Baseerat Online News Portal

دیش کے موجودہ حالات اور شہیدِاعظم بھگت سنگھ کی شخصیت

شہیداعظم بھگت سنگھ کی یومِ شہادت 23مارچ کے ضمن میں ایک خصوصی پیشکش۔

محمد عباس دھالیوال
مالیر کوٹلہ ،پنجاب
ہندوستان کی جدو جہدآزادی کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے والے شہداء کی جب بات چلتی ہے تو اس میں ایک نام خود بہخود جو روزِروشن کی طرح ابھر کر ہمارے سامنے آتا ہے وہ نام ہے ـ’’ شہید اعظم بھگت سنگھ ـــــ‘‘ کا۔
بھگت سنگھ جنکا جنم مورخہ ۲۸ ستمبر ۱۹۰۷ کو گائوں بنگا، چک نمبر ۱۰۵، ضلع لائیلپور موجودہ پاکستان میں ہوا۔ انکے والدکا نام سردارکرشن سنگھ اور والدہ ودیا وتی تھا ۔ بھگت سنگھ کے پریوار کا پوشتینی گائوں کھٹکڑ کلاں مشرقی پنجاب میں ضلع نواں شہر میں واقع ہے۔
بھگت سنگھ نے جب آنکھ کھولی توہندوستان میں انگریزوں کے خلاف ایک سنگھرش چل رہاتھا۔جلیانوالہ والے باغ کاخونی سانحہ،کرتار سنگھ سرابھا کو ا نگریزوں کی طرف سے پھانسی پہ لگایا جانا ،ایسے دل سوز و اقعات تھے جنھوں نے بچپن میں ہی بھگت سنگھ کی زندگی پر گہرے زخم اور کبھی نہ مٹنے والے نقوش چھوڑے ۔
بھگت سنگھ کے چچا سردار اجیت سنگھ اپنے وقت کے ایک عظیم مجاہدین آزادی تھے۔اس طرح وطن کی محبت اور ملک کے لیے کچھ کر گزرنے کا جزبہ بھگت سنگھ کو وراثت میں ہی ملا۔اسی طرح جب گاندھی جی نے سول نافرمانی تحریک چلائی تو بھگت سنگھ نے اپنے طالب علمی کے زمانہ اس تحریک خود بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔اس طرح مزکورہ ہندوستان کے نشیب و فراز والے حالات نے بھگت سنگھ کو پوری وطن کی محبت کے رنگ میں شرابور کر دیا۔
۱۹۲۱ میںاسکول کی تعلیم مکمل کر لینے کے بعد بھگت سنگھ نے نیشنل کا لج لاہور میں داخلہ لیا۔اسی بیچ گھر والوں نے اس کو شادی کر لیئے جب زور دیا تو اپنی بی۔ اے ۔ کی پڑھائی ادھوری چھوڑ کر اور کالج کو الودع کہہ لاہور کو چھوڑ کر کانپور چلے آئے۔اصل میں وہ شادی نہیں کرنا چاہتے تھے وہ صرف اور صرف اپنے وطن عزیز ہندوستان کو انگریزوں کے چنگل سے آزاد کروانا چاہتے تھے۔
یہاں کانپور میں آپ نے انقلابی تحریک سے وابستہ لوگوں کی مدد سے پرتاپ پریس میں ملازمت کی ، یہیں پر بڑے مجاہدین آزادی کے ساتھ مل کر ہندوستان ریپبلکن ایسوسیشن میں شامل ہوگئے جو کہ بعد میں سوشلسٹ ریپبلکن ایسوسیشن کے نام سے جانی جانے لگی۔اسکے بعد پھر آپ واپس لا ہور آگئے ۔
انگریزوں کی طرف بھگت سنگھ کی سرگرمیوں پر خاص نظر رکھی جا رہی تھی۔۱۹۲۷ میں لاہور میں دسہرہ بم کیس میں انہیں گرفتار کیا گیااور شاہی قلع لاہور میںرکھے گئے ضمانت کے بعد ہندوستان کی آزادی کیلئے نوجوان بھارت سبھا کا قیام عمل میں لائے اور پھر انقلاب پسندوں میںشامل ہوگئے۔۸،اپریل ۱۹۲۸ کو نئی دہلی میں عین اس وقت جب مرکزی اسمبلی کا اجلاس ہو رہا تھا بھگت سنگھ اور بی کے دت نے اسمبلی ہال میں دھماکہ کی آواز پیدا کرنے والا بم پھینکا تانکہ گونگی بہری فرنگی حکومت کے کانوں تک اپنی ا ٓواز پہنچائی جاسکے،اس دھماکہ کے بعد دونوں گرفتار کر لیئے گئے عدالت نے عمر قید کی سزا دی ۔
۱۹۲۸ میںسائمن کمیشن کی آمدپر لاہور ریلویاسٹیشن پر زبردست احتجاجی مظاہرہ ہوا۔پولیس نے لاٹھی چارج کیا جس میں لالہ لاجپت رائے زخمی ہو ئے اور دل کا دورہ پڑنے سے اس آنجہانی دنیا کو الودع کہہ گئے۔ چنانچہ بھگت سنگھ نے اپنے انقلابی ساتھیوں سمیت لالہ لاجپت رائے کی موت کا بدلہ لینے کی قسم کھائی ۔ایک دن مسٹر سانڈرس اے۔ایس ۔پی اپنی موٹر سائیکل پر سواردفتر سے نکلے تو راج گرو اور بھگت سنگھ وغیرہ نے ان کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔اسکے بعد حکومت نے ایک رات تمام انقلاب پسندوں کو گرفتار کر لیا او لاہور کی سینٹرل جیل کے ایک کمرہ میں ان پر مقدمہ چلایا گیا۔بھگت سنگھ اور بی کے دت اس سے پہلے اسمبلی بم کیس میں بھی سزا پاچکے تھے ۔ملزمان کی طرف سے لالہ امر داس وکیل تھے ۔مقدمہ تین سال چلاآخر ۷ ، اکتوبر ۱۹۳۰ کو ٹربیونل کا فیصلہ جیل میں پہنچا اس فیصلہ میں بھگت سنگھ ،سکھدیو ،اور راجگرو کو پھانسی، جبکہ کمل ناتھ ،شو ورما، گیا پرساد، جئے دیو کپور، کشوری لال اور مہاں ویر کو عمر قید، جبکہ کندن لال، کو سات سال اور پریم دت کو تین سال کی سزا قید بامشقت سنائی گئی۔
پھانسی سے پہلے بھگت سنگھ نے اپنے دوست شو شرما کو یہ الفاظ کہے؛ـــــ’ـ’جب میں نے انقلاب کے راستے پر قدم بڑھایا،میں نے سوچا کہ اگر میں اپنی نچھاور کر ، ’انقلاب زندہ باد ، کانعرہ وطن کے کونے کونے میں پہنچاسکا تو میں سمجھونگا کہ میری زندگی کی قیمت پڑ گئی ۔آج جب میں پھانسی کی سزا کیلئے جیل کوٹھری کی سلاکھوں کے پیچھے ہوں،میں اپنے دیش کے کروڑوں لوگوں کی گرجتی ہوئی ا ٓواز میں نعرے سن سکتا ہوں۔۔۔ایک معمولی سی زندگی کی اس سے بڑی کیا قیمت پڑ سکتی ہیــ‘‘!!
بھگت سنگھ کو اردو، پنجابی اور ہندی کے علاوہ انگریزی زبا ن بھی آتی تھی اس ساتھ ہی انھوں نے اپنے دوست بی ۔کے دت سے بنگلہ بھاشا بھی سیکھی تھی ۔بھگت سنگھ کی اردو قابل تعریف تھی ۔اس کا احساس ہمیں ان کے مختلف موقعوں پر کہے گئے اشعار سے ہو جاتا ہے ۔بھگت سنگھ نے اپنی پھانسی سے قبل۳ ،مارچ کو اپنے بھائی کلتار کو ایک خط لکھا جس کو پڑھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ بھگت سنگھ ایک سچے دیش بھگتی کا جزبہ رکھنے کے ساتھ ساتھ بہت اچھے شاعر بھی تھے ان کے اس خط کا اقتباس قارئین ا ٓپ بھی دیکھیں۔
’’اسے یہ فکر ہے کہ ہر دم طرز وفا کیا ہے
ہمیںیہ شک ہے دیکھیںستم کی انتہا کیا ہے

دہر(دنیا)سے کیوں خفا رہیں،چرخ(آسمان) سے کیوں گلہ کریں
سارا جہاں عدو سہی ، آئو مقابلہ کریں۔۔۔‘‘
۲۳مارچ۱۹۳۱ کو شام قریب سات بجکر ۳۳ منٹ پر بھگت سنگھ اورانکے دو ساتھیوں راج گورو اور سکھدیو کو پھانسی دے دی گئی۔
جبکہ پھانسی کے وقت ان کے لبوں پہ یہی نغمہ تھا کہ۔۔
دلوں سے نکلے گی نہیں ،مر کے بھی وطن کی الفت
میری مٹی سے بھی خوشبوئے وطن آئے گی۔۔۔
آج ضرورت ہے کہ ہم اپنی نوجوان پیڑھی کو بھگت سنگھ جیسے کہ عظیم سپوتوں کی زندگی کے متعلق زیادہ سے زیادہ معلومات فراہم کروائیں ۔بھگت سنگھ نے جوہندوستان کی آزادی کے لیے لڑائی لڑی وہ کسی خاص دھرم یا فرقہ کے لوگوں کے لیے نہیں لڑی ۔بلکہ ہندو مسلم اور سکھ سبھی دھرموں کے لوگوں کو انگریزی حکومت کے ظلم وتشدد اور غلامی سے آزادی دلانے کے لیے لڑی۔
آج ملک کو جن نازک حالات سے گزر رہاہے جس طرح سے جمہوری نظام کو ختم کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں اور جس طرح سے ملک میں غریب و پچھڑے لوگو ں کو آئے دن ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا جارہاہے اور جس طرح سے پچھلے کچھ سالوں سے ملک میں ماب لنچنگ کے نام پر بھیڑ تنتر مظلوم و نہتے لوگوںکا نہایت سفاقانہ و بر بریت سے قتلِ عام کر رہاہے یقینا جس پر سپریم کورٹ بھی بارہا صوبائی اور مرکزی سرکاروں سے جواب طلبی کر نا پڑی ہے اور ساتھ ہی ایسے دل سوز واقعات پر مختلف سرکاروں کی طرف سے تسلی بخش کاروائی نہ ہوتے دیکھتے ہوئے بارہا اپنی ناراضگی اور برہمگی کا اظہار کیا ہے ان سب حالات کو جب شہید بھگت سنگھ کی روح دیکھتی ہوگی تو یقینا وہ دکھی ہو ہوتی ہوگی اور وہ سوچ رہی ہوگی کہ جس ملک کو آزاد کروا کر از سرِ نو تعمیر کرنے کا جیسا خواب انھوں نے دیکھا تھا ملک کی موجودہ حالت اسکی تعبیر ہرگز ہرگز نہیں ہو سکتی ۔ان سبھی حالات کے پسِ منظر میں ہمارا اہل وطن کا یہ اولین فرض بنتا ہے کہ ہم بھگت سنگھ کی سوچ پہ پہرا دیتے ہوئے ،ہر اس طاقت کو مات دیں جو اپنے مفاد کی خاطر دیش کی صدیوں پرانی گنگا جنمی تہذیب کو تار تار کرنے پہ تلی ہوئی ہیں اوراپنے سیاسی مفاد کی خاطر بکائو قسم کے سا تھ ملکر دیش کو کبھی مذہب کبھی ذات پات اور کبھی فرقوں کے نام پرتقسیم کرنے کی لگاتار کوششیں کررہی ہیں اور اسکے ساتھ ہی ملک کے عوام کا اصل مدعوں سے دھیا ن ہٹانے منصوبہ بند کوششیں ہو رہی ہیں ۔ایسے میں ہم سبھی کا یہ فرض بنتا ہے کہ ہم مذہب، ذات پات اور فرقوں سے اوپر اٹھ کر صرف اور صرف دیش کی ترقی ،بھلائی اور فلاح و بہبود کے لیے کام کریں اور ساتھ ہماری اور ہمارے ملک کے رہنمائو کی آج یہ اوّلین ذمیداری بنتی ہے کہ ہم لوگ اپنی تنگ نظری اور مفادانہ افکار کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دیش میں ایسی خوشگوار اور پر امن فضا والا ماحول قائم کریں جس میں ملک ہر باشندہ سکون کی سانس لیتے ہوئے چین کی زندگی گزار سکے اور ملک کی فلاح و بہبود میں اپنا بنتا یوگدان پاسکے یقینا اگر ہمارے ملک میں پر امن فضا کا قیام ہوگا تو دیش کو آگے بڑھنے سے دنیا کی کوئی قوت نہیں روک سکتی ہم سمجھتے ہیںآج کے حالات میں ملک میں خوشگوار ماحول کا قیام ہم بھارت واسیوں کی جانب سے بھگت سنگھ جیسے عظیم شہداء کو سچی شردھانجلی ہوگی۔
(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.