مولانا غلام محمد وستانوی کی رحلت امت کے لیے صدمہ جانکاہ : انوارالحق قاسمی

بصیرت نیوزڈیسک
جامعہ اشاعت العلوم اکل کوا کے بانی،دارالعلوم دیوبند کے سابق مہتمم، متعدد دینی و عصری مراکز کے سرخیل ،علمی دنیا میں بلند مقام کی حامل شخصیت اور عاشق قرآن مولانا غلام محمد وستانوی صاحب کے سانحہ ارتحال پر جمعیتِ علماء روتہٹ نیپال کے ترجمان مولانا انوارالحق قاسمی نے کہا کہ’ مولانا غلام محمد وستانوی کے ‘ گزشتہ کل (4/مئی 2025ء ) شام میں انتقال کے معا بعد ہی سے دینی و عصری درس گاہوں میں غم کےماحول کے ساتھ ہر طرف افسردگی چھاگئی ہے۔ یقینا مولانا کی رحلت امت کے لیے صدمہ جانکاہ یے’۔ رب العالمین مولانا -علیہ الرحمہ – پر خوب رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائے آمین۔
آپ کے زریں کارناموں میں ایک نمایاں کارنامہ مہاراشٹر کے اکل کوا ضلع نندوبار میں ‘مدرسہ اشاعت العلوم ‘کا قیام ہے،جو آج پوری دنیا اور خاص کر ہندو نیپال کے علومِ دینیہ کے طلبگاروں کو خوب سیراب کررہاہے۔ اب تک یہاں سے ہزاروں حفاظ اور علماء پیداہوچکےہیں۔
ملحوظ خاطر ہو کہ مولانا نے جہاں قوم کے نونہالوں کو دینی علوم سے آراستگی کےلیے دینی ادارے قائم کیے،وہیں وقت کے موجودہ چالنجز کو خاطر میں لاتے ہوئے عصری اداروں کی بھی داغ بیل ڈالی،جس سے مسلم قوم کے بچے خوب مستفید ہو رہے ہیں۔
آپ کو انتظامی امور میں بڑی مہارت حاصل تھی۔ چناں چہ آپ کی اسی مہارت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے حضرت مولانا محمد مرغوب الرحمن صاحب بجنوری سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند کے انتقال کے بعد آپ کو2011ء میں دارالعلوم /دیوبند کا مہتمم بنادیا گیا؛مگر اختلافات کی کثرت کی بنا بہت جلد :یعنی صرف ‘ سات ماہ ‘میں ہی آپ کو عہدہ اہتمام سے مستعفی ہونا پڑا۔
مولانا وستانوی کو قرآن کریم سے بےپناہ محبت تھی،جس کے عملی مظاہرہ سے وہ مسلمانوں میں عاشق قرآن سے متعارف ہوئے ۔ موجودہ وقت میں عاشق قرآن کا لفظ تلفظ یا نوشت کرتے ہی اس کا ابتدائی مفہوم مولانا غلام محمد وستانوی ہی سمجھے جاتے ہیں۔ قرآن سے از حد وارفتگی ہی کا یہ اثر تھا کہ حضرت ملک اور بیرون ممالک میں خوب شوق سے’ مسابقہ قرآن کریم ‘ کرتے رہے ہیں ،جس کا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ حافظوں کی اب صحیح تعداد کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہوگیا،فللہ الحمد ۔
اوروں کی طرح مولانا وستانوی صاحب کو صرف اپنی اور اپنی اولاد کی فکر نہیں تھی؛بل کہ انھیں ہر وقت پوری امت کی فکر رہتی تھی،حتی کہ بیماری کے ایام میں بھی صرف امت ہی کی فکر دامن گیر رہتی تھی کہ’ امت کا کیا حال ہے؟ان کا بھلا کیسے ہوگا ؟اور امت ظالموں کے ظلم وتشدد سے کیسے بچےگی؟’۔ یہی وجہ ہے کہ آج جب وہ رحلت فرما گئے ہیں،تو پوری امت غم سے نڈھال ہوگئی ہے۔
مولانا وستانوی کے سینے دنیاداری بالکل نہیں تھی ،بل کہ وہ سراپا دین دار اور پارسا شخص تھے۔ حضرت اپنی ایک ویڈیو میں فرما رہے ہیں کہ ‘ دنیا میں سوائے ذات وحدہ کے کسی کو قرار نہیں ،بل کہ سبھوں کو دنیا چھوڑ جانا ہے۔ چناں چہ اس دنیا سے ہمارے والدین چلے گئے،دادا چلے گئے، پر دادا چلے گئے،اساتذہ چلے گئے ،اساتذہ کے اساتذہ چلے گئے اور ایک وقت آئے گا کہ آپ سنیں گے کہ مولانا وستانوی بھی چلے گئے’ اس لیے ہمیں آخرت کی زیادہ فکر کرنی چاہیے ۔
حضرت کی ایک اور ویڈیو ہے،جو ان دنوں سوشل میڈیا پر کافی گردش میں ہے،اس سے حضرت کی خاکساری،عاجزی اور فروتنی کا غایت درجہ اظہار ہوتاہے۔حضرت فرماتے ہیں کہ :’ میری کوئی حیثیت نہیں ہے، میں ایک چھوٹے سے گاؤں کا ایک بدوی انسان ہوں،میرے ماں باپ اہل علم نہیں تھے؛مگر دین دار تھے اور علماء کے عقیدت مند تھے اور میرے دادا بھی ایک عام انسان اور کسان تھے۔کھیتی باڑی کیا کرتے تھے،البتہ وہ متشدد دیندار تھے،وہ اپنی اولاد کی تربیت کے سلسلے میں کافی سخت تھے اور نمازوں کے بڑے پابند تھے،یہی وجہ تھی کہ سخت مجبوری کی حالت میں بھی ان کی کبھی رکعت نہیں چھوٹتی تھی اور یہی حال میرے والد محترم کا بھی تھا کہ وہ بھی نمازوں کا خاص اہتمام فرمایاکرتے تھے،وہ ہم سے کبھی پیسوں کےلیے ناراض نہیں ہوئے کہ تم ہمیں پیسے کیوں نہیں یا کم کیوں دیئے ،بل کہ وہ صرف اس لیے ناراض ہواکرتے تھے کہ ‘تم نماز میں سستی برتتے ہو اور سنتوں کا،تہجد کا کوئی اہتمام نہیں کرتے ہو،جب کہ تم عالم دین ہو’ یہ تھی ان کی فکر کہ’ ہمارا ہر بچہ نمازی اور دین دار کیسے ہو’؟
میرے خیال سے مولانا وستانوی کے دادا اور والد گرامی کی اسی فکر نے مولانا کو دنیا کے چہار سمتوں میں چاند کی طرح چمکایاہے اور ان سے دین و ملّت کا خوب کام لیاہے۔اور یہ ایک حقیقت ہے کہ والدین کے تقویٰ و طہارت،دینداری و اخلاص کا بچوں پر خوب اثر پڑتا ہے۔
‘مختصر سوانح تاریخ دارالعلوم دیوبند’ نامی کتاب کے مطابق :آپ کا وطن ‘وستان’ضلع سورت ہے۔آپ کی ولادت یکم جون 1950ء کوہوئی ۔آپ کے والد کا نام حاجی محمد اسماعیل ہے۔آپ کی ابتدائی تعلیم کوساری کے مدرسہ قوة الاسلام میں ہوئی،بعد ازاں 1964ء میں اعلیٰ تعلیم کےلیے دارالعلوم فلاح دارین ترکیسر میں داخلہ لیا اور مفتی احمد میمات،مولانا ذوالفقار قاسمی اور مولانا عبداللہ کاپودروی وغیرہ حضرات علماء کرام سے کسب فیض کیا،پھر 1972ء میں مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور تشریف لے گئے اور شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد یونس جون پوری رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ اساتذہ فن سے دورہ حدیث کی تکمیل کی۔
حضرت مولانا وستانوی نے اپنی تدریسی زندگی کا آغاز ضلع سورت کے قصبہ ادھانا سے کیا۔بعد میں کچھ دنوں تک دارالعلوم کنتھاریہ سے بھی منسلک رہے۔آخر میں پس ماندہ علاقہ اکل کوا ضلع نندوبار میں ‘مدرسہ اشاعت العلوم ‘قائم ،جو -ماشاءاللہ- ترقیات کے آخری منازل کو پہنچ چکا ہے۔
یقینا آپ کے نمایاں اور عظیم کارنامے تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھے جائیں گے اور آپ کی خدمات کو قوم کبھی فراموش نہیں کرپائےگی۔
مولانا کے انتقال کے اس اندوہناک گھڑی میں خاص کر حضرت کے صاحب زادگان: مولانا محمد حذیفہ وستانوی اور مولانا محمد اویس وستانوی کو خدا وند قدوس صبرِ جمیل عطا فرمائے اور والد محترم کی جملہ ذمے داریوں کوخوب قوت و توانائی کے ساتھ اٹھانے والا بنائے آمین ۔
Comments are closed.