کس کو بتاؤں حال دل بے قرار کا!!
( افسانہ)

تحریر ۔۔۔۔۔۔۔ جاوید بھارتی
زندگی کی راہوں میں رنج وغم کے میلے ہیں ، بھیڑ ہے قیامت کی پھر بھی ہم اکیلے ہیں، سازشیں زمانے کی کام کرگئیں آخر ، پہلے بھی تنہا تھے آج بھی اکیلے ہیں ، آئینے کے سو ٹکڑے کرکے ہم نے دیکھا ہے ، ایک میں بھی تنہا تھے سو میں بھی اکیلے ہیں ،،
قارئین کرام کوشش یہی ہوگی کہ تحریر میں کسی کی زندگی کے حالات کی جھلک آجاۓ کسی غم جہاں سے نڈھال اور سراپا درد و ملال انسان کی زندگی میں کچھ تسلی آمیز لمحات کا احساس ہوجائے تاکہ اسے جینے کا حوصلہ ملے پھر وہ کہہ سکے کہ ٹھوکر نہ یوں لگا مجھے پتھر نہیں ہُوں میں ،، بس غم کے گھر میں قید ہوں بے گھر نہیں ہوں میں ،، مگر ہاں تسلی میں اداکاری نہیں ، جذبات سے کھلواڑ نہیں ، کسی کی غربت کا مذاق نہیں ، کسی کی مجبوریوں کا ناجائز فائدہ نہیں اب ضروری ہے کہ ایسے مضامین کو تحریر کرنے کے لئے کچھ خاکہ تیار کیا جائے یعنی زید و بکر جیسے الفاظ سے کسی کا نام دیا جائے،، اب سچ میں کسی کا نام زید و بکر ہو تو ان سے معذرت کیونکہ یہ ایک اتفاقیہ ہے وہ ہرگز اپنے کو نہ سمجھیں۔
ایک بار پھر اس بات کا ذکر کرنا مناسب معلوم ہوتاہے کہ دنیا ہزاروں رنگ بدلتی ہے اور دنیا کے لوگ بھی اکثر و بیشتر رنگ بدلتے ہیں ،، کسی کا حال پوچھتے ہیں تو پوچھنے کے انداز سے تھرمامیٹر کی جھلک آتی ہے کہ کیا حال ہے ، کیا کرتے ہو ،، انداز سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ سامنے والا سوال کررہا ہے کہ کتنا کماتے ہو ، کتنا بینک بیلنس ہے اور پھر اسی اعتبار سے اسے عزت بھی دی جاتی ہے اب بتائیے حال چال دریافت کرنا تھرمامیٹر ثابت ہوا کہ نہیں کل ملاکر دیکھا جائے تو کل تک دنیا گول تھی اور آج دنیا مطلب پرست ہے اور دنیا کے لوگ مطلب پرست ہیں ۔
دنیا میں کچھ لوگ مالی اعتبار سے کمزور ہوتے ہیں لیکن سماج میں کچھ ایسی پہچان ہوتی ہے کہ بعض اوقات بڑی مشکل کا سامنا ہوتاہے خود معاشرے میں مختلف تقاریب کا اہتمام ہوتاہے تو اس موقع پر جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے یوں تو زید کی پیدائش 1970 میں ہوئی بچپن کے حالات پر تو روشنی ڈالنے کا کوئی مطلب نہیں لیکن جیسے ہی ہوش سنبھالا تو مشکلات نے ایسے گھیرا کہ کہاوت ہے کہ ایک ایک مصیبت نو نو ہاتھ کی،، غرضیکہ پورا گھر ایک طرف اور زید تنہا وہ طالب علمی کا زمانہ تھا مدرسے کے بچوں کا ساتھ تھا کچھ وجوہات کی بنیاد پر اختلافات کے باعث قدم قدم پر مشکلات پیدا ہوتی رہیں آخر کار ایک سال دوسرے شہر بھی رہنا پڑا۔
زید کی شادی ہوئی اب امید تھی کہ زندگی اچھی طرح بسر ہوگی مگر شائد قسمت میں ٹھوکر ہی لکھی تھی یعنی شادی کے بعد چاکی کے دو پاٹوں کے درمیان پسنے والی بات رہی گھر کی چہار دیواری میں زید اور اس کی بیوی ساتھ رہے باقی سارے لوگ مخالف رہے وہ دن بھی آیا کہ گھر سے نکلنا پڑا ڈیڑھ سال تک دوسرے کے گھر میں رہنا پڑا۔
یقیناً والدین بہت بڑی نعمت ہوتے ہیں زید کو اس سے انکار نہیں مگر ہاں زید یہ بھی کہتا ہے کہ والدین کی فضیلت بیان کرنا بہت آسان ہے مگر والدین کی طرف سے بھی جب الگ الگ نظروں سے دیکھنے کی بات ہوتی ہے تو جس کے سر پر پڑتی ہے وہی جانتا ہے کہ کیا گزرتی ہے زید کی عمر بچپن سے تقریباََ پچپن ہوگئی لیکن آج بھی غم جہاں سے نڈھال والا حال ہے اور سراپا درد و ملال والا حال ہے کسی کی آسرا نہیں کوئی سہارا نہیں اور تو اور بیٹا بھی نہیں جو زید کا ہاتھ پکڑ کر سہارا دے بس ہاتھ بھی زید کا، لاٹھی بھی زید کی ، خود چلنا ہے اور خود لڑکھڑانا ہے خود گرنا ہے اور خود ہی سنبھلنا ہے ۔
زید اکثر و بیشتر تنہائی میں بیٹھ کر گنگناتا ہے کہ ملے کاش کوئی ایسا صاحب غم، فسانہ غم جسے میں سناکے روؤں وہ مجھے سناکے روئے،،
بیٹے کا نہ ہونا ترقی کی راہ میں بڑی روکاوٹ ہے ،، زید کے بہت قریبی لوگوں نے بھی کبھی ساتھ نہیں دیا ہمیشہ دشمنی پر آمادہ رہے اور دلوں کو چھید دینے والے الزامات تک لگاتے رہے ،، زید اپنی صفائی میں یہی کہتا ہے کہ اس کا فیصلہ اللہ کرے گا اور مجھے اس بات کا یقین ہے کہ دلوں کو دکھانے والے اور جھوٹے الزامات لگانے والوں کی ہٹ دھرمی پر غمزدہ شخص صبر کرلے گا اور معاملہ اللہ پر چھوڑدے گا تو ان جھوٹے لوگوں کے لئے ایک دن بہت بڑا مسلہ بن جائے گا اور اللہ کے وہاں سے ضرور انصاف ہوگا کیونکہ وہ بہترین انصاف کرنے والا ہے۔
زید حالات سے پریشان ہوکر 1988 میں مہاراشٹر کے شہر بھیونڈی میں بھی کئی مہینے رہا غریبی نے بھی پیچھا پکڑے رکھا غریبی سے شکوہ نہیں مگر غریبوں کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے اس سے ضرور شکوہ ہے جہاں تک افسوس کی بات ہے تو زید کا کہنا ہے کہ بیٹے کا نہ ہونا افسوس کی بات ہے اور بیٹیوں کے بھائی کا نہ ہونا اس سے بھی زیادہ افسوس کی بات ہے،، زید نے 2011 سے 2016 تک سعودی عرب میں زندگی گزاری محنت مزدوری کی وہاں پر بھی مختلف ممالک کے لوگوں کا ساتھ ملا لیکن پردیس تو پردیس ہی ہوتا ہے خلاصہ یہ ہے کہ بچپن سے تقریباََ پچپن سالہ زندگی میں پھول کم کانٹے زیادہ ملے
اسی وجہ سے تنہائی میں زید اکثر کہتا رہتا کہ میرے ہم نفس میرے ہمنوا مجھے دوست بن کر دغا نہ دے، یہ دی ہے آگ جو تم نے مجھے کہیں میرا دامن جلا نہ دے،
تسلی آمیز کلمات خوب کہے جاتے ہیں کہ زندگی سے ہار نہیں ماننا چاہئے لیکن یہ بات لو کے تھپیڑے کھاتے ہوئے پتھر توڑنے والا شخص نہیں کہتا، محبت میں ناکام ہونے والا شخص نہیں کہتا، جس مزدور کی دہاڑی ٹوٹ جائے وہ نہیں کہتا ،، بیرون ملک سکالے پر بیلٹ لگاکر لٹکنے واالا نہیں کہتا، سر پر اینٹ ، ہاتھوں میں چھالے، کاندھے سے لٹکی ہوئی جھولی بچہ ، پیشانی سے پاؤں کی ایڑی تک بہاتے ہوئے پسینہ کبھی نہیں کہتا کہ غریبی سے گھبرانا نہیں چاہئے ، بلکہ لگژری گاڑیوں سے آنے والا ، مریدوں کے جھرمٹ میں رہنے والا ، ایر کنڈیشن روم میں بیٹھنے والا ہی کہتاہے کہ غریبی سے گھبرانا نہیں چاہئے ،، یہ دنیا ہے ایک بھائی بادشاہ تو دوسرا بھائی فقیر بھی ہوا ہے ، ایک بھائی مخمل کی سیز پر سوتا ہے تو دوسرا بھائی فٹپاتھ پہ اخبار بچھاکر بھی سوتا ہے ، ایک بھائی لاؤ لشکر کے ساتھ چلتا ہے تو دوسرا بھائی غربت کی چادر اوڑھ کر بھی چلتا ہے
زید کو 2008 میں ایک ایسا ساتھ ملا جس سے کچھ حوصلہ افزائی ہوئی اور دونوں نے ایک دوسرے کی بہت عزت کی اور آج بھی کرتے ہیں زید روزانہ اس کے حق میں اللہ سے دعائیں کرتا ہے اور زید کے جیتے جی اس کے حق میں کئی دعائیں قبول بھی ہوئی ہیں زید اپنے اس عزیز و محبوب کو ہر موقع پر یاد رکھتا ہے اللہ سے اپنے لئے جو مانگتا ہے وہ اس کے لئے بھی مانگتا ہے خود زید کہتاہے کہ دنیا کو اپنے محبوب سے گلے مل کر جتنی خوشی ہوتی ہے اس سے بھی بہت زیادہ مجھے صرف اس کا تصور میں خیال آجانے سے خوشی ہوتی ہے،، زید نے عمرہ کیا تو اس کے لئے بھی عمرہ کی دعا کی ، خانہ کعبہ کا طواف کیا تو اس کی جانب سے بھی کیا اور اس کے طواف کے لئے رب العالمین سے دعا کی سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے آستانہ مقدس پر حاضری کے وقت اس کی جانب سے بھی خصوصی سلام پیش کیا اور اللہ سے اس کی حاضری کے لئے دعائیں بھی کی اور پانچ سال بعد اسے بھی وہ سب کچھ کرنے کی اللہ کی طرف سے سعادت حاصل ہوئی اور اسی بنیاد پر زید کہتا ہے کہ میری جیتے جی میری دعا قبول ہوئی لاکھ غربت اور رنج وغم کے ساتھ یہ میری بہت بڑی خوش قسمتی ہے،،
زید کا کہنا ہے کہ محبت میں اداکاری نہیں وفاداری ضروری ہے ، یاد رکھیں کلیجہ چوٹ کھانے کو اگر مائل نہیں ہوتا، سرور و کیف ہرگز عشق میں شامل نہیں ہوتا ، محبت میں کبھی ان کو سکوں حاصل نہیں ہوتا ، کہ جن کے آنسوؤں میں خون دل شامل نہیں ہوتا، ضروری ہے کہ ایک شخص آپ کی عزت کررہے ہے تو آپ بھی اس کی عزت کریں ، کوئی شخص آپ کی قدر کرے تو آپ بھی اس کی قدر کریں ،، ایک شخص دوسرے کو بے وقوف نہ سمجھے ورنہ دل ٹوٹے کا خطرہ لاحق ہوسکتا ہے اسی لئے کہنے والوں نے بھائی کو سونا کہا ہے تو دوست کو ہیرا کہا ہے مطلب سونا جوڑا جاسکتا ہے لیکن ہیرا ٹوٹ گیا تو ٹوٹ گیا آخر میں یہ بھی جان لیں کہ انسانوں کے لئے اللہ کی طرف سے جہاں بے شمار نعمتیں تو انہیں نعمتوں میں سے سچا دوست بھی اللہ کی طرف سے ایک نعمت ہے اور نعمتوں کی قدر کرنا ضروری ہے ،، اس لئے آپ کسی کو تسلی دے کر ، اس بے پناہ محبت کرکے ، اونچے اونچے خواب دکھا کرکے، جینے مرنے کی قسم کھا کرکے اسے زندگی میں اکیلا مت چھوڑنا ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ خاموشی سے اس کا رونا بربادی کا باعث بن جائے اس لئے دوستی میں دغا کے لئے کوئی جگہ نہ رکھیں اور دل بدگمانی سے پاک رکھیں کیونکہ بدگمانی اس دیمک کی طرح ہے جو جس لکڑی میں ہوتاہے اسی کو کھوکھلا کردیتا ہے.
Comments are closed.