نماز کی اہمیت

یوں تو ہر نماز اپنی ظاہری ہئیت اور شکل کے اعتبار سے یکسان ہوتی ہے ۔ تمام اعمال میں قیام اور رکوع وسجود وغیرہ کی یکسانیت پائی جاتی ہے ۔ لیکن نماز اپنی کیفیت اور لذت اور محبت اور حلاوت اور خشوع وخضوع ، انہماک اور یکسوئی کے لحاظ سے ہزاروں درجے اور مرتبے رکھتی ہے بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ دنیا میں انسانوں کی جتنی آبادی ہے تقریبا اتنے ہی نماز کے درجات ہیں ۔ ہر ایک کی نماز دوسروں کی نماز سے جدا ہے اس کی کیفیت دوسروں کی نماز سے علاحدہ ہے جس طرح ایمان اور تقوی کے ہزاروں درجے ہیں اسی طرح نمازکے بھی ہزاروں مرتبے ہیں ۔یہ اس لئے کہ دل کی دنیا ظاہر کی دنیا سے زیادہ وسیع ہے ۔ روحانیت کی دنیا مادیت کی دنیا سے کہیں زیادہ کشادہ ہے ۔روحانیت کی دنیا اتنی وسیع ہے کہ سیکڑوں مادی دنیا اس کے اندر سما جائیں ۔ یہ باتیں روحانیت سے لگاو کے بغیر سمجھ میں نہیں آسکتی ہیں ۔ روحانیت کے خزانہ عامرہ تک رسائی ہر شخص کی نہیں ہوپاتی ہے ۔قرآن میں نماز پڑھنے کا حکم ہے اور ایک جگہ فرمایاگیا ہے واسجد واقترب ( العلق) یعنی سجدہ کرو اور قریب آجاو ۔ وہ سجدہ جسے سجدہ قربت کہتے ہیں اس کا پانا اور اس کا حاصل کرنا آسان نہیں اور پھر قربت کے درجات میں بھی تفاوت ہے یعنی تمام قربت کے سجدے برابر نہیں ہیں ۔ایک انسان جس قدر اللہ سے قریب ہوگا جس قدر اس کا ایمان طاقتور ہوگا جس قدر اس کے قلب کی صفائی زیادہ ہوگی، جس قدر وہ تقوی اور پارسائی میں ممتاز ہوگا ، جس قدر اسے معرفت کا مقام حاصل ہوگا ، ا سی قدر اس کی نماز ترقی یافتہ اور بلند مرتبہ ہوگی ۔ اور لوگ اس قدر غفلت میں ہیں کہ دولت وثروت میں ترقی کرنے کی فکر تو لگی رہتی ہے لیکن نماز میں ترقی کرنے کی فکر کسی کو نہیں ہوتی ہے ۔ ہماری نماز ایسی ہوتی ہے کہ دل کہیں اور لگا رہتا ہے اور اللہ کے سامنے حضوری کا احساس ہی نہیں ہوتا ہے ۔ اس لئے ہم سب کو اپنی نمازیں ٹھیک کرنے کی فکر ہونی چاہئے ۔ قرآن مجید میں بے دلی کے ساتھ نماز پڑھنے والوں کے بارے میں آتا ہے ’’ویل للمصلین الذین ہم عن صلاتہم ساہون‘‘ یعنی بربادی ہے ایسے نمازیوںکے لئے جو اپنی نماز کو بھلا بیٹھے ہیں یعنی ان کے ہاں نماز کا کوئ اہتمام نہیں ہے ان کی نمازیں اکثر قضا ہوتی ہیں اور بے دلی سے پڑھی جاتی ہیں چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بعض نمازیں نماز پڑھنے والے کے منہ پر مار دی جائیں گی۔یہ بہت ڈرنے کی بات ہے ۔اگر کسی کو یہ خبرمل جائے کہ اس کے گھر پر چھاپہ پڑنے والا ہے اورکل نقدی اور چاندی اور سونے کے تمام زیورات ضبط کرلئے جائیں گے تو اس کی راتوں کی نیند حرام ہوجائے گی لیکن ہمیں ڈر نہیں لگتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارے نمازیں منہ پر مار دی جائیں اور ان کا کوئ ثواب ہمیں نہ ملے ۔ اس لئے ہمیں اپنی نمازوں کے بارے میں بہت سنجیدہ ہونا چاہئے ۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ سب سے برا آدمی وہ ہے جو نماز چراتا ہے ۔ صحابہ نے دریافت کیا یا رسول اللہ نماز کو انسان کس طرح چراتا ہے آپ نے فرمایا کہ جو نہ رکوع ٹھیک سے کرتا ہے نہ سجدہ ٹھیک سے کرتا ہے ( نسائی )
ایک اچھے اور سچے مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ نماز کو اپنا مونس اور دمساز اور اپنی روحانی قوت اور طاقت بنائے اور جب بھـی کوئی مشکل پیش آجائے کسی پریشانی سے سابقہ پڑجائے ،کوئی افتادسر پر پڑجائے ، زندگی کی کشتی کسی گرداب بلا میںپھنس جائے تو وہ فورا نماز کی طرف متوجہ ہو اور جس طرح بچہ اپنی ماں سے خوف کی وجہ سے لپٹ جاتا ہے وہ مسلمان بھی اللہ کی طرف فورا رجوع ہو اور پریشانی سے نجات مانگے ۔ صحابہ کرام اور تابعین کا معاملہ نماز کے ساتھ ایسا ہی تھا یعنی وہ نماز کو اپنے درد کا درماں سمجھتے تھے ان کو اپنی نماز پر ایسا ہی اعتماد اور ناز تھا جتنا ایک سپاہی کو اپنی شمشیر پر اور جتنا ایک مدبر کو اپتی تدبیر پر ہوتا ہے ۔ ہمارے اندر سے رجوع الی اللہ کا مادہ ختم ہوگیا ہے ۔ نہ توبہ ہے اور نہ استغفار نہ اپنے عمل پر ندامت نہ بار بار اللہ کی بارگاہ میں کھڑا ہونے اور اس سے قریب ہونے کا جذبہ ۔ یعنی جو مومن کی صفات ہیں وہ ہمارے اندر نہیںپائی جاتی ہیں۔ قرآن میں ہے کہ خشوع وخضوع سے نماز پڑھنے والے ہی کامیاب اور بامراد ہیں قد افح المومنون الذین ہم فی صلاتہم خاشعون یعنی وہ اہل ایمان فلاح پاگئے جو اپنی نماز میں خشوع رکھنے والے ہیں اس لئے خشوع وخضوع کی بڑی اہمیت ہے اسے ہر قیمت پر حاصل کرنے کی فکر کرنی چا ہئے اور اس کیلئے صالحین اور عارفین کی صحبت اٹھانی چاہئے ۔
سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اصلی اور حقیقی نماز کیسے میسر آسکتی ہے ،وہ نماز جو سر تابا نیاز ہو جو مجسم قرب وصال ہو وہ سجدہ جو سجدہ قربت ہو وہ قیام جومجسم نوری اور حضوری ہو کیسے حاصل ہوسکتا ہے ، اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ قلب کی حالت جس قدر بہتر ہوگی نماز اسی قدر بہتر ہوگی ، اگر نماز کے علاوہ اوقات میں انسان یاد الہی میں مشغول رہتا ہے تو تھوڑی سی توجہ سے اس کی نماز درست ہوسکتی ہے ،ہر ہر مرحلہ میں جو ذکر کا حکم ہے اور قدم قدم پر جو مسنون دعاؤں کے التزام کو بہتر قرار دیا کیا ہے ان کی معنویت یہی ہے کہ قلب درست اور روح تندرست ہو اور انسان کو عبادت کی حلاوت حاصل ہوسکے ، خشوع اور خضوع والی نماز کے ضروری ہے کہ انسان کا قلب خاشع ہو اس میں اللہ کی محبت موجود ہو ،کوئی کام اور کوئی مشغولیت انسان کو ذکر سے نہ ہٹائے ، وضو کے وقت سے ہی خشوع اور خضوع والی عبادت کے لئے خود کو تیار کرنا چاہئے اور یہ ذہن میں ہونا چاہئے کہ وہ بہت بڑی دربار میں حاضر ہونے والا ہے ۔ انسان کو عبادت کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور نماز سب سے بڑی اور اہم عبادت ہے اور روز قیامت سب سے پہلے اس کی پرسش ہوگی ۔
( ائمہ اور خطیب حضرات سے گذار ش ہے کہ مذکرہ بالا مضمون جمعہ کے وقت تما م نمازیوں کو سنادیں یا اس کا مفہوم بیان کردیں ۔ ہر جمعہ کے دن جمعہ کا خطبہ اسی مقصد سے شائع کیا جاتا ہے )
(بصیرت فیچرس)
Comments are closed.