ظریفانہ:یوم آزادی یا یومِ غلامی اور یوم جمہوریہ یایومِ منو سرتی

ڈاکٹر سلیم خان
للن مشرا نے کلن سنگھ سے پوچھا کیوں بھائی ایودھیا کب جارہے ہو؟
کلن بولا میں کیوں جاوں ؟ ان لوگوں کا وزیر دفاع راجناتھ سنگھ کو نہیں بلانا پورے راجپوت فرقہ کی توہین ہے۔ ہم اسے برداشت نہیں کرسکتے۔
دیکھو بھائی چھوٹی موٹی چیزوں کا برا نہیں مانتے وہاں تو مودی جی کے خاص آدمی بلکہ بایاں ہاتھ شاہ اور داہنا ہاتھ نڈا بھی نہیں جاسکے تو راجناتھ کی کیا بساط؟
بھیاللن مجھےدائیں بائیں سے مطلب نہیں وہ ا نہیں بلائیں یا نہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا مگرہمیں تو اپنے راجپوت راجناتھ کو نظر اندازکرنا کھلتا ہے۔
یار اتنی خوشی کے موقع پر جبکہ رام کے نام پر سارے ہندو متحد ہوچکے ہیں تم نے ذات پات کا جھگڑا چھیڑ دیا ۔ یہ بہت بری بات ہے ۔
کلن بولا یہ تنازع شنکر اچاریہ نشچلا نند نے چھیڑا ہے ۔ ان کو تو مودی جی کے مورتی کو چھونے پر اعتراض ہے ۔ انہیں پہلے سمجھاوپھر میرے پاس آو۔
للن نے کہا بھیا وہ شنکر اچاریہ ہیں ۔ ان کو سمجھانے کی جرأت تو موہن بھاگوت اورنریندر مودی میں بھی نہیں ہے۔ ہم آپ کس کھیت کی مولی ہیں ۔
اچھا اگر اقتدار کے باوجود ہمت نہیں ہے تو ان کاحکم مان لو اور مجھے سمجھانے بجھانے کی کوشش نہ کرو کیا سمجھے ؟
ا وہو کلن یہ کیوں نہیں سمجھتےکہ موہن بشٹ اگر یوگی بن جائیں تو کیا راجپوت نہیں رہتے ؟ وہ بھی تو گربھ گرہ میں بھی موجود تھے ۔
دیکھو بھائی یوگی جی تو وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے بلائے گئے تھے ان کی جگہ کیشو پرشاد موریا ہوتے تو ان کو بلایا جاتا ۔ اس میں کیا بڑی بات ہے؟
کلن سمجھتے کیوں نہیں ۔ وہاں گورنر کی حیثیت سے آنندی بین پٹیل کو بھی دعوت دی گئی مگر بھاگوت کے ساتھ یوگی کو تقریر کا موقع دیا گیا اور کیا چاہیے؟
للن سچ تو یہ ہے کہ مجھے اس مذہبی تقریب میں انتخابی تقریرٹھیک نہیں لگی ۔ آپ پوجا پاٹ کے لیے جائیں اور وہاں بھی شروع ہوجائیں ، یہ کیا مذاق ہے؟
کیسی باتیں کرتے ہو کلن مودی جی کہیں جائیں اور تقریر نہ فرمائیں یہ کیونکر ممکن ہے؟ ان کا تو معاملہ یہ ہے’’بنتی نہیں ہے بھاشن وایکشن کیے بغیر‘‘۔
یار للن تم پردھان جی تعریف کررہے ہو یا ان کا مذاق اڑا رہے ہو؟
دیکھو کلن اس طرح کی باتیں پوچھی نہیں جاتیں سمجھ لی جاتی ہیں، کیا سمجھے ’پوچھو نہ یوں صاف صاف ، زمانہ خراب ہے‘۔
کلن بولا اچھا تم تو سنگھ کے خاص آدمی ہو پھر بھی تمہیں ڈر لگتا ہے ۔ تعجب ہے ۔
یہاں خاص و عام کا فرق نہیں ہے۔ ڈاکٹر پروین توگڑیا بھی تو ایک زمانے میں بہت خاص تھے مگر اب کہا ں ہیں ؟
توگڑیا کے مطابق جب کیشو بھائی گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے تو مودی جی احمد آباد میں انہیں گھر میں ٹھہرتے تھے اور اب وہ نہ گھر کے ہیں نہ گھاٹ کے۔ یار احسان فراموشی تو ہمارا شعار ہے ورنہ خصوصی جہاز سے اڈوانی اور جوشی کو ایودھیا لے آنا مشکل کام نہیں تھا لیکن جب خواہش ہی نہ ہو تو کیا کیا جائے؟
کلن نے کہا بھیاایک بات تو ماننا پڑے گا کہ ہم سنگھ والوں کی طرح شنکر اچاریہ نہیں ڈرتے۔ وہ جس بات کو درست سمجھتے ہیں ببانگِ دہل کہتے ہیں۔
دیکھو بھائی ہندو سماج میں ان کی جڑیں بہت مضبوط ہیں۔ ہمارا کیا ہے کہ ہم نیم سیاسی اور نیم مذہبی لوگ ہیں اس لیے لوگ ہمیں نیم حکیم سمجھتےہیں۔
لوگ جو بھی سمجھتے ہوں اس سے کیا فرق پڑتا ہے ؟ وہ ووٹ تو ہمیں کو دیتے ہیں۔ اقتدار کی موج اڑانے کے لیے یہ کافی ہے ۔
للن بولا ہاں یار مگر حزب اختلاف کے اس اتحاد نے رنگ میں بھنگ ڈال دیا ہے۔ ہمارا مخالف ووٹ اگر تقسیم نہ ہو تو مشکل ہوجائے گی۔
جی ہاں مجھے تو لگتاہے اسی کے خوف سے مودی جی نے رام کی شرن (پناہ) لی ہے۔ وہ لوگ متحد نہ ہوتے تو مودی ان کوبنا رام کی مددکے نمٹ لیتے ۔
تم صحیح سمجھے ۔ آدھے ادھورے مندر کے افتتاح کے پسِ پشت وہی دباو کام کررہا تھا مگر شنکر اچاریہ کی مخالفت نے سارا کھیل بگاڑ دیا۔
ارے بھیا ان کی مشکل یہ ہے کہ وہ تو چمپت رائے کی مانند مودی جی کو وشنو کا اوتار نہیں سمجھتےاس لیےدھرم شاستر کے مطابق بولتے ہیں۔
للن نے کہالیکن چمپت رائے کی تائید میں خود پردھان جی نے اپنی تقریر میں مافوق الفطرت قوتوں کو اپنے اندر محسوس کرنے کا دعویٰ کردیا ۔
یار یہی تو مسئلہ ہے کہ وہ کوئی نہ کوئی ایسی بات کہہ جاتے ہیں جس سے مذہبی اور سیاسی مخالفین کو موقع مل جاتا ہے۔ وہ کم بولیں تو ان کے لیے اچھا ہے۔
لیکن یہ بات ان کو سمجھائے گا کون؟ جو بھی ایسی کوشش کرے گا اس کی بولتی بند کردی جائے گی۔
کلن نے پوچھا یار یہ ’عزت و وقار‘ کا کیا چکر ہے؟ بار بار کہاجاتا ہے کہ پانچ سو سال بعد یہ حاصل ہوا ہے تو کیا اس عرصے میں ہم لوگ ذلیل وخوا ر تھے؟
جی نہیں ہم اونچی ذات والے تو کبھی رسوا نہیں ہوئے ہاں بیچارے شودر ضرور ذلت کی تاریکی میں پھنسے رہے ۔
بھیا وہ تو اب بھی وہیں ہیں بلکہ پچھلے چند برسوں میں ان کے اندر جو خوداعتمادی پیدا ہوئی تھی اس کو بھی فی الحال کچلا جارہا ہے۔
یہ بہت ضروری ہےکیونکہ ان کی خود اعتمادی ہماری برتری کے لیے خطرناک ہے اس لیے انہیں دوبارہ ایک ہزار سال پرانی غلامی میں مبتلا کرنالازم ہے۔
کلن چہک کر بولا ہاں یار اچھا یاد آیا یہ جو بار بار ایک ہزار سال پرانی غلامی کی بات کہی جارہی ہے یہ بھی سمجھ میں نہیں آتی ۔
ارے بھائی ایک ہزار سال قبل ملک میں ہندو راجاوں کی جگہ کچھ ریاستوں سمیت دہلی میں مسلمان بادشاہ آگئے۔ اسی کے حوالے سے یہ کہا جاتا ہے۔
وہ تو ٹھیک ہے مگر راجہ ہو بادشاہ ؟ اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟؟ ہم تو اقتدار سے فیضیاب ہوتے ہی رہے ۔
جی ہاں تمہارے آباو اجداد ہندو راجاوں کے ساتھ مسلم بادشاہوں کی فوج میں بھی سپہ سالار بن گئے اور ہمارےبزرگ مندرکا کاروبار چلاتے رہے۔
کلن نے سوال کیا لیکن کچھ تو فرق پڑا ہوگا ؟
جی ہاں مسلم اور انگریز حکمرانوں نےکچھ پابندیاں ختم کردیں مثلاً شودروں کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دے دی اور ایک خاموش انقلاب آنے لگا۔
اچھا! لیکن سرکار دربار تک رسائی کے باوجود ہم نے اس سے منع کیوں نہیں کیا ؟
بھیا کیا بھی ہوگا مگر کوئی حکمراں ہماری بات مان لے یہ ضروری تو نہیں ۔ ان لوگوں نے ہمارا یہ مطالبہ مسترد کردیا ہوگا ۔
اچھا اگر ایسا ہوا تو ہمارے آبا و اجداد اس کے خلاف احتجاج یا بغاوت بھی تو کرسکتے تھے ؟
جی ہاں کرتو سکتے تھے لیکن اس سے سرکاری عیش و عشرت کے چھن جانے کا خطرہ تھا اس لیے ان لوگوں نےوہ سب برداشت کرلیا ۔
یار للن تم نے اپنے پوروجوں پر اتنا سنگین الزام لگا دیا ۔ مجھے اچھا نہیں لگا۔ یہ دعویٰ تم کس بنیاد پر کر سکتے ہو؟
بھا ئی اس کا سب سے بڑا ثبوت تو ہمارے نام نہاد ویر ساورکر کا معافی نامہ ہے جو انہوں نے انگریزوں کو لکھا تھا اور تاحیات وفاداری کا عہد کیا تھا۔
ہاں بھیا شاید اسی لیے ہمارے سنگھ پریوار کا کوئی فرد انگریزوں کے خلاف آزادی کی جدوجہد میں نظر نہیں آتا ۔
اسی کلنک کو مٹانے کے لیے تو ہم لوگوں نے15؍ اگست سے قبل 5؍ اگست 2019کو کشمیر کی دفع370 ختم کردی
جی ہاں اور2020 میں اسی دن رام مندر کا سنگ بنیاد بھی رکھا گیا ۔ اب سمجھا کہ ان دونوں مواقع پرغلامی کے خاتمہ کی بات کیوں کی گئی تھی۔
جی مگر 2021 کورونا کی نذر ہوگیا۔2022 میں اگر ایوان پارلیمان کی نئی عمارت بن جاتی تو اس کا افتتاح بھی5؍ اگست کو ہی ہوتا مگر وہ نامکمل تھی۔
وہ تو ٹھیک ہے مگر اس سال 5؍اگست تک رام مندر کا کام مکمل کرکے پھر سے 15؍ اگست کی تاریخ بدلنے کی کوشش کی جاسکتی تھی۔
جی ہاں لیکن اس سے پہلے انتخاب ہے۔ اس میں کامیابی مشکوک ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کو یقینی بنانے کے لیے ادھورے مندر کا افتتاح کرنا پڑگیا۔
لیکن اس کے لیے 22؍ جنوری کا انتخاب کیوں کیا گیا؟
یہ یوم جمہوریہ کی اہمیت کم کرنے کی کوشش ہے۔ دراصل منوسمرتی کے نفاذ میںسب سے بڑی رکاوٹ 26 جنوری کو نافذ ہونے والآئین ہند ہے ۔
کلن نے کہا اچھا بھیا اب سمجھا کہ ہمارے سنگھ پریوار کو15؍ اگست اور26؍جنوری سے کیا پریشانی ہے؟
جی ہاں اور امید ہے کہ یہ بات بھی سمجھ میں آگئی ہوگی کہ ایک ہزار سالہ غلامی کا مطلب کیا ہے؟
بھیا للن مجھے تو یہ سمجھ میں آیا کہ ایک ہزار سال میں ملک کے شودروں کو ملنے والی آزادی کو پھر سے غلامی میں بدلنے کی سازش ہے ۔
للن مشرا بولے تم بالکل سہی سمجھے کلن سنگھ ۔ پانی سر سے اونچا ہوچکا ہے ۔ ہماری صدیوں پرانی برتری کو قائم و دائم رکھنے کا یہ آخری موقع ہے۔
اچھا تو کیا اسی لیے ہم لوگ مودی اور شاہ جیسے لوگوں کی حمایت پر مجبورہیں؟
جی ہاں بھیا اگر ایسا نہ ہوتا تو میں سب سے پہلے سنگھ کا قلاوہ اپنے گلے سے نکال پھینکتا ۔ اس سےبہت دم گھٹتا ہے مگر کریں تو کریں کیا؟
کاش کے ہمارے آبا واجداد نے جنگ آزادی میں حصہ لیا ہوتا تو ہم بھی شان سے 15؍ اگست کو یومِ آزادی مناتے ۔
اور ہمیں ایک ہزار سال کی غلامی کا راگ الاپ کر 5؍ اگست کا یوم غلامی ایجاد نہ کرنا پڑتا۔
Comments are closed.