نسخہ کیمیا

ڈاکٹر سید ابوذر کمال الدین
سابق وائس چیئرمین، بہار انٹرمیڈیٹ ایجوکیشن کونسل
2019 کے لوک سبھا چناؤ کا نتیجہ کیا ہوگا اور مرکز میںاین۔ڈی۔اے یا یو۔پی۔اے یا کسی تیسرے محاذ کی سرکار بنے گی یہ کہنا مشکل ہے تاہم مسلمانوں کے حالات اورمسائل میں کوئی فرق پڑے گا اس کا امکان بہت کم ہے بلکہ خاکم بدہن اندیشہ ہے کہ حالات زیادہ خراب ہوں گے۔ جس کے تین داخلی وجوہات ہیں۔ جن پر فی الفور توجہ دینے کی ضروری ہے جو ہمارے لیے نسخۂ کیمیا بن سکتا ہے۔
پہلا اس وقت جبکہ علمی انفجار(Knowledge Explosion)اپنے نقطۂ عروج پر ہے اور دنیا کی تمام ترقی یافتہ قومیں علمی میدان میں صدیوں آگے نکل گئی ہیں، ہماری آدھی سے زیادہ آبادی ابھی بھی جہالت کی اندھی کھائی میں ٹامک ٹوئیاں کررہی ہے اور ہم ابھی تک دینی تعلیم دنیاوی تعلیم کی خانہ زاد تقسیم میں الجھے ہوئے ہیں۔ لڑکے اور لڑکیوں کی تعلیم کے باب میں ابھی تک ذہن صاف نہیں ہے اور کتنی تعلیم اور کیسی تعلیم پر بحث کررہے ہیں۔ تعلیم ایک قوت ہے اور سب کی ضرورت ہے۔ بغیر تعلیم کے کسی قسم کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ اگر ہم بہتری چاہتے ہیں اور مستقبل میں ذلت و نکبت سے بچنا چاہتے ہیں تو ہمیں سب کی تعلیم، اچھی اور معیاری تعلیم اور وقت زمانے اور حالات کے لحاظ سے ہر طرح کی تعلیم پر زور دینا ہوگا۔لہٰذا ملت کو اپنے ذہن کی گرہیں کھول کر سب سے زیادہ اپنے بچوں کی صحت، اخلاق اور اچھی معیاری تعلیم پر زور دینا چاہیے تاکہ وہ مستقبل میں آنے والے حالات اور مسائل کا علم کی روشنی میں پامردی کے ساتھ مقابلہ کرسکیں۔ اچھی طرح سمجھ لیجیے تعلیم ہی ہمارا قومی انشورنس ہے۔لہٰذا تعلیم کے بغیر ہم موجودہ دنیا میں نہ تو جی سکتے ہیں اور نہ آگے بڑھ سکتے ہیں۔ لہٰذا تعلیم ہمارے تمام مسائل کا پہلا حل ہے۔
ہمارا دوسرا مسئلہ مسلک، جماعت، ذات برادری کی خانہ زاد تقسیم ہے۔ ہم نے مسلک اور برادری کے نام پر چین کی دیوار سے بھی زیادہ مضبوط، لمبی اور چوڑی دیوار چن رکھی ہے اور کہیں اس میں در اور درہ نہیں چھوڑا ہے، نتیجہ ہے کہ اٹھارہ بیس کڑور کی ایک مضبوط ملت چھوٹی چھوٹی اکائی میں بٹ کر اور بکھر کر کسی کے لیے بھی نرم چارہ بن جاتی ہے اور اس انتشار نے اس کی ہوا اکھاڑ دی ہے۔ ہمارے درمیان ایسے غازیان دین ہیں جو پورے ایمانی جذبے کے ساتھ پورے جوش و خروش سے مسلمانوں کو آپس میں بانٹنے اور کاٹنے میں لگے ہیں گویا ان کے نزدیک یہی اس وقت سب سے بڑی دینی ضرورت بلکہ عین تقاضہ دین ہے۔ جب کوئی قوم نوشت دیوار دیکھنے کے باوجود خودکشی پر آمادہ ہوجاتی ہے تو کون اس کو بچاسکتا ہے؟ لہٰذا وقت اور حالات کا تقاضہ یہ ہے کہ مسلمان ایسی نادانی سے اور ایسے نادان دوستوں کے حصار سے باہر آئیں اور مسلمان نوجوانوں کی ذمہ داری ہے کہ ملت میں اتحاد اور اجتماعیت کا ماحول بنائیں اور انتشار پسند قوتوں کو آپس میں لڑانے اور بانٹنے سے روکنے کی کوشش کریں۔ اگر ہم آپس میں جوڑ پیدا کرنے میں ناکام رہے تو پھر دوسروں پر الزام دینے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ لہٰذا آپسی اتحاد ہمارے مسئلہ کا دوسرا حل ہے۔
تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ ہندوستان ایک تکثیری اور ملا جلا سماج(Plural & Composite Society)ہے جہاں ہر شہر، ہر گاؤں اور ہرمحلے میںتمام قوموں اور برادریوں کے لوگ رہتے ہیں۔ ملک میں بڑھتی فرقہ پرستی، نفرت اور تشدد کی وجہ سے لوگوںمیں گھیٹو منٹلٹی پیدا ہوگئی ہے اور ایک شہر،محلے اور گاؤں میں رہنے کے باوجود لوگ ایک دوسرے سے الگ تھلگ رہتے ہیں اور لوگوں کا سماجی رابطہ کمزور ہوتا جارہا ہے۔ یہ صورتِ حال فرقہ پرستوں کے لیے بہت سازگار ہے جس کی وجہ سے وہ سماج میں نفرت کا ماحول پیدا کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔یہی نفرت چھوٹی چھوٹی بات پر تشدد اور فساد کا پیش خیمہ بن جاتی ہے۔ لہٰذا ممکن ہے اکثریتی آبادی کو ہماری ضروری نہ ہو، مگر ملک میں سماجی امن اور فرقہ وارانہ خیرسگالی کے لیے ایک پرامن فضا بنانا ہماری ذمہ داری ہے اور ملک و قوم سے محبت کی علامت بھی۔ اس لیے ہم کو اپنی گھیٹو منٹلٹی سے باہر آنا ہوگا اور وسیع تر انسانی مفاد کی خاطر اپنے ہم سایہ اور پڑوسیوں سے اچھے انسانی رشتہ کو مضبوط کرناہوگا۔ غربت، بیماری، ظلم و نا انصافی، حق ماری اور استحصال صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ہندوستان کی غالب اکثریت کا مسئلہ ہے جس میں ہر قوم برادری اور جنس کے لوگ شریک ہیں۔ لہٰذا ہم صرف اپنی ہی فکر کریں اور دوسروں کو چھوڑ دیں یہ صحیح حکمت عملی نہیں ہوگی، بلکہ اس کا نقصان ہوگا۔ لہٰذا ہمیں اپنی ذہنیت اور طرزِ عمل کی اصلاح کرنی ضروری ہے۔ اس معاملے میں ہمیں پہل کرنی چاہیے۔ ہماری طرف سے جو بھی سماجی بھلائی کے کام ہوتے ہیں اس کا دروازہ تمام قوموں اور برادریوں کے لیے کھولنا چاہیے۔ لوگوں کے دکھ سکھ میں کھل کر شریک ہونا چاہیے اور اپنی طرف سے ہر وقت اور ہرحال میں خیر کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ میں اس وقت اللہ کے رسولؐ کی تین حدیثیں آپ کے علم میں لانا چاہتا ہوں جس سے ہمارے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا جس کا مفہوم یہ ہے کہ میرے رب نے مجھے نو باتوں کا حکم دیا ہے جس میں دو باتیں یہ ہیں ایک جو مجھ سے کٹے میں اس سے جڑوں اور دوسرا جو میرا حق نہ دے، میں اس کو اس کا حق دوں۔ دوسری حدیث میں آپؐ نے بتایا کہ دینے والا ہاتھ لینے والے سے ہمیشہ اوپر ہوتا ہے۔ آپؐ نے ہدایت کی کہ تم دینے والے ہاتھ بنو۔ تیسری حدیث ہے کہ لوگوں میں سب سے اچھا وہ ہے جو تمام لوگوں کی بھلائی کے لیے کام کرتا ہے۔ ہمارے پاس ایسی روشن ہدایات موجود ہیں اور خود حضورﷺ کا اسوہ موجود ہے۔ اس کے باوجود ہم کیوں بند خول میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ یہ میری سمجھ سے باہر ہے۔
لہٰذا مسلمان اس وقت صرف تین کاموں پر توجہ دیں تو نہ صرف بگڑی تقدیر سنور سکتی ہے بلکہ موجودہ حالات و مسائل پر کارگر طور پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ پہلا اچھی، معیاری اور سب کی تعلیم، دوسرا آپسی اتحاد اور بھائی چارہ اور تیسرا وسیع تر انسانی سوسائٹی سے بے لوث رابطہ اور ان کی خدمت و دل جوئی۔ آپ ان نسخوں کو آزما کے دیکھئے انشاء اللہ قوم ضرور شفایاب ہوجائے گی۔
(بصیرت فیچرس)
Comments are closed.