہ انہیں عدالت کو دھوکہ دے کرچھڑوایا تھا۔ اس فیصلے کے بعد پہلے تو گیارہ میں سے نو فرار یعنی نو دو گیارہ ہوگئے ۔ انہوں نے سوچا ہوگا کہ ڈبل انجن سرکار ہے اس لیے ہمارا بال بیکا نہیں ہوگا لیکن اب وہ ڈر گئے ہیں۔ اس لیے 11 میں سے 3 مجرموں نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرکے خودسپردگی کی مدت میں توسیع کا مطالبہ کیا ہے۔ ان مجرموں نے ذاتی وجوہات کا ذکر کیا اور جیل جانے کے بجائے باہر رہنے کی مہلت مانگ لی۔
عام طور پر جب اس طرح کی درخواست عدالت ِ عظمیٰ کے سامنے آتی ہے تو اس کی سماعت فوراً نہیں ہوتی بلکہ اسے قطار میں لگا دیا جاتا ہے۔ کئی مرتبہ مدعی خود بھی یہی چاہتا ہے کہ تاریخ پر تاریخ پڑتی رہے اور معاملہ ٹھنڈے بستے میں چلا جائے لیکن یہاں مختلف صورتحال تھی ۔ ان مجرمین پر چونکہ دوبارہ جیل جانے کی تلوار لٹک رہی تھی اس لیے انہوں نے خود جلدی مچائی اور کورٹ نے اس پر توجہ بھی کی مگر نتیجہ الٹا نکل آیا۔ سپریم کورٹ نے فوراً سماعت کرکے بلقیس بانو کیس کے ۱۱؍ مجرمین کی خودسپردگی میں مہلت کی درخواست کو مسترد کردیا۔ جسٹس بی وی نگارتھنا اور اجل بھویان کی بینچ نے اس ضمن میں کہا ہے کہ مجرمین نے سرینڈر کرنے کیلئے وقت کی مانگ کرنے کے جو حوالے دیئے ہیں وہ بے بنیاد ہیں۔ جج صاحبان کے مطابق انہوں مجرمین کے وکلاء کے دلائل سنے اور مخالف ٹیم کے وکیل کا بیان بھی سنا اس کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ مجرمین کے ذریعہ خود سپردگی کیلئے مزید وقت کی مانگ کا جو مطالبہ کیا جارہا ہے اس میں دم نہیں ہے۔ اس طرح کے حوالے انہیں عدالتی حکم کی تعمیل کرنے اور جیل جانے سے نہیں روک سکتے۔ اس لئے ان کی درخواست کومسترد کردی گئی ۔مشیت نے اب یہ انتظام کردیا ہے کہ ایک طرف ایودھیا میں پران پرتشٹھاکی تیاری شباب پرتھی اور دوسری جانب بلقیس بانو کے مجرم جیل میں جمع ہورہے تھے۔اس طرح رام مندرکےافتتاح پر گرہن لگ گیا کیونکہ دونوں خبریں ایک ساتھ شائع ہو گئیں ۔
ان واقعات سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ مبادہ انتخاب سے قبل سنگھ پریوار کے ستارےگردش میں آچکے ہیں۔ وزیر اعظم کی شرکت کے بعد احمد آباد میں جب ہندوستانی ٹیم ورلڈ کپ فائنل ہار گئی تو ’پنوتی‘ لفظ خوب چلا تھا ۔ شنکر آچاریہ کے شراپ کے تناظر میں جب عام آدمی ان واقعات کو دیکھتا ہے تو اسے لگتا ہے گویا پران پرتشٹھان کو پنوتی لگ گئی ہے۔شنکر اچاریہ مکتیشور آنند کو نیوز نیشن کے نامہ نگار نے نہایت جارحانہ انداز میں رام چرت مانس کی ایک چوپائی سنائی جس کا مطلب تھا کہ رام کے لیے کوئی مخصوص شبھ مہورت نہیں ہوتا اور پھر پوچھا کہ وہ مہورت پر اصرار کیوں کررہے ہیں؟ اس پر بغیر اشتعال کے سوامی مکتیشور آنند نے اپنے جواب میں اس چوپائی کا پس منظر بتاتے ہوئے کہا کہ رام کی تاجپوشی کے لیے جب ان کے والد راجہ دشرتھ نے شبھ مہورت نکالنے کی درخواست کی تو جوش میں یہ بات کہہ دی گئی لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلا دوسرے دن تاجپوشی کے بجائے بن باس ہوگیا۔ اس مثال سے یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی جس تقریب کی مدد سےاپنی تیسری تاجپوشی کے خواہشمند ہیں وہ ان کی رخصتی کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ آئندہ قومی انتخاب کے بعد اگر ایسا ہوجائے تو اس پر شنکر آچاریہ بغلیں بجائیں گے۔ہندووں کے بڑے بڑے مذہبی رہنماوں کے ذریعہ رام مندر کی شدید مخالفت قرآن مجید کی اس آیت کی جانب توجہ مبذول کرواتی ہے جس میں کہا گیا ہے:’’۰۰۰ اور اگر اللہ ایک کو دوسرے کے ذریعہ سے دفع نہ کرتا رہتا تو زمین فساد سے بھر جاتی ، لیکن اللہ دنیا والوں پر بڑا فضل فرمانے والا ہے ‘‘۔
Comments are closed.