ایک ہندو ساتھی سے ملاقات اور غیر مسلم ذہنیت کا مطالعہ

 

عمر فراہی

بائیس جنوری کو رام مندر کے افتتاحی جلوس اور ہنگامے کی وجہ سے گھر پر ہی رہا لیکن ہمارے ہندو ملازم نے کارخانہ چالو رکھا تھا ۔آج جب میں کام پر گیا تو جان بوجھ کر حالات کا جائزہ لینے کے لئے۔ایک ہندو ساتھی کے کارخانے پر چلا گیا ۔اتفاق سے اس کا نام بھی رما تھا ۔میں نے کہا رما سیٹھ کیسے ہو اس نے مسکرا کر کہا سب بڑھیا ہے ۔پھر اس نے چاۓ منگوائی ۔چاۓ پیتے ہوئے میں نے اس سے پوچھا کہ کل کارخانہ چالو رکھا تھا یا بند تھا۔ اس نے کہا کیوں کل کیا تھا ؟
چونکہ ہم بہت بے تکلف تھے اس لئے طنزاً کہا کیوں کل رام للا براجمان نہیں کئے جارہے تھے ؟ ۔اس نے کہا رام للا نہیں مودی براجمان کئے جارہے تھے ۔اس نے کہا مندر کا ادگھاٹن کون کرتا ہے ۔میں نے کہا شنکر اچاریہ ۔اس نے کہا پھر مودی نے کیوں کیا ۔میں نے کہا آج کے سب سے بڑے شنکر اچاریہ تو مودی جی ہی ہیں ۔اس نے کہا سب 2024کے الیکشن کی سیاست ہے ورنہ وہ ادھوری مندر کے ادگھاٹن کے لیے اتنی جلد بازی کیوں کرتا ۔پھر اس نے باتوں باتوں میں کئی باتیں کی ۔اس نے کہا اس طرح سے ہندو مسلم اور ہنگامہ کرکے مندر مسجد نہیں بنانا چاہئے ۔اس نے کہا یہ نیتا لوگ کا کام نہیں ہے ۔مندر کو سادھو سنتوں اور شنکر اچاریہ کے حوالے کردینا چاہئے تھا وہ اپنا پوجا پاٹ کرکے شانتی سے ہٹ جاتے ۔پھر اس نے بی جے پی اور آرایس ایس ایس کی نفرت کی سیاست کو برا بھلا کہتے ہوۓ کہا کہ ہمارے یہاں کرناٹک اور کیرلا کے بارڈر پر ایک بڑا مندر ہے ۔اس مندر میں پوجا اس وقت تک نہیں ہوتی جب تک کہ وہاں کے ایک مسلمان خاندان کا آدمی حاضری نہیں دے دیتا ۔اس نے کہا ایک زمانے سے یہ روایت چلی ارہی ہے ۔باپ تو مر گیا لیکن اب بھی وہاں کے پجاری اس وقت تک پوجا نہیں شروع کرتے جب تک کہ ان کا لڑکا حاضر نہیں ہوتا ۔اس نے ہندو بھائی چارے کی مثال دیتے ہوۓ یہ بات کہی اور پھر شرڈی کے سائیں بابا کی مثال دیتے ہوۓ کہا کہ یہ سائیں بابا بھی مسلمان تھا لیکن اس کو ماننے والے سب ہندو ہیں ۔اگر مسلمانوں سے اتنی نفرت ہے تو پھر سائیں بابا کی مزار کو بھی توڑ دینا چاہئے ۔پھر اس نے ساؤتھ کی ساری بڑی بڑی مندروں کا تذکرہ کیا اور کہا کہ اگر مسلم بادشاہوں کے دور میں مندر توڑے جاتے تو یہ مندر ابھی تک کیسے باقی رہتے جبکہ ساؤتھ کے سارے بڑے بڑے مٹھ مسلم راجاؤں کے دور میں ہی تعمیر ہوۓ اور کوئی شور شرابہ اور ہنگامہ نہیں ہوا مگر ایک رام مندر بنانے کے لئے آرایس ایس نے ہندوؤں کو ستر سال سے الجھاۓ رکھا ۔اس نے کہا کہ بابری مسجد کے کمپاؤنڈ میں ایک زمانے سے رام چبوترا تھا اور وہاں پوجا بھی ہوتی تھی ۔اگر مسلم بادشاہوں کو مندر اور ہندووں کی پوجا سے نفرت ہوتی تو وہ اس چبوترے کو کبھی وہاں سے ہٹا دیتے مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا ۔ اس کے برعکس آرایس ایس نے جان بوجھ کر ایک بیانیہ تیار کیا کہ مسجد مندر توڑ کر بنائی گئی ہے ۔سوال یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کے دور میں مسجد کے اندر رام چبو ترا برداشت کیا جاسکتا تھا تو ایک سیکولر ریاست میں ایودھیا کے اندر ایک مسجد کیوں نہیں برداشت کی جاسکتی تھی ۔پھر اس نے بڑی عجیب سی بات کہی ۔اس نے کہا ہم لوگوں نے تو وہ دور دیکھا ہے جب ہمارے گاؤں میں ہندو مسلم آپس میں مل جل کر رہتے تھے اور اتنا بھید بھاؤ نہیں تھا لیکن ہندوؤں کی نئی نسل کی سوچ بالکل الک ہے ۔اس نے کہا بی جے پی کو ووٹ دینے والے زیادہ تر نوجوان نسل ہے ۔اس نے اپنے گھر کی بات بتائی کہ میرا بیٹا اور بہو سب مودی کی تعریف کرتے ہیں جبکہ میرا ان سے تکرار ہوتے رہتا ہے کہ اس کے اندر بول بچن کے علاوہ ہے کیا لیکن نہ جانے کیوں نئی نسل کے یہ لوگ ماننے کو تیار نہیں ہیں جبکہ ان لوگوں کو اس نے بے روزگار بھی بنا دیا ہے ۔اس نے کہا کہ اکثر آسٹریلیا میں مقیم میرے داماد اور لڑکی سے بات ہوتی ہے تو وہ لوگ بھی مودی کی تعریف کرتے ہیں اور کہتے ہیں پاپا مودی کے آنے سے باہر ملکوں میں ہندوستانیوں کا مورال بہت بلند ہوا ہے ۔اپنے اس دوست کی گفتگو سننے کے بعد اتقاق سے دلی کی ایک نوجوان خاتون وکیل اور اکٹیویسٹ جو سی بے این آرسی تحریک میں بھی بہت متحرک تھی سواتی سنہا کی انسٹا اسٹوری کو دیکھا تو یہی بات اس نے کسی جرنلسٹ کے حوالے سے پوسٹ کیا ہے کہ "میں نے اپنی زندگی میں کسی کو بہت زیادہ متعصب اور کٹر سنگھی ذہنیت کا حامل پایا ہے تو وہ غیر مقیم ہندوستانی ہیں ۔
یہاں پر اپنے ہندو ساتھی سے ہونے والی گفتگو میں ہم مسلمانوں کے اہل دانش کے مطالعے کی دلچسپی کے دو موضوعات جو تحقیق طلب ہیں وہ یہ ہیں کہ غیر مقیم ہندو اور ہندوؤں کی نئی نسل اتنی متعصب کیوں کر واقع ہوئی ہے اور ہم اس ذہنیت کو مثبت رخ کیسے دے سکتے ہیں ۔
خیر گفتگو ختم ہوتے ہی ہم باہر نکلے تو ہمارے ہندو ساتھی کا ایک آشنا سامنے آ گیا ۔اس نے کہا جئے بجرنگ بلی کی ۔ہمارے ساتھی نے ماحول کے مطابق طنزاً اس کا جواب دیا کہ جئے شری رام ۔اس کے ہندو ساتھی نے کہا کہ جئے شری رام نہیں سیتا رام کہتے ہیں اور پھر اس نے جئے شری رام نہ کہنے کی دلیل یہ دی کہ اس سے تکبر کی بو آتی ہے اور اور اس نے آرایس کا نام لئے بغیر کہا کہ یہ ایک نئی اصطلاح ہے ایک فرقے کو نیچا دکھانے کے لئے ۔اس نے کہا ہمارے بزرگوں نے سیتا رام سکھایا ہے اور اس میں نمرتا اور آپس میں محبت جھلکتی ہے ۔رام‌ کی شخصیت پروشوتم کی ہے اور ہمیں اس کو تکبر کی علامت نہیں بنانا چاہئے ۔
میں سمجھتا ہوں کہ غیر مسلم ذہنیت ایک بگڑی ہوئی مشین کی طرح ہے ۔خدائی تعلیمات سے دور ہونے کی وجہ سے اس کے اوپر مادیت زیادہ غالب ہوتی ہے اس لئے شیطان اس گروہ کے راستے سے انسانی معاشرے میں فساد اور خلفشار برپا کرنے میں زیادہ کامیاب ہوتا ہے ۔لیکن ایسا نہیں ہے کہ ان کے اندر اچھے اور سمجھدار لوگ پوری طرح ختم ہو چکے ہیں ۔ایک داعی کی حیثیت سے مسلمانوں کی ذمہ داری زیادہ ہوتی ہے کہ وہ غیر مسلم برادران وطن سے دوستانہ روابط کے ذریعے قریب ہونے کی کوشش کریں اور جب تک وہ ان کی ذہنیت کا مطالعہ نہیں کرتے ان تک اسلام کی دعوت پیش کرنا بہت مشکل ہے ۔ سب سے ضروری کام یہ بھی ہے کہ ان کے ذہنوں میں مسلمانوں کے خلاف آرایس ایس اور فرقہ پرست تنظیموں نے جو منفی narrative پیدا کیا ہے اسے دور کرنے کی کوشش کی جاۓ ۔یہ کام اتنا مشکل تو نہیں ہے لیکن ہم خود بھی تو اپنے دین اور ملت کے تئیں سنجیدہ نہیں ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہمارا ہر مسئلہ سیاسی طور پر حل ہو جاۓ جو کہ ناممکن ہے کیوں کہ سیاست پوری طرح غلاظت میں غرق ہے ۔ملک کے زمینی حالات کو انصاف پسند صاف ذہنیت کے ہندوؤں کے ساتھ مل کر ہی بدلا جاسکتا ہے ۔

Comments are closed.