نیوزی لینڈ : 16 سال سے کم عمر بچوں پر سوشل میڈیا پابندی کی تجویز، وزیراعظم نے کیا حمایت کا اعلان

بصیرت نیوزڈیسک
نیوزی لینڈ کی پارلیمان میں ایک متنازع لیکن اہم تجویز سامنے آئی ہے جس کے مطابق 16 سال سے کم عمر بچوں کو سوشل میڈیا استعمال کرنے سے روکا جائے گا۔ یہ تجویز نیوزی لینڈ نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والی رکن پارلیمان کیتھرین ویڈ نے پیش کی ہے، جنہوں نے ایک رکن بل (ممبرز بل) کے ذریعے اس معاملے کو پارلیمان میں اٹھایا۔
کیتھرین ویڈ کے مطابق، اس بل کا مقصد کم عمر بچوں کو سائبر دھونس، نامناسب مواد اور سوشل میڈیا کے نشے جیسے خطرات سے بچانا ہے۔ انہوں نے کہا، "میرا سوشل میڈیا ایج-اپروپریئیٹ یوزر بل دراصل بچوں کو ان ڈیجیٹل خطرات سے محفوظ رکھنے کی کوشش ہے جن کا وہ روزانہ سامنا کرتے ہیں۔”
اس قانون کے مطابق، سوشل میڈیا کمپنیوں پر یہ ذمہ داری عائد کی جائے گی کہ وہ صارفین کی عمر کی تصدیق کریں اور 16 سال سے کم عمر افراد کو پلیٹ فارم استعمال کرنے سے روکیں۔ اگر کمپنیاں ان ہدایات پر عمل نہیں کرتیں تو ان پر بھاری جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے۔
ریڈیو نیوزی لینڈ کے مطابق، وزیراعظم کرسٹوفر لکسن نے نہ صرف اس تجویز کی حمایت کی ہے بلکہ اسے حکومتی بل کے طور پر منظور کرنے کی تیاری کا اعلان بھی کیا ہے۔ لکسن کا کہنا تھا، "یہ صرف سیاسی مسئلہ نہیں، بلکہ ایک قومی مسئلہ ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس معاملے پر تمام سیاسی جماعتیں ایک صفحے پر ہوں۔”
نیوزی لینڈ کا یہ مجوزہ قانون آسٹریلیا میں نافذ سخت ڈیجیٹل پلیٹ فارم قواعد کی طرز پر تیار کیا گیا ہے۔ آسٹریلیا نے نومبر 2024 میں پہلا ایسا قانون سینیٹ سے منظور کیا تھا، جس کے تحت 16 سال سے کم عمر بچوں کے سوشل میڈیا استعمال پر پابندی لگائی گئی تھی۔ اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والی کمپنیوں پر لاکھوں ڈالر کا جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے۔
آسٹریلیا کے قانون میں واضح کیا گیا ہے کہ عمر کی حد لاگو کرنے کی ذمہ داری بچوں، والدین یا سرپرستوں کی نہیں بلکہ سوشل میڈیا کمپنیوں کی ہے۔ اگر کمپنیاں بار بار اس میں ناکام رہیں تو ان پر 50 ملین آسٹریلین ڈالر (تقریباً 32.5 ملین امریکی ڈالر) تک کا جرمانہ ہو سکتا ہے۔
نیوزی لینڈ میں اگر یہ بل منظور ہو جاتا ہے تو بعض پلیٹ فارموں کو باضابطہ طور پر عمر کی حد کے تحت محدود کیا جا سکے گا، اور اس قانون کے نفاذ کے تین سال بعد اس کے اثرات کا جائزہ بھی لیا جائے گا۔
Comments are closed.