رسوم کی زنجیروں میں جکڑا نکاح: نکاح یا نمائش؟

 

تحریر: آمنہ یٰسین ملک

(بدریون، پلوامہ، کشمیر)

 

اسلام نے نکاح کو عبادت بنایا، ہم نے اسے کاروبار بنا دیا۔اسلام نے سادگی کو زینت کہا، ہم نے نمائش کو معیار سمجھ لیا۔ اسلام نے اسے محبت، راحت اور سکون کا ذریعہ بتایا، ہم نے اسے دکھاوا، مقابلہ اور بوجھ میں بدل دیا۔

آج کے دور کا نکاح صرف نکاح نہیں رہا، بلکہ ایک فیشن ایونٹ، سوشل میڈیا شو اور معاشرتی سٹیٹس کا امتحان بن چکا ہے۔ سنتوں کو پسِ پشت ڈال کر، رسم و رواج کو مرکز بنا لیا گیا ہے۔ آئیے ذرا ٹھنڈے دل سے جائزہ لیتے ہیں کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔

(۱) منگنی: وعدہ یا اعلانِ جنگ؟

اسلام میں منگنی صرف ایک وعدہ ہے، مگر ہمارے ہاں یہ پہلا میدانِ جنگ بن چکا ہے۔

قیمتی تحائف، تصویروں کی نمائش، مہنگے لباس، اور مہمانوں کی فوج۔ یہ سب اس رشتے کو بوجھ بنا دیتے ہیں جسے اللہ نے محبت کی بنیاد پر قائم کرنے کا حکم دیا۔

(۲) مہندی: خوشی یا بے حیائی؟

مہندی، جو کہ سنت کے طور پر ہاتھوں میں لگائی جاتی تھی،

آج ڈی جی، ڈھولک، ناچ، موسیقی، اور فحاشی کا مرکز بن چکی ہے۔

یہ تقریب اب لڑکی کی حیا کی آخری سانس لیتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ (۳) جہیز: محبت یا مطالبہ؟

جہیز کو ماں باپ کی محبت کا نام دیا گیا، معاشرے نے اسے ضروری تحفہ، شرط، اور معیار بنا دیا۔ آج لڑکی کو لایا نہیں جاتا، خریدا جاتا ہے۔ اور ظلم یہاں ختم نہیں ہوتا۔۔۔ جب بیٹیاں واپس سسرال جاتی ہیں تو سسرال والوں کی نظریں پوچھتی ہیں: کیا روٹیاں لائی ہو؟ مرغے، انڈے، مٹھائی ساتھ ہیں؟ امّی نے کچھ نیا دیا یا وہی پرانے برتن؟ دعوت پر کچھ لائی یا خالی ہاتھ آئی ہو؟

اگر کچھ نہ ہو، تو طعنے، طنز اور نظریں دل توڑ کر رکھ دیتی ہیں۔

ماں، بہنوں کو کنجوس اور غریب کہا جاتا ہے، جیسے عزت سامان سے تولی جاتی ہے، تقویٰ سے نہیں۔

(۴) بری، ماک، اور دعوتوں کی دوڑ: ’’بری‘‘ یعنی دلہے کو دی جانے والی اشیاء۔ نہ دین میں اس کا ذکر، نہ عقل اس کو تسلیم کرے، مگر ہم اسے عزت کا تقاضا سمجھ بیٹھے ہیں۔

ماک کی دعوتیں: جہاں مہمانوں کو دو دو تین تین بار بلایا جاتا ہے، صرف تعلقات کی نمائش، نہ کوئی روحانی فائدہ، نہ معاشرتی برکت۔

(۵) نکاح کا دن: سنت یا سٹیج شو؟

نکاح کی تقریب سنت کا اعلان ہونا چاہیے تھا، مگر آج یہ کیمروں، لائٹوں، سٹیج اور سیلفیوں کا میدان ہے۔ دولہا اور دلہن کو اتنا سجا دیا جاتا ہے کہ پہچان مشکل ہو جائے، اور دعوت اتنی مہنگی کہ بیٹی کے بعد والدین بھی قرض میں ڈوب جائیں۔

(۶) ولیمہ: شکر یا شان و شوکت؟

ولیمہ سنت ہے، مگر اب یہ شادی کا سب سے بڑا تماشا بن چکا ہے۔ کھانوں کی فہرست میں قورمہ، پلاو، زردہ، آئسکریم، کولڈرنکس، اور نہ جانے کیا کیا ہوتا ہے۔ مگر روحانی برکت؟ وہ کہیں گم ہو چکی ہے۔

قرآن کا پیغام: سادگی میں برکت ہے:

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’وَلا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا، إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ۔‘‘

(سورۃ الإسراء: 26–27)

’’فضول خرچی نہ کرو، بے شک فضول خرچ لوگ شیطان کے بھائی ہیں۔‘‘

آئیے! ایک اہم قدم اٹھائیے۔۔۔ نکاح کو پھر سے عبادت بنائیں۔ ہم نے سنتوں کو فراموش کیا، اور کلچر کو دین سمجھ بیٹھے۔ اگر واقعی اپنی بیٹیوں کو عزت دینا چاہتے ہیں،تو ان کے ہاتھ میں ایمان، محبت اور سکون دیجئے۔ نہ کہ انڈوں، مرغوں، روٹیوں اور بری کی فہرست۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم نکاح کو نمائش سے نکال کر عبادت بنائیں، ورنہ ہمارے گھروں سے برکت، محبت، اور وفا ہمیشہ کے لیے رخصت ہو جائے گی۔

 

Comments are closed.