روسی صدر پوٹن نے یوکرین سے براہ راست مذاکرات کی تجویز پیش کی

 

بصیرت نیوزڈیسک

یوکرینی دارالحکومت کییف سے اتوار 11 مئی کی صبح ملنے والی رپورٹوں کے مطابق روسی صدر نے اپنے طور پر یہ تجویز تو پیش کر دی کہ ماسکو آئندہ دنوں میں کییف کے ساتھ مسلح تنازعے کے خاتمے کے لیے مکالمت پر تیار ہے۔ مگر صدر پوٹن نے 30 روزہ جنگ بندی کی اس تجویز پر کوئی ردعمل ظاہر نہ کیا، جو ان کے اس تازہ بیان سے چند ہی گھنٹے پہلے یوکرین کے یورپی اتحادی ممالک کی طرف سے پیش کی گئی تھی اور جسے امریکہ کی حمایت بھی حاصل ہے۔

 

روسی صدر پوٹن نے اتوار کی صبح کریملن میں ایک بیان دیتے ہوئے یہ تجویز دی کہ ماسکو اور کییف کے مابین براہ راست مذاکرات 15 مئی یعنی آئندہ ہفتے جمعرات کے روز ترکی کے شہر استنبول میں ہو سکتے ہیں۔

صدر پوٹن کے الفاظ میں، ”ہم کییف میں حکام کو یہ تجویز دیتے ہیں کہ وہ وہی بات چیت دوبارہ شروع کر سکتے ہیں، جو انہوں نے 2022ء میں منقطع کر دی تھی۔ اور میں ساتھ ہی زور دے کر کہتا ہوں کہ یہ بات چیت کسی بھی طرح کی پیشگی شرائط کے بغیر کی جا سکتی ہے۔‘‘

قبل ازیں یوکرین کے اتحادی یورپی ممالک فرانس، جرمنی، برطانیہ اور پولینڈ کے رہنماؤں نے ہفتہ 10 مئی کی رات یہ تجویز دی تھی کہ روسی یوکرینی جنگ میں پیر 12 مئی سے ایک ایسی 30 روزہ فائر بندی شروع کی جائے، جو قطعی طور پر کسی بھی ہیشگی شرائط کے بغیر ہو۔

 

لیکن روسی صدر نے اتوار کی صبح کریملن میں اپنے بیان میں جنگ بندی کی اس تازہ ترین یورپی تجویز کے بارے میں کچھ بھی نہ کہا۔

روس اور یوکرین کے مذاکراتی نمائندوں نے پچھلی مرتبہ استنبول میں آپس میں مذاکرات 2022ء میں اس وقت کیے تھے، جب دونوں کے مابین جنگ شروع ہوئے ابھی چند ہفتے ہی ہوئے تھے۔

 

ان مذاکرات میں جنگی فریقین آپس میں کسی بھی اتفاق رائے تک پہنچنے میں ناکام رہے تھے اور اس ناکامی کے بعد سے ماسکو اور کییف ایک دوسرے کے خلاف آج تک جنگ میں مصروف ہیں۔

اس پس منظر میں روسی صدر پوٹن نے اتوار کی صبح ماسکو میں کہا، ”ہماری تجویز ہے کہ کسی بھی تاخیر کے بغیر یہ مکالمت 15 مئی کو استنبول میں شروع کر دی جائے۔‘‘

 

ساتھ ہی انہوں نے مزید کہا کہ وہ جلد ہی ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے ساتھ بھی بات کریں گے کہ وہ ان مذاکرات کے انعقاد اور تکمیل میں مدد کریں۔

روسی صدر پوٹن نے 11 مئی کی صبح کریملن میں اپنے جس خطاب میں یہ باتیں کیں، اس کے حاضرین میں نیوز ایجنسی اے ایف پی کے نامہ نگار بھی موجود تھے۔

 

روسی صدر نے کہا، ”ہم اس بات کو خارج از امکان قرار نہیں دیتے کہ (استنبول میں ہونے والی) اس بات چیت کے دوران ہم کسی نئے فائر بندی معاہدے تک بھی پہنچ سکتے ہیں۔‘‘

 

اپنے اسی خطاب میں صدر پوٹن نے یوکرین اور اس کے اتحادی مغربی ممالک پر یہ الزام بھی لگایا کہ وہ ”روس کے ساتھ جنگ جاری رکھنا‘‘ چاہتے ہیں۔

 

اس موقع پر روسی صدر نے اس بات کی مذمت کی کہ ان کے بقول یورپی ممالک ”الٹی میٹم جاری کرتے‘‘ اور ”روس مخالف بیان بازی‘‘ کرتے رہتے ہیں۔

Comments are closed.