Baseerat Online News Portal

آپ کے شرعی مسائل

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
سکریٹری آل انڈیامسلم پرسنل لابورڈ
اگر چار کی نیت کر کے دو رکعت نفل ادا کرے ؟
سوال:- کسی شخص نے چار رکعت نفل کی نیت کی ، لیکن دو ہی رکعت پر سلام پھیر دیا ، ایسی صورت میں کیا اسے چار رکعت کی قضاء کرنی ہوگی ، یا دو رکعت کی ؟ ( مجتبیٰ حسن، ممبئی )
جواب:- نفل کی ہر دو رکعت کی حیثیت مستقل نماز کی ہے ، اس لئے ایسی صورت میں امام ابو حنیفہ ؒ اور امام محمد ؒ کے نزدیک یہ دو رکعت ہی کافی ہوجائے گی ، دو رکعت یا چار رکعت کی قضاء واجب نہیں ہوگی : و إن شرع في التطوع بنیۃ الأربع ۔۔۔ ثم قطع ۔۔۔ فان کان قبل القیام الی الثالثۃ یلزمہ شفع واحد عندہ و عندھما لا یلزم شییٔ (کبیری: ۳۶۷)
شرم سے وضوء کے لئے نماز سے نہ نکلے
سوال:-دورانِ نماز وضو ٹوٹ جائے اور آدمی شرم کی وجہ سے جماعت چھوڑ کر وضو کرنے نہ جائے ؛ بلکہ نماز جاری رکھے تو کیا حکم ہے ؟ (‎‎‎ظل الرحمٰن، تالاب کٹہ)
جواب:- اگر وضو ٹوٹنے کی نوبت آجائے تو جاکر وضو کرکے دوبارہ نماز میں شامل ہونا چاہئے ،اور درمیان میں کسی سے گفتگو نہیں کرنی چاہئے ،یہ عوارض فطری ہیں ؛ اس لئے احکامِ دین کے معاملہ میں حیاء سے کام لینا مناسب نہیں، حیاء تو گناہ کے ارتکاب میں ہونی چاہئے ،نہ کہ ایک حکم شرعی کی تعمیل میں ؛ تاہم اگر غلبۂ شرم کی وجہ سے نہ نکل سکے تو کم سے کم اتنا ضرور کرے کہ نمازکی نیت ختم کردے اور صرف نمازیوں کی حرکات کی نقل کرنے پر اکتفاء کرے ، ایسی صورت میں وہ نماز پڑھنے والا نہیں ہوگا؛ بلکہ نمازی کی مشابہت اختیار کرنے والا ہوگا ؛کیونکہ ناپاکی کی حالت میں نماز پڑھنا سخت گناہ ہے؛ بلکہ اس میں کفر کا اندیشہ ہے ـ۔
بد عمل لوگوںسے بے تعلقی
سوال:- ایک شخص ہندو تھا ، ایک مسلمان بھائی نے اس کی پرورش کی ، اسلام قبول کرایا ، ختنہ کراکے نام بدلا ، اور ایک مسلمان نمازی خاندان میں اس کی شادی کرائی ، وہ شخص چو بیس گھنٹے دارو پیتا ہے ، نہ نماز پڑھتا ہے ، اور نہ روزہ رکھتا ہے ، ایسے شخص کو گھر میں رکھنا چاہئے یا نہیں ؟ اور اس کے ساتھ کھانا یا دوستی جائز ہے یا نہیں ؟ (شیخ جیلانی، گنٹور )
جواب:- کسی شخص کو مسلمان بنانا اور ہدایت کے راستے تک پہنچانا بہت ہی اجر و ثواب کا کام ہے ، رہ گئی اس کی برائیاں اور کوتاہیاں ، تو اس کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ، جب ایک شخص کفر سے ایمان کی طرف آسکتا ہے، تو اسے برائی سے نیکی کی طرف بھی لایا جاسکتا ہے ، اللہ کے کسی بندہ سے نا امید ہوجانا مناسب نہیں ، جہاں تک اس سے ترک تعلق کی بات ہے تو یہ مصلحت اور تقاضۂ حالات پر موقوف ہے، اگر چند روز بے تعلقی برتنے کی وجہ سے امید ہو کہ اس کی اصلاح ہوجائے گی تو بے تعلقی برتنی چاہئے ؛ لیکن اگر اندیشہ ہو کہ یہ بے تعلقی اس کو اپنی بد اعمالیوں میں اور جری بنادے گی اور اصلاح کی جو کچھ توقع ہے ،وہ بھی ختم ہوجائے گی ، تو پھر بہتر ہے کہ ایسے شخص کے معاملہ میں تحمل سے کام لیتے ہوئے محبت سے سمجھایاجائے ؛ ورنہ اندیشہ ہے کہ پھر ایمان سے کفر کی طرف چلا جائے ،اور اگر مناسب سمجھیں تو چند دنوں کے لیے اسے تبلیغی جماعت میں بھیج دیں؛ اس لئے کہ جماعت کے دینی ماحول کی وجہ سے دیکھا گیا ہے کہ بہت سے بگڑے ہوئے لوگوں کی اصلاح ہوجاتی ہے ۔
مجنون باپ کی جائداد
سوال:- احمد نے نسیم نامی ایک شخص سے ایک جائداد ۵۰؍ ایکڑ پر مشتمل کا ایگریمنٹ کیا ، مبلغ ۶۸؍ ہزار روپے فی ایکڑ زمین کا اس معاہدہ پر معاملہ کیا کہ قانونی کاروائی اور ضرورت پڑے تو عدلیہ کی ذمہ داری سب احمد خریدار ہی کے ذمہ ہوں گے ، اور فی الفور بطور بیعانہ ۲؍ لاکھ روپے ادا کئے جائیں گے ، بقیہ رقم زمین کی فروختگی کے بعد حوالہ کی جائے گی، چنانچہ اس معاہدہ کے مطابق رقم بیعانہ ادا کردی گئی ، سلیم کے ساتھ جائداد کے کاروبار میں احمد کے والد سالم بھی ۸؍ ایکڑ زمین کے حقدار تھے ، اور وہ اس معاملہ پر راضی تھے ، اب جب کہ زمین تمام جھگڑوں اور کاروائیوں کے بعد قابلِ فروخت ہوگئی ہے اور احمد نے ایک کمپنی کو فروخت بھی کردی ہے اور اس کی رقم کی قسطیں آنے لگی ہے ، تو احمد کے دوسرے بھائی حامد کا مطالبہ ہے کہ والد صاحب کی ۸ ؍ ایکڑ زمین میرے حوالہ کردی جائے اور احمد کا ارادہ ہے کہ والد صاحب کے حصہ کے بقدر رقم ان کے کھاتہ میں جمع کردی جائے، والد صاحب بقید حیات ہیں، البتہ دماغی توازن ٹھیک نہیں ہے ، دریافت طلب امر یہ ہے کہ حامد کا یہ مطالبہ کہ آٹھ ایکڑ زمین اس کے حوالہ کردی جائے ، جب کہ اس پورے معاملہ میں حامد کا کوئی عمل دخل نہیں ہے ، کہاں تک شرعا درست ہے ؟( محمد طلحہٰ، کریم نگر)
جواب:- اس صورت میں آٹھ ایکڑ زمین کے مالک احمد کے والد سالم ہیں ، اگر سالم نے دماغ کے عدم توازن سے پہلے احمد سے یہ معاملہ کیا تھا کہ وہ اس کے حصہ کی زمین بھی فروخت کر دے تو احمد کی حیثیت سالم کی طرف سے وکیل بیع کی ہوگئی ، لہذا اس زمین کو فروخت کرنا درست ہے ، چوںکہ سالم ابھی زندہ ہے، گو دماغی اعتبار سے علیل ہے ، اس لیے وہ خود اس رقم کا مالک ہے اور اس کے لڑکوں کو اس پر ولایت حاصل ہے ؛ اس لیے یہ بات مناسب ہوگی کہ یہ رقم اس کے کھاتہ میں جمع کردی جائے اور اس کے جتنے لڑکے ہوں کھاتہ ان سب کے درمیان جوائنٹ ہو اور یہ رقم سالم اور اس سے متعلق حاجات ہی پر خرچ کی جائے ، ہاں ! اگر سالم کے بعد بھی کچھ رقم بچ رہے تو حسب حکم شرعی تمام ورثہ میں تقسیم کردی جائے ۔
مسجد میں عقد نکاح کی اجرت
سوال:- بعض مسجدیں کشادہ اور آرام دہ ہیں ، وہاں لوگ عقد نکاح پڑھواتے ہیں اور ہر نکاح پڑھوانے پر مسجد کی انتظامیہ کی طرف سے ایک رقم متعین ہے ، اس کو ادا کرنے پر ہی نکاح پڑھوانے کی اجازت دی جاتی ہے اور اسے ’’بلڈنگ فنڈ ‘‘کا نام دیاجاتا ہے ، کیا اس طرح مسجد کی انتظامیہ کا رقم وصول کرنا جائز ہے ؟ (محمد صابر، کوکٹ پلی)
جواب:- رسول اللہ ا نے مسجدوں میں نکاح کرنے کی تلقین فرمائی ہے (ترمذی،حدیث نمبر: ۱۰۸۹) اسی لئے فقہاء نے اسے مستحب قرار دیا ہے ؛ بشرطیکہ مسجد کے احترام کو پوری طرح ملحوظ رکھا جائے ، اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ لوگ بعض منکرات جیسے گانے بجانے وغیرہ سے بچ جاتے ہیں؛ لیکن مسجد اللہ کا گھر ہے اور خالصتًا عبادت کے لئے ہے ، مسجد ایسی جگہ نہیں ہے ، جس کو کرایہ پر لگایا جائے ؛ اس لئے انتظامیہ کا نکاح پڑھوانے والے پر کوئی رقم باندھ دینا اور عقد نکاح کی اجازت کو اس کے ساتھ مشروط کردینا جائز نہیں ہے ، یہ مسجد کی عظمت کے مغائر ہے ، ہاں ، اگر مسجد میں نکاح ہو اور عاقدین سے عام مسلمانوں کی طرح تعمیر مسجد میں تعاون کی اپیل کی جائے اور وہ اپنی رغبت اور رضامندی کے ساتھ کوئی رقم دے دیں ، تو اس کی گنجائش ہے ؛ کیوں کہ یہ صورت تعمیر مسجد میں تعاون کی ہے اور پہلی صورت مسجد کے استعمال کا کرایہ لینے کی ہے ، مسجد کے لئے تعاون حاصل کرنا جائز ہے اور اس کو کرایہ پر لگانا جائز نہیں ہے ۔
مطلقہ بوڑھی عورت کا سابق شوہر کی خدمت کرنا
سوال:- میری عمر ۷۰ کے لگ بھگ ہے ، میری بیوی کی عمر بھی ساٹھ( ۶۰) سے متجاوز ہے ، میں کچھ اس طرح شیطان کے دام میں آگیا کہ اس عمر میں بیوی کو طلاق دے دیا ، میں بیمار و فریش بھی ہوں ، کوئی تیمارداری کرنے والا نہیں ہے ، بچے بھی ساتھ ہیں ، ایسی صورت میں کیا میری مطلقہ بیوی میرے گھر میں قیام کرسکتی ہے ، تاکہ وہ کھانا وغیرہ پکا دیا کرے ؟(سمیہ پروین، ملے پلی)
جواب:- شریعت نے طلاق کے سلسلہ میں خوب احتیاط اور غور وفکر کرکے قدم اٹھانے کا حکم ہے ، بہر حال جو صورت حال آپ نے لکھی ہے ، چوںکہ اس میں آپ دونوں کی عمریں ایسی ہیں کہ بظاہر فتنہ کا اندیشہ نہیں ، اور بال بچوں کی موجودگی اس فتنہ کے امکان کو اور کم کرتی ہے ؛ اس لئے کبر سنی اور بیماری کی وجہ سے آپ دونوں کا ایک مکان میں رہنا اور ازدواجی تعلق نیز اس نوعیت کی باتوں سے بچتے ہوئے ایک دوسرے کی مدد کرنا جائز ہے : وسئل شیخ الإسلام عن زوجین افترقا ولکل منہما ستون سنۃ ، وبینہما أولاد تتعذر علیہما مفارقتہم فیسکنان فی بیتہم ولا یجتمعان فی فراش ولا یلتقیان التقاء الازواج ، ہل لہما ذلک ؟ قال : نعم (رد المحتار: ۱۲؍۴۵۷)
قرعہ اندازی میں عمرہ کا ٹکٹ
سوال:- شہر حیدرآباد کی ایک مشہور دوکان میں کپڑے کی خریداری کرنے پر ٹوکن ملتا ہے ، پھر قرعہ اندازی میں جس کا نام نکل آئے ، اس کو عمرہ کا ٹکٹ دیاجاتا ہے ، ایک صاحب کا نام قرعہ اندازی میں آگیا اورانہیں عمرہ کا ٹکٹ دیاگیا ، کیا اس ٹکٹ پر ان کا عمرہ کرناجائز ہے ؟ ( شیخ کریم الدین، دبیر پورہ )
جواب:- جب ہر خریدار کو اس کے پیسے کے عوض کپڑے دے دیے جاتے ہیں اور دوکان اپنی طرف سے قرعہ میں نام نکلنے والوں کو عمرہ کا ٹکٹ دیتی ہے ، تو یہ صورت جواز کے دائرہ میں آتی ہے ، یعنی اس ٹکٹ پر اس شخص کے لیے عمرہ پر جانا جائز ہے ، یہ تو اصل حکم ہے ؛ کیوں کہ حکم معاملات کی ظاہری شکل کے اعتبار سے لگایا جاتا ہے ؛ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اس کے پیچھے بعض دفعہ وہی ذہن کار فرما ہوتا ہے جو لاٹری لینے والے کا ہوتا ہے ، اس لیے مسلمان تاجروں کو ایسی شکلوں سے بچنا بہتر ہے۔و اللہ اعلم
قبضہ سے پہلے کسی شیٔ کو کرایہ پر لگانا
سوال:- میں نے ایک گاڑی بک کرادی ہے اور ابھی سے ایک صاحب سے معاملہ طے کرلیا ہے کہ وہ گاڑی ان کے قبضہ میں رہے گی اور وہ مجھے ماہانہ کرایہ دیا کریں گے ، میں نے ان سے کچھ رقم بطور پیشگی لے لی ہے ، کیا میرے لئے یہ رقم جائز ہے ؟ ( صباح الدین، شاہین نگر)
جواب: – شریعت کا اُصول یہ ہے کہ جو چیز ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کی جاسکتی ہے ، جب تک اس پر قبضہ حاصل نہ ہوجائے، اسے نہ بیچنا جائز ہے اور نہ کرایہ پر لگانا : ’’وما لا یجوز بیعہ قبل القبض لا یجوز إجارتہ‘‘(ہندیہ: ۳؍۱۳ ) ؛ اس لئے جب آپ نے گاڑی بک کرائی ہے اور ابھی وہ آپ کے قبضہ میں نہیں آئی ہے ،تو ابھی سے اس کو کرایہ پر لگادینا جائز نہیں ہے اور بحیثیت کرایہ دارآپ کا رقم حاصل کرنا ، نیز اس میں تصرف کرنا بھی درست نہیں ؛ البتہ آپ ابھی یہ معاہدہ کرسکتے ہیں کہ جب گاڑی حاصل ہوجائے گی توآپ ان صاحب کو کرایہ پر دیدیں گے ، یہ کرایہ پر لگانا نہیں ہوا ؛ بلکہ اس کا وعدہ ہوا ، اسی طرح جو رقم آپ نے ان سے حاصل کی ہے ،اگر وہ راضی ہوجائیں تو بطور قرض ان سے لے سکتے ہیں اور جب گاڑی ان کے حوالے کریں تو کرایہ کے ذریعہ قرض ادا کرسکتے ہیں؛ لیکن اس کے لئے دوسرے فریق کی رضا مندی ضروری ہے ۔
(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.