ہمارے جلسے : قرآن وحدیث کی روشنی میں!(۱)

 

فقیہ العصرحضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ

ربیع الاول اور شعبان کے مہینے بر صغیر کے مسلم سماج میں جلسوں کے مہینے ہوتے ہیں، ربیع الاول میں سیرت کی مناسبت سے جلسے ہوتے ہیں اور شعبان میں دینی مدارس کی نسبت سے، اسی طرح بعض قمری مہینوں میں اس ماہ میں کسی بزرگ کے واقعہ وفات کی مناسبت سے بھی جلسے کئے جاتے ہیں، یہ تو اہل سنت کے جلسے ہیں، شیعہ حضرات محرم الحرام اور بزرگان اہل بیت کی وفات کے ایام میں جلسوں کا اہتمام کرتے ہیں، اگر اِن جلسوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت بیان کی جائے اور خاص طور پر نوجوان نسل کو آپ کی حیات طیبہ سے واقف کرایا جائے تو یہ بہت بہتر عمل ہے؛ البتہ سیرت کے جلسوں کو با معنی بنانے، مرتب طور پر سیرت مبارکہ کو پیش کرنے اور زندگی کے معمولات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات اور سنتوں سے واقف کرانے کے لئے جلسوں کا انعقاد ہو تو یہ بہت مفید عمل ہے، اسی طرح اگر شعبان کے مہینہ کو رمضان المبارک کے اعمال کی تلقین کرنے کے لئے پروگرام ہوں، یا دینی مدارس میں تعلیم کی تکمیل کا مہینہ ہونے کی مناسبت سے جلسے رکھے جائیں، مسلمانوں کو دینی تعلیم کی ضرورت اور موجودہ حالات میں ایمان کی حفاظت کے لئے مدارس ومکاتب کی اہمیت سے واقف کرایا جائے، تو یہ ایک اہم عمل ہوگا، اسی طرح مسلمانوں کے مختلف گروہ اپنے مسلک اور نقطۂ نظر کے مطابق بزرگوں کے حالات سے نئی نسل کو واقف کرانے کے لئے جلسے منعقد کریں تو اس کی بھی گنجائش ہو سکتی ہے؛ البتہ ہونا یہ چاہئے کہ اس میں بزرگوں کی دینی جدوجہد کا ذکر کیا جائے، لوگوں کو عمل کی دعوت دی جائے اور اُن کے اخلاق وکردار کو اپنے اندر جذب کرنے کی بات کہی جائے؛ تاکہ لوگوں کی اصلاح ہو اور ان کی زندگی میں مثبت اور بہتر تبدیلی آئے۔

لیکن چند باتیں وہ ہیں، جن کا اس طرح کے تمام ہی اجتماعات میں لحاظ رکھنا ضروری ہے، یہاں نمبر وار اُن کا ذکر کیا جاتا ہے:

۱۔ تقریر میں وہی بات کہی جائے جو معتبر ہو، اور قرآن مجید، معتبر احادیث یا صحابہ کے قول وفعل سے ثابت ہو، اللہ جزائے خیر دے حضرات فقہاء کرام کو کہ انھوں نے اصول متعین کر دیا ہے کہ چار ہی چیزیں دلیل شرعی ہیں:(۱) کتاب اللہ، (۲) سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (۳) اجماع اُمت (۴) اور قرآن وحدیث کی روشنی میں کیا جانے والا قیاس(الموافقات للشاطبی:165/3 قرآن کے احکام ہمیں خود قرآن مجید سے معلوم ہوتے ہیں، معتبر احادیث کے مجموعے جیسے: بخاری ، مسلم، ترمذی، ابو داود، نسائی، ابن ماجہ، طحاوی، مسند امام ابو حنیفہ، مسند امام احمد بن حنبل اور طحاوی وغیرہ موجود ہیں، اور موجودہ زمانہ میں مطبوعہ کتابوں کی صورت میں یا نیٹ کے ذریعہ سے تقریباََ ہر عالم دین کی دسترس میں ہیں، اجماع اور قیاس سے جو احکام ثابت ہیں، وہ فقہ کی کتابوں میں پوری وضاحت کے ساتھ لکھے ہوئے ہیں، اور ہر عالم دین اپنے زمانۂ تعلیم میں استاذ کی مدد سے ان کو کتابوں میں پڑھتا اور سمجھتا ہے، شریعت کے ان چاروں مآخذمیں فضائل بھی ہیں مسائل بھی ، معتبر اور اثر انگیز واقعات بھی ہیں، عقیدہ، عبادت، معاشرت، کسب ِمعاش اور اجتماعی زندگی کی ساری تفصیلات لکھی ہوئی ہیں، حقیقت یہ ہے کہ مقرر کسی بھی موضوع پر صحیح مواد پیش کرنا چاہے تو اس کے لئے یہ بہت کافی وشافی ہے، اور اس میں جومضامین موجود ہیں، ان پر کم سے کم اہل سنت والجماعت کا اتفاق ہے۔

بدقسمتی سے بعض مقررین غیر معتبر روایات کو اس طرح نقل کرتے ہیں، گویا یہ بالکل سچی اور پکی بات ہے؛ حالاں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے میری طرف جھوٹی بات کی نسبت کی اُس نے دوزخ میں اپنا ٹھکانہ بنا لیا (بخاری ، عن عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ، حدیث نمبر: 3461) آج کل غیر مستند روایتوں کو تقریر میں رنگ پیدا کرنے کے لئے بیان کیا جاتا ہے، اور بعض ہوشمند مقررین کہہ دیتے ہیں، ’’ دروغ بر گردن راوی‘‘ یعنی نقل کرنے والے کی گردن سپر جھوٹ کا بوجھ؛ مگر یہ اپنے آپ کو اور سامعین کو دھوکہ دینا ہے، جب تک کسی بات کے صحیح ومعتبر ہونے کی تحقیق نہ ہو جائے، اس کو نقل کرنا بھی جھوٹ میں داخل ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: آدمی کے جھوٹے ہونے کے لئے یہ بات کافی ہے کہ وہ جو کچھ سنے اور بلا تحقیق اس کو نقل کر دے : کفی بالمرء کذبا ان یحدث بکل ما سمع (مسلم، عن ابی ہریرۃؓ، حدیث نمبر:5)

کرامت حق ہے، اور کسی بزرگ بلکہ عام انسان کے ساتھ ایسا واقعہ پیش آسکتا ہے، جو خلاف ِعادت ہو؛ لیکن یہ دلیل شرعی نہیں ہے، اور اگر قرآن وحدیث سے اس کی تائید نہ ہوتی ہو تو اس پر عمل کرنا جائز نہیں ہے، چاہے کتنے ہی بڑے بزرگ کے بارے میں منقول ہو؛ اس لئے ایسی باتوں کو عوامی جلسوں میں بیان کرنے سے بچنا چاہئے؛ کیوں کہ عوام میں اتنا شعور نہیں ہوتا کہ وہ اس بات کو سمجھ سکیں کہ بزرگوں سے منقول کو ن سی بات ہمارے لئے قابل عمل ہے اور کون سی بات ہمارے لئے قابل عمل نہیں ہے، اسی طرح الہام یعنی دل میں کسی بات کا آجانا حجت نہیں ہے، جس کو دلیل بنا کر پیش کیا جائے، صرف نبی ہی کی ذات ایسی ہے کہ اس کا خواب بھی حجت ہے، اسی بنا پر حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام نے حضرت اسماعیل علیہ الصلاۃ والسلام کی قربانی کا فیصلہ کیا(الصافات: 102)اور اسلام میں اذان کے الفاظ مقرر ہوئے (سنن ابی داود، حدیث نمبر: 498)مگر انبیاء کے خواب کے علاوہ کسی کا خواب نہ اس کے حق میں حجت ہے، نہ دوسروں کے، بہت سی دفعہ گمراہ لوگ خواب بیان کر کے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں؛ اس لئے اپنے خواب یا اپنے شیخ کا خواب بیان کرنے سے بھی گریز کرنا چاہئے، شریعت میں اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

۲۔ بعض مقررین کا خطاب لطائف کا مجموعہ ہوتا ہے، وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر ہنسنے ہنسانے کی بات لاتے ہیں، نوجوان نصیحت حاصل کرنے سے زیادہ قہقہہ لگانے کے لئے ان کی مجلسوں کا رُخ کرتے ہیں، اور بعض دفعہ تو لطیفہ کے نام پر ’’ کثیفہ‘‘ یعنی گندی باتیں نقل کر جاتے ہیں، جس کو سنجیدہ اور غیرت مند لوگوں کو سننا بھی گراں گزرتا ہے، اور جس کو کوئی باپ اپنے بیٹے کے ساتھ یا بیٹا اپنے باپ کے ساتھ سننا گوارہ نہیں کر سکتا، ایسی تقریروں کا کوئی اثر نہیں ہوتا، صرف ہنسنے ہنسانے میں بات ختم ہو جاتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو جھوٹ بول کر لوگوں کو ہنسائے اس کے لئے ہلاکت ہے: ویل للذی یحدث فیکذب لیضحک بہ القوم، ویل لہ ویل لہ (سنن ابی داود، حدیث نمبر: 4990)ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: زیادہ ہنسنے سے بچو! کیوں کہ زیادہ ہنسنے سے دل مردہ ہو جاتاہے (سنن ترمذی، کتاب الزہد، عن ابی ہریرۃؓ، حدیث نمبر: 2305 ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ڈھیر سارے خطبات ارشاد فرمائے ہیں؛ لیکن غالباََ کہیں کسی خطاب میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لطیفہ یا مزاح کی بات نقل نہیں فرمائی، اگر لطیفہ یا مزاح کے ذریعہ تقریر کو موثر بنانا قابل قبول عمل ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے خطاب میں لطائف بیان کئے ہوتے، ایک بڑے عرب عالم کے بقول: مزاح دعوت کا طریقہ نہیں، تفریح کا طریقہ ہے: ولیست ھذہ بطریقۃ دعوۃ وانما طریقۃ ترویح اس لئے اگر خطاب میں کہیں کوئی مختصر سا لطیفہ آجائے اور وہ تہذیب واخلاق کے دائرہ میں ہو تو اس کو نقل کرنے کی گنجائش ہو سکتی ہے؛ لیکن اس کو بیان کا بنیادی مضمون بنا لینا درست نہیں ہے۔

۳۔ آج کل ایک مزاج جلسوں میں شعر خوانی کا بھی ہوگیا ہے، اس کے لئے خوش آواز نوجوانوں کو دعوت دی جاتی ہے، کافی وقت اشعار سننے اور سنانے میں ضائع کیا جاتا ہے اور اب اس سے آگے بڑھ کر مقررین خود بھی اپنے خطابات میں اشعار کا ڈھیر لگا دیتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے خطبات میں اشعار نہیں پڑھے، علامہ عز الدین بن عبدالسلام نے لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جمعہ، عیدین یا دوسرے خطبوں میں کبھی اشعار نہیں پڑھے؛ بلکہ ہمیشہ آپ کے خطاب میں قرآنی آیات اور سلیس انداز پر نصیحت کی باتیں ہوتی تھیں: لم ینقل عن النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہ القی اشعارا فی خطبہ (کالجمعۃ او العید او غیرھا) بل کان خطابہ یعتمد علی الوحی والبلاغۃ النبویۃ (فتاویٰ عز الدین عبدالسلام: 194)

البتہ چوں کہ جائز مضمون پر مشتمل اشعار کا کہنا، پڑھنا، سننا اور سنانا جائز ہے؛ اس لئے اگر موقع کی مناسبت سے ایک دو شعر کہیں پڑھ دیا جائے جو اچھے مضامین پر مشتمل ہوں تو اس کی گنجائش ہے؛ مگر وہ اشعار بھی عبرت آموز اور صالح مضامین پر مشتمل ہوں، اشعار پڑھنے کی کثرت نہ ہو، اور جو لوگ نعت پڑھتے ہیں، وہ بھی مضمون کے تقدس کا لحاظ رکھیں، آج کل بعض نعت خواں حضرات اس قدر کھینچ کر نعتیہ اشعار پڑھتے ہیں کہ ڈر لگتا ہے کہ کہیں ان کی سانس ہی نہ اُکھڑ جائے، اور بعض لوگ اپنی خوش الحانی کو موثر بنانے کے لئے فلمی گانوں کا طرز اختیار کر لیتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اہل عشق یعنی فاسق وفاجر لوگ جو عشقیہ مضامین گاتے ہیں، ان کا طرز اختیار کرنے سے بچو: ایاکم ولحن اھل الفسق (شعب الایمان، عن حذیفہ بن یمان، حدیث نمبر: 2406 ) اگر انسان کی اصلاح اور معروف کی دعوت کے لئے اشعار پڑھنا اور گانا مفید ہوتا تو قرآن مجید میں نثر کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ شعر بھی نازل فرماتے، مشہور بزرگ حضرت مولانا احمد رضا خاں بریلویؒ نے نعت خوانی کے بارے میں لکھا ہے:

’’نعت سادہ، خوش الحانی کے ساتھ ہو، گانوں کے طرز پر نہ پڑھی جائے‘‘ (فتاویٰ رضویہ: ۲۳؍ ۳۴۳)

اسی طرح بعض دفعہ لوگ نعت پڑھنے کے لئے اسپیکر کا ECO بڑھا دیتے ہیں، جس سے گونج پیدا ہوتی ہے، الفاظ تکرار کے ساتھ ادا ہوتے ہیں، یہ بھی مناسب نہیں ہے اور قرآن مجید میں تو اس طریقہ کا استعمال شاید جائز بھی نہ ہو، مائک تو آواز کو دور تک پہنچانے کا ذریعہ ہے؛ لیکن اس میں خصوصی طور پر ECO بڑھانا لہوولعب میں شامل ہے، حضرت مولانا احمد رضا خاں فاضل بریلویؒ اپنے ایک فتویٰ میں فرماتے ہیں:

’’ نعت خوانی آلات لہوولعب اور افعال لغو مثلاََ مزامیر وغیرہ کے ساتھ نہ کی جائے‘‘ (فتاویٰ رضویہ: 79/26)

جلسوں میں کثرت سے نعت خوانی جلسہ کے اصل مقصد کو ختم کر دیتی ہے، کسی اہم موضوع پر کوئی خطیب عمدہ، مدلل اور موثر خطاب کر دے اور پھر آپ کسی نعت خواں سے ایک نعت پڑھوا دیجئے تو خطاب کا سارا اثر ختم ہو جاتا ہے، اور سامعین کے دل ودماغ میں صرف نعت خواں کی نغمہ ریزی کا لحن ہی باقی رہ جاتا ہے ، نیز اکثر جلسوں میں نعتیں بھی ایسی پڑھی جاتی ہیں، جو بہت زیادہ غلو اور مبالغہ پر مبنی اور اسلام کے تصور توحید کے بھی خلاف ہوتی ہیں، بعض دفعہ بے معنی بھی ہوتی ہیں اور بعض قطعات فنی اعتبار سے بھی بے وزن ہوتے ہے۔

پہلے اس طرح کے جلسوں کا رواج مشرقی یوپی، بہار، جھارکھنڈ اور بنگال میں تھا، دوسرے علاقے اس سے محفوظ تھے، اب ان علاقوں کے لوگ ملک کے دوسرے شہروں میں جہاں جہاں ہیں، وہاں بھی ایسے ہی نعت خوانوں کو دعوت دیتے ہیں، اور وعظ وپند سننے کی بجائے نغمے سننے کا ماحول بناتے ہیں۔ (جاری)

Comments are closed.