آپ کے شرعی مسائل

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
سکریٹری آل انڈیامسلم پرسنل لابورڈ
ہر موقع پر درود ابراہیمی
سوال:-مجھے جب بھی درود شریف پڑھنا ہوتا ہے ، تو میں درود ابراہیمی پڑھتا ہوں ، جیسے دعاء سے پہلے ، دعاء کے ختم پر ، مسجد میں جانے سے پہلے ، تو کیا ہر موقع پر درود ابراہیمی پڑھ سکتے ہیں (محمد غفران، نظام آباد )
جواب:- درود ابراہیمی درود کے افضل ترین الفاظ ہیں ، کیونکہ خود رسول اللہ ا نے ہر نماز کے لئے اس درود شریف کا انتخاب فرمایا ہے ، اس لئے جن مواقع پر درود شریف پڑھنے کی فضیلت ہے ، اور حدیث میں ان مواقع کے لئے درود کے کوئی خاص کلمات منقول نہیں ہیں ، وہاں درود ابراہیمی کا پڑھنا افضل ہوگا ، دعاء کی ابتداء اور انتہاء اور مسجد میں داخل اور نکلتے ہوئے مطلق درود پڑھنے کا حکم ہے ، نہ کہ کسی خاص درود کا ، اس لئے آپ ان مواقع پر درود ابراہیمی پڑھ سکتے ہیں ، جن مواقع پر رسول اللہ ا سے درود کے کوئی خاص کلمات منقول ہیں ، ان مواقع پر ان کلمات کو پڑھنا افضل ہوگا ، اور درود ابراہیمی کا پڑھنا درست، جیسے کان بجنے کے موقع پر دعاء منقول ہے : اللہم صل علی محمد ذکر اللہ بخیر من ذکرنی (الاذکار للنووی:۳۹) اسی طرح پیر سن ہونے کے موقع پر صلی اللہ علی محمد ، صلی اللہ علیہ وسلم (حوالۂ سابق) کا کہنا مروی ہے ، تو ان مواقع پر ان ہی کلمات درود کو پڑھنا افضل ہوگا ۔
منی آرڈر کی اجرت
سوال:-تقریبا تمام دیہی علاقوںمیں ڈاکیہ نے یہ اصول بنا ڈالا ہے کہ جب بھی کوئی منی آرڈر آتا ہے تو متعلقہ شخص سے بغیر کچھ رقم لیے روپے کی ڈیلیویری نہیں کرتے ، مسلم ڈاکیہ بھی اس کو صحیح سمجھ کر ایسا کرتے ہیں، گاؤں کے نا خواندہ یا کم نا خواندہ لوگ اسے منی آرڈر فیس سمجھ کر ادا کرتے ہیں ، کیا یہ رقم لینا شرعا جائز ہے ؟ جب کہ اس رقم کو بھیجنے والا اس رقم بھیجنے کی فیس منی آرڈر کرتے وقت ہی ادا کردیتا ہے ۔ ( محمد شاداب، ناندیڑ)
جواب:- منی آرڈر کی اجرت چوں کہ پہلے ہی ادا کردی جاتی ہے اور ڈاکیہ کو حکومت ڈاک رسانی کی خدمت کا معاوضہ ادا کرتی ہے ، اس لیے ڈاکیہ کی طرف سے منی آرڈر پہنچانے پر رقم کا مطالبہ قطعا جائز نہیں ہے ، اور رشوت کے حکم میں ہے ، کم سے کم مسلمان ڈاکیہ کو تو ضرور ہی اس سے بچنا چاہئے کہ حرام ذریعہ سے حاصل ہونے والی آمدنی روحانی اعتبار سے شدید نقصان و خسران کا باعث ہے ۔
نماز کے بعد قرآن مجید کی تلاوت
سوال:- کتاب حصن حصین میں بتلائی گئی چند آیاتِ قرآنی مسجد میں بعد نمازِ فجر اور عصر کی دعاء کے بعد پڑھی جاتی ہیں ، اس کا طریقہ یہ اختیار کیا گیا ہے کہ آیات کا مختصر حصہ امام صاحب پڑھتے ہیں اور مصلی اسے اجتماعی طور پر بہ آواز بلند دہراتے ہیں، اس طرح تمام آیات کی تلاوت ہوتی ہے ، ابتداء ً اس طریقے کو اس غرض سے اختیار کیاگیا تھا ، کہ سب مصلیوں کو یاد ہوجائے اور کئی سال سے یہی طریقہ جاری ہے ، ایک صاحب نے فرمایا کہ سورۂ اعراف کے آخری صفحہ میں حکم ربانی ہے کہ جب قرآن پڑھا جارہا ہو ، تو پوری توجہ سے سنو اور خاموش ہوجاؤ ، اس طرح تمام مصلی کا بیک آواز بلند پڑھنا اس حکم ربانی سے مطابقت نہیں رکھتا ، انہوں نے رائے دی کہ ایک صاحب پڑھیں اور سب خاموشی سے سنیں ، سننے والوں کو زیادہ ثواب ملے گا ، یا بغیر آواز خاموشی سے پڑھ کر ، آیات یاد کرلیں اور الگ الگ انفرادی طور پر پڑھ لیں ، تو مناسب ہے؟ رہنمائی فرمائیں کہ کون سا طریقہ درست اور مناسب رہے گا ؟ ( دانش محبوب، شاہین نگر)
جواب:- چند دنوں تک امام صاحب نے لوگوں کو یاد دلانے کے لیے جو زور سے آیات قرآنی پڑھا ، یہ تو درست تھا ، کیوں کہ اس کا مقصد تعلیم تھا ، لیکن اس کو مستقل معمول بنا لینا مکروہ ہے : یکرہ للقوم أن یقرؤا القرآن جملۃ لتضمنھا ترک الاستماع والأنصات المأمور بھا کذا في القنیۃ (ہندیہ:۵؍۳۱۷) قوم کے لیے یہ بات مکروہ ہے کہ ایک ساتھ قرآن پڑھیں، کیوں کہ سننے اور خاموش رہنے کا حکم ( قرآن مجید میں ) دیا گیا ہے ، اس عمل کی وجہ سے وہ چھوٹ جاتا ہے ؛لہذا صحیح طریقہ یہ ہے کہ الگ الگ اور آہستہ آہستہ پڑھ لیں اور اس عمل کوواجب و لازم خیال نہ کریں۔
واشنگ مشین میں ناپاک کپڑوں کی دھلائی
سوال :- اب ہاتھ سے کپڑے دھونے کا رواج کم ہوتا جارہا ہے ، تقریباً اکثر گھر میں واشنگ مشین کی سہولت مہیا ہو گئی ہے ؛ اسی میں کپڑا دھویا جاتا ہے ؛ اسی میںکپڑا نچوڑ اجاتا ہے اور اسی میں کپڑا خشک بھی کیا جاتا ہے ، اب اگرکسی کپڑے میں نجاست لگی ہوئی ہو ، تو وہ ناپاک ہو جائے گا اور عام طور پر مشین میں ایک ساتھ کئی کپڑے دھوئے جاتے ہیں ، تو دوسرے کپڑے بھی ناپاک ہو جائیں گے ، یہ بڑا اہم مسئلہ ہو گیا ہے اور تقریبا ہر گھر میں لوگ اس مسئلہ سے دوچار ہیں، عورتیں اس باریکی پر غور کیے بغیر ہر طرح کے کپڑے ایک ساتھ ڈال دیتی ہیں ،براہ کرم ضرور اس کی وضاحت کریں ؟(صلاح الدین احمد، سکندرآباد )
جواب :- جس کپڑے میں نجاست لگ جائے تو اس کے پاک کرنے کے سلسلہ میں یہ تفصیل ہے کہ اگر نظر آنے والی نجاست ہو جیسے پائخانہ ، خون تو اسے اس وقت تک دھویا جائے گا، جب تک کہ نجاست کا دور ہونا واضح نہ ہو جائے؛ البتہ اگر کپڑے میں رنگ اس طرح پیوست ہو گیا ہو کہ اس کا صاف کرنا دشوار ہو تو رنگ کے باقی رہ جانے میں کوئی حرج نہیں اور اگر نجاست نظر نہ آتی ہو جیسے پیشاب یا مادہ ٔ منویہ جو خشک ہو گیا ہو تو اسے تین بار دھو یا جائے گا اورنچوڑنا ممکن ہوتو ہر بار نچوڑا بھی جائے گا، نیز تیسری بار میں زیادہ اہتمام سے نچوڑنا چاہیے کہ اس کا اثر بالکل ختم ہو جائے : و ان کانت غیر مرئیۃ یغسلھا ثلاث مرات، ویشترط العصر في کل مرۃ فیما ینعصرو یبالغ فی المرۃ الثالثۃ (ہندیہ:۱۴۲)اس اصول سے یہ بات واضح ہو ئی کہ اگر کپڑے میں نجاست نظر نہ آتی ہو تو اسے تین بار دھونا اور نچوڑنا چاہیے ؛ لہذا بہتر صورت یہ ہے کہ ناپاک کپڑوں کو دوسرے کپڑوں کے ساتھ مشین میں نہ ڈالا جائے ؛ بلکہ جس جگہ نجاست لگی ہو ، اسے الگ سے تین باردھو کر اور نچوڑ کر پھر دوسرے کپڑوں کے ساتھ مشین میں رکھا جائے اوراگر نجاست کی جگہ واضح نہ ہو تو ناپاک کپڑوں کو تین دفعہ پانی میں کھنگال کر نچوڑ لیا جائے ، صابن وغیرہ لگانا ضروری نہیں ؛ اس کے بعد یہ کپڑے مشین میں ڈال دئیے جائیں ، تیسری صور ت یہ ہے کہ ناپاک کپڑوں کو الگ مشین میں ڈالا جائے اور تین پانی سے دھویاجائے ،مشین کا دھونا اور نچوڑنا بھی کافی ہے۔

اگر پاک کپڑوں کو ناپاک کپڑوں کے ساتھ مشین میں ڈال دیا گیا ہو ، تو پھر تمام ہی کپڑوں کو تین دفعہ مشین میں دھونا اور نچوڑنا ہوگا ، نیز اگر کچھ پاک کپڑے دوسری دفعہ میں ڈالے گئے تو ان کے لیے اس کے علاوہ دو دفعہ اور جو تیسری دفعہ میں ڈالے جائیں ان کے لیے اس کے علاوہ ایک دفعہ دھونا کافی ہو جائے گا ، فقہاء نے یہی تفصیل لکھی ہے کہ ناپاک کپڑوں کے پہلے دھوون میں تین دفعہ ، دوسرے کو دو دفعہ اور تیسرے کو ایک دفعہ دھونا ضروری ہو گا ، دھونے کے بعد جیسے کپڑے پاک ہو جائیں گے ، ویسے ہی مشین کا وہ حصہ جس میں کپڑے اورپانی ڈالے جاتے ہیں بھی پاک ہو جائے گا : ثوب نجس غسل في ثلاث جفان أو في واحدۃ ثلاثا ، وعصر في کل مرۃ ، طھر لجریان العادۃ بالغسل… والمیاہ الثلاثۃ نجسۃ متفاوتۃ ، فالأول إذا أصاب شیئا یطھر بالثلاث ، والثانی بالمثنیٰ ، والثالث بالواحد … وتطھر الإجانۃ الثالثۃ تبعاً للمغسول (ہندیہ: ۴۴)
قالین کی جائے نماز
سوال:- میں نے نماز کی شرائط میں پڑھا کہ نرم جائے نماز پر سجدہ مکروہ ہے ، لیکن آج کل شہروں میں مشت بھر تک کی قالین نما جائے نمازیں استعمال کی جاتی ہیں ، کیا یہ صحیح ہے اور ان سے سجدوں کا نشان بھی پیدا نہیں ہوتا ؟ (عبدالمقیت ، عبد القدیر ، بھوکر)

جواب:- اگر ایسی قالین ہو کہ اس پر پیشانی ٹک جاتی ہو ، تو اس پر نماز پڑھی جاسکتی ہے : ولو سجد علی الحشیش أو التبن أو علی القطن ۔۔۔ إن استقرت جبہتہ وأنفہ ویجد حجمہ یجوز وإن لم تستقر ، لا (ہندیہ:۱؍۷۰)ہاں ، اگر اتنے موٹے گدے ہوں کہ پیشانی کا ان پر ٹکاؤ نہ ہوسکے ، جیساکہ اسپنچ کے بعض گدوں میں ہوتاہے ، تو اس پر سجدہ درست نہیں ہوگا ، عام طور پر مسجدوں میں جائے نماز کے طور پر جو قالینیں استعمال کی جاتی ہیں ، وہ ایسی نہیں ہوتی ہیں ، —- اس بات کو بھی ملحوظ رکھنا چاہئے کہ ایسی چیزوں میں شریعت کی طرف سے کوئی تحدید نہیں ہے ؛ بلکہ یہ ہرزمانہ کے مزاج اور معیار کے تابع ہیں ، ایک زمانہ میں لوگ خشک زمین پر ہی سوجاتے تھے ، چٹائیوں کا بستر اوردرخت کے پتوں کا چھپر کا فی ہوجاتا تھا ، اِس زمانہ میں لوگ معیاری رہائش اور عمدہ قسم کے فرش کے عادی ہوچکے ہیں ، گھروں میں بھی عمدہ قالین اور بہتر چادریں استعمال کی جاتی ہیں ، ان حالات میں اگر مسجدوں میں محض چٹائی کی جائے نماز ہو ، تو لوگوں کو شاید نماز میں یکسوئی حاصل نہ ہوپائے ؛ اس لئے اگر آج کے مروجہ معیار کے مطابق مسجد کی عمارت ہو ، حمامات ہوں ، پانی کا نظم ہو اور جائے نمازیں ہوں ، تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔
کہانیاں اور افسانے
سوال:- کہانیاں لکھنا صحیح ہے ؟ کیا جانوروں سے متعلق بچوں کی کہانیاں لکھنا اور افسانے لکھنا درست ہے ؟ ( تبسم جہاں،فلک نما )
جواب:- کسی بھی شخص سے متعلق خلاف واقعہ بات لکھنا جھوٹ ہے اور بہ طور عبرت کوئی فرضی واقعہ لکھنا —جس کے بارے میں قارئین بھی جانتے ہوں کہ یہ کسی حقیقی واقعہ کا بیان نہیں ہے — تمثیل کے قبیل سے ہے اور جھوٹ نہیں ، جیساکہ مولانا روم ؒ نے مثنوی میں اور شیخ سعدی ؒ نے گلستاں اور بوستاں میں اصلاح کے طور پر فرضی کہانیاں لکھی ہیں ، ایسی کہانیاں اگر صالح اخلاقی مضامین پر مشتمل ہوں ، تو لکھی جاسکتی ہیں ، مخرّب اخلاق اور ناشائستہ قسم کی کہانیاں اور افسانے لکھنا جائز نہیں ، گناہ ہے ۔
(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.