Baseerat Online News Portal

آپ کے شرعی مسائل

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
سکریٹری آل انڈیامسلم پرسنل لا بورڈ
جمعہ کے دو خطبوں کے درمیان وقفہ
سوال: کیا یہ بات سچ ہے کہ جمعہ کے دو خطبوں کے درمیان کاوقت دعاء کی قبولیت کا وقت ہوتا ہے؟ لہٰذا جمعہ کے دو خطبوں کے دوران خطیب کو زیادہ سے زیادہ کتنی دیر بیٹھنے کی اجازت ہے، کسی نے کہا کہ زیادہ سے زیادہ اتنی دیر منبر پر خطیب کو بیٹھنا چاہئے ، جتنا وقت تین مرتبہ سبحان اللہ کہنے میں لگتا ہے، اور اس سے زیادہ وقت قیام کی اجازت نہیں ہے، مگر اتنی مختصر مدت میں دعائیں کیسے کی جا سکتی ہیں؛ لہٰذا کیا خطیب ایک سے دو منٹ دو خطبوں کے درمیان بیٹھ سکتا ہے؛ تاکہ سب لوگ اپنی مختصر دعاء کر سکیں۔ (ڈاکٹر مظفر علی خان، سلطان پور)
جواب: حدیث میں یہ بات آئی ہے کہ جمعہ کے دن ایک وقت ایسا ہے کہ اس وقت جو دعاء کی جائے ان شاء اللہ وہ قبول کی جائے گی؛ لیکن یہ کون سا وقت ہے، اس سلسلہ میں احادیث وآثار صحابہ کو سامنے رکھتے ہوئے دو اوقات کا ذکر کیا گیا ہے، ایک: خطیب کے خطبہ کے لئے نکلنے سے لے کر نماز کے مکمل ہونے تک، دوسرے: دن کے آخری حصہ میں، یعنی غروب آفتاب سے پہلے تک؛ اس لئے ان دونوں اوقات میں دعاء کا اہتمام کرنا چاہئے؛ البتہ دعاء زبان سے بھی ہوسکتی ہے اور دل سے بھی؛ کیوں کہ اللہ تعالیٰ دل کی آواز بھی سنتا ہے ،اور اس طرح دعاء ہر وقت کی جا سکتی ہے، رہ گیا دو خطبوں کے درمیان کا وقفہ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول مبارک اس موقع پر تھوڑی ہی دیر بیٹھنے کا تھا، احادیث کو سامنے رکھتے ہوئے فقہاء نے لکھا ہے کہ تین آیت پڑھنے کی مقدار بیٹھنا چاہئے: وظاھر الروایۃ مقدار ثلاث آیات وھو المذھب وتارکھا مسئی فی الأصح……. (حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح: ۵۱۶)
عیسائی خاتون سے نکاح، جس نے بعد میں اسلام قبول کر لیا
سوال: میرے ایک عزیز دوست………. اہل سنت سے ہیں اپنے ساتھ سرکاری ملازمت کرنے والی عیسائی خاتون سے ’’ رجسٹرار آف میریجس ‘‘ میں نکاح کیاتین مسلمان گواہوں کے روبرو، پھردونوں کی رضامندی سے مہر مقرر کر کے ادا کر دیا گیا، خاتون نے کئی ایک اسلامی کتب اور قرآن پاک کے ترجمہ کا مطالعہ کرنے کے بعد اسلام قبول کرتے ہوئے اس پر عمل پیرا ہو گئی، ان کے بچے بھی ہوئے، اس بات کو میں پوری طرح جانتا ہوں، میرے دوست نے اس بات کو اپنے مقامی مفتی صاحب سے رجوع کیا تو انہوں نے کہا کہ ان کا نکاح جائز ہے، تجدید نکاح کی ضرورت نہیں، اور اسلام قبول کرنے سے محترمہ کے پچھلے تمام گناہ اللہ تعالیٰ معاف فرما دیتے ہیں، میں اور میرے دوست یہ ارادہ کیا تھا کہ اگر ضرورت پڑی تو تجدید نکاح کے لئے مفتی صاحب کے مدرسہ میں یا پھر گھر میں انتظام کر لیں گے؛ لیکن مفتی صاحب نے کہا کہ ضرورت نہیں ہے، مفتی صاحب کا انتقال ۲۰۱۶ء میں ہوا اور متذکرہ خاتون کا انتقال ۲۰۰۹ء میں، براہ کرم یہ بتا دیجئے کہ نکاح منعقد ہوا ، رہنمائی فرمائیں؟ (محمد عبدالکریم، وقار احمد، مدینہ گوڑہ)
جواب: ایک مسلمان مرد کا نکاح یا تو مسلمان عورت سے ہو سکتا ہے یا ایسی یہودی وعیسائی عورت سے جو خدا پر، قیامت پر، نبوت ووحی کے نظام پر ایمان رکھتی ہو، اگر وہ عورت اس طرح کی عیسائی تھی، صرف نام کی عیسائی نہیں تھی اور دونوں نے کم سے کم دو مسلمان مرد گواہوں کے سامنے ایجاب وقبول کر لیا تو نکاح منعقد ہوگیا، اگر نکاح کے وقت مہرمتعین نہ ہو تب بھی نکاح ہو جاتا ہے، مگر مہر واجب ہوتا ہے، جب بعد میں باہمی رضامندی سے مہر بھی متعین ہوگیا اور اس کی ادائیگی بھی عمل میں آگئی تو اب یہ ذمہ داری بھی پوری ہوگی، اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ بعد میں اس خاتون نے اپنے مطالعہ کی بنیاد پر اسلام بھی قبول کر لیااور اس طرح اس نے اپنے لئے آخرت کے نجات کا توشہ بھی تیار کر لیا، اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔
مفتی صاحب نے صحیح کہا کہ اس صورت میں تجدید نکاح کی ضرورت نہیں تھی، شرعا اس کا نکاح درست تھا، اور ان سے پیدا ہونے والی اولاد حلال ہے، اس میں کسی تردد کی بات نہیں ہے۔
مکانات کے کرایہ پر زکوٰۃ
زید اور ہندہ دونوں میاں بیوی الگ الگ کمپنیوں میں ملازم ہیں، دو تین سال قبل انہوں نے بینک سے پہلی بار 25لاکھ روپیہ اور دوسری بات 35لاکھ روپیہ قرض لے کر دو فلیٹس ہندہ یعنی بیوی کے نام پر خریدا، دونوں فلیٹس کی رجسٹری کے کاغذات بینک میں ہیں، فلیٹس کی رجسٹری کے بعد دونوں فلیٹس کرایہ پر دے دیے گئے، قرض کی ادائیگی دونوں فلیٹس کے کرایہ سے ہو رہی ہے، اس میں ایک فلیٹ کے قرض کی ادائیگی مکمل ہو چکی ہے، ابھی دوسرے فلیٹ کی قرض کی رقم ادا شدنی ہے، جو دونوں فلیٹس کے کرایہ سے ادا کی جا رہی ہے، دونوں فلیٹس کا جو کرایہ مل رہا ہے، وہ ہندہ یعنی مالک جائیداد کے نام پر جمع نہیں ہو رہا ہے؛ بلکہ وہ قرض کی ادائیگی میں بینک کو جا رہا ہے، معلوم کرنا ہے کہ ایسی صورت میں دو فلیٹس کی مالیت 60 لاکھ روپیہ جو ہندہ کے نام پر ہیں، قرض کی ادائیگی کے بعد کیا اسی سابقہ مالیت پر ہندہ کو زکوٰۃ نکالنی ہوگی، یا پھر موجودہ مالیت کا تعین کر کے زکوٰۃ نکالنی ہوگی، مزید یہ کہ مکمل قرض ادا کرنے کے بعد فلیٹس کا کرایہ بینک میں جمع کروایا جائے گا تو اگر جمع شدہ کرایہ کی رقم پر ایک سال گزر جائے تو کرایہ کی جمع شدہ رقم اور فلیٹس کی موجودہ مالیت کو ملا کر اس پر زکوٰۃ ادا کرنا ہوگا، یا صرف کرایہ کی جمع شدہ رقم پر زکوٰۃ نکالنی ہوگی، یا پھر کرایہ جمع ہو یا نہ ہو کرایہ کا سالانہ حساب کر کے زکوٰۃ نکالنا ہوگا؟ (محمد محمود، سعیدآباد)
جواب: پہلی قابل ذکر بات یہ ہے کہ شدید مجبوری کے بغیر سودی قرض حاصل کرنا جائز نہیں؛ لیکن جب دونوں نے بینک سے قرض لے ہی لیا، اور فلیٹس خرید ہی لیا تو اب وہ اس کے مالک ہیں، اگر یہ دونوں مکان رہائش کے لئے ہیں یا کرایہ پر لگانے کے لئے لئے گئے ہیں، بیچنے کے لئے نہیں لئے گئے ہیں تو ان مکانات کی ملکیت پر زکوٰہ واجب نہیں؛ البتہ زید یا ہندہ کے پاس جتنا قابل زکوٰۃ مال ہو، اس میں سے ان کے ذمہ واجب الادا قرض کی وہ قسط جو اس سال ادا کرنی ہے، منہا کرنے کے بعد جتنی رقم بچ جاتی ہے،اس کی زکوٰۃ ادا کرنی واجب ہوگی، ہاں اگر ان دونوں فلیٹ یا ان میں کسی ایک فلیٹ کو بیچنے کی نیت سے خرید کیا ہو تو اس کی موجودہ قیمت کے لحاظ سے زکوٰۃ ادا کی جائے گی،قرض ادا ہونے کے بعد اگر کرایہ کی رقم بینک میں جمع کی جائے تو ہر سال دوسری رقوم اور اموال زکوٰۃ کے ساتھ ساتھ اس جمع شدہ کرایہ کی رقم پر بھی زکوٰۃ واجب ہوگی، اور چوں کہ اس فلیٹس سے کرایہ حاصل کیا جائے گا؛ اس لئے خود فلیٹس کی قیمت پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی۔
منبر پر قرآن مجید رکھنا
سوال: آج کل مساجد میں موجود منبروں پر قرآن مجید کو رکھا جاتا ہے، یہ عمل شرعی اعتبار سے کیسا ہے؟ (محمد اقبال حسین، حیدرآباد)
جواب: قرآن مجید اللہ کی کتاب ہے؛ اس لئے جیسے اس پر ایمان لانا ضروری ہے، اسی طرح اس کا احترام کرنا بھی ضروری ہے، کون سا عمل احترام کے خلاف ہے اور کون سا عمل احترام کے خلاف نہیں؟ اس سلسلہ میں قرآن وحدیث اور لوگوں کا عرف معیار ہے، جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ استنجاء کرتے وقت چہرہ یا پشت قبلہ کی طرف نہ کرو، اس سے معلوم یہ ہوا کہ یہ عمل احترام قبلہ کے خلاف ہے، اسی طرح فقہاء نے بعض باتوں کو عرف کی بناء پر احترام کے خلاف مانا ہے، جیسے قبلہ یا قرآن مجید یا دینی کتابوں کی طرف پاؤں پھیلانا، اور یہ بھی لکھا ہے کہ جب نیچے پاؤں پھیلائے ہوا ہو اور قرآن مجید اوپر ہو تو کوئی حرج نہیں: یکرہ ان یمد رجلیہ فی النوم وغیرہ الی القبلۃ أو المصحف أو کتب الفقہ الا أن تکون علی مکان مرفع……(فتح القدیر: ۱؍۴۲، نیز دیکھئے: النھر الفائق: ۱؍۲۸۷)
منبر پر قرآن مجید رکھنے کے سلسلہ میں میرے علم کے مطابق ہندوستان کا عرف یہ ہے کہ اگر اوپر والے زینہ پر قرآن مجید رکھا جائے، جس پر کھڑا نہیں ہوا جاتا ہے اور نہ بیٹھا جاتا ہے تو اس کو خلاف ادب نہیں سمجھا جاتا ، نچلے اور درمیانی زینہ– جس پر کھڑے ہوتے ہیں اور بیٹھتے ہیں — ان پر کسی غلاف کے بغیر قرآن مجید رکھنے کو خلاف ادب سمجھا جاتا ہے، اور اگر قرآن مجید جزودان کے اندر ہو یا رحل کے اوپر ہو تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں سمجھا جاتا ؛ اس لئے اگر بغیر رحل یا جزودان کے نچلے یا درمیانی زینہ پر قرآن مجید رکھا جائے تو یہ ادب کے خلاف ہوگا، اس سے بچنا چاہئے اور اگر کسی جگہ عرف اس کے خلاف ہو تو اس کا حکم الگ ہوگا، اصولی بات یہی ہے کہ جہاں قرآن مجید کے ساتھ جس عمل کو ادب کے خلاف سمجھا جاتا ہو، وہاں وہ عمل مکروہ ہوگا۔
جھینگا کھانا
سوال: آج کل تقاریب ضیافت میں جھینگا کا زیادہ استعمال ہونے لگا ہے، اور کیکڑا بھی کھایا جاتا ہے، اس کی شریعت میں کیا احکام ہیں؟ (محمد اقبال حسین، مشیرآباد، حیدرآباد)
جواب: فقہاء احناف کے نزدیک دریائی جانوروں میں صرف مچھلی کھانے کی اجازت ہے؛ کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے صرف مچھلی ہی کا استعمال فرمایا ہے؛ اس لئے کیکڑاکا کھانا احناف کے نزدیک تو بہر حال جائز نہیں ہے، شوافع کے یہاں اس سلسلہ میں اختلاف ہے، بعض حضرات نے جائز اور بعض نے ناجائز قرار دیا ہے؛ اس لئے شوافع حضرات کے لئے بھی احتیاط اس سے بچنے میں ہے- جہاں تک جھینگے کی بات ہے تو اس کا جائز وناجائز ہونا اس بات پر موقوف ہے کہ وہ مچھلی میں شامل ہے یا نہیں؟ بعض حضرات نے اسے مچھلی مانا ہے؛ اس لئے وہ اس کو جائز قرار دیتے ہیں، دوسری رائے ہے کہ یہ کیڑے مکوڑے میں شامل ہے، مچھلی نہیںہے؛ کیوں کہ ماہرین حیوانات نے مچھلی کی حقیقت میں تین چیزوں کو شامل مانا ہے، ایک: ریڑھ کی ہڈی، دوسرے: سانس لینے کا گلپھڑا تیسرے: تیرنے کے پنکھے، اور یہ تینوں چیزوں جھینگے میں موجود نہیں ہیں؛ اسی لئے بعض فقہاء نے اس کو ناجائز قرار دیا ہے: لا یحل أکلہ أی کالفضد والسرطان (حاشیۃ الشبلی مع تبیین الحقائق: ۱؍۳۲)
اس حقیر کا رجحان یہ ہے کہ چوں کہ جھینگے کے حرام وحلال ہونے کے سلسلہ میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے، اور خود علماء احناف کے درمیان بھی دونوں نقاط نظر نظر پائے جاتے ہیں؛ اس لئے اس کو بالکل حرام تو نہیں کہا جا سکتا ؛ لیکن کراہت سے خالی نہیں ہے۔
۰ ۰ ۰
(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.