ہم سب مجرم ہیں

سمیع اللہ ملک
ہاں حالات توخراب ہیں،بہت خراب…..لیکن کیوں ہیں؟میں نہیں جانتا،سوچتاضرورہوں اورمیں اس نتیجے پرپہنچا ہوں کہ میں اصل نہیں ہوں جعلی ہوں۔ایک کشتی کی بجائے بہت سی کشتیوں میں سوارہوں۔ایک راستہ چھوڑکربہت سے راستوں پرگامزن ہوں۔ادھورااورنامکمل ہوں میں۔میں اپنااعتمادکھوبیٹھاہوں اورسہاروں کی تلاش میں ہوں۔میں اتناتوجانتاہی ہوں کہ بیساکھیوں سے میں چل تولوں گالیکن دوڑنہیں سکوں گاپھربھی بیساکھیوں کاسہارا…!میں گلے اورشکوے شکائت کرنے والابن گیاہوں…مجھے یہ نہیں ملا، میں وہ نہیں پاسکا،ہائے اس سماج نے تومجھے کچھ نہیں دیا،میرے راستے کی دیواربن گیا ہے۔میں خودترسی کا شکارہوں،میں چاہتا ہوں کہ ہرکوئی مجھ پرترس کھائے،میں بہت بیچارہ ہوں،میراکوئی نہیں۔میں تنہاہوں،مجھے ڈس رہی میری اداسی…..ہائے میں مرگیا ،ہائے میں کیاکروں، میں مجسم ہائے ہوں۔میں کیاہوں،میں کون ہوں مجھے کچھ معلوم نہیں۔ عجیب سے مرض کاشکارہوں میں۔بس کوئی مجھے سہارادے،کوئی میراہاتھ تھامے،کوئی مری بپتاسنے……بس میں اورمیری کاچکر۔میں اس گرداب میں پھنس گیاہوں اورنکلنے کی کوشش کی بجائے اس میں غوطے کھارہاہوں۔میں حقائق سے آنکھیں چراکرخواب میں گم ہوں۔ہرشے بس مری دسترس میں ہوجبکہ میں جانتاہوں کہ میں کن کہہ کرفیکون نہیں دیکھ سکتا،پھر بھی…!
میں اس پرتوکبھی غورہی نہیں کرتاکہ میں نے کیادیالوگوں کو!اس سماج کومیں نے کیا دیا!میں دیناجانتابھی ہوں یامجھے بس لیناہی آتاہے؟کبھی نہیں سوچا میں نے۔مجھے خودسے فرصت ملے توسوچوں بھی ناں!میں نے کسی سے محبت کادعوی کیا،جینے مرنے کی قسمیں کھائیں اورپھراسے دھوکا دیا،اس کے اعتماد سے کھیل گیا۔ایساہی کیاناں میں نے!میں اسے کوئی جرم نہیں سمجھتا۔کسی نے مجھ سے ہمدردی کی،میراساتھ دیا،مجھے اپنے کام میں شریک کیااورمیں نے کیا کیا؟جب میراہاتھ کشادہ ہواتواسے چھوڑکردوسروں کے پاس جابیٹھا، ایساہی کیاناں میں نے،میں نے اپنی چرب زبانی سے لوگوں کی جیبوں سے پیسے نکالے، انہیں سہانے خواب دکھائے،مفلوک الحال لوگوں کوجعلی پلاٹ فروخت کردیئے،کسی غریب نے قرض لے کرمجھے پیسے دیئے کہ میں اسے باہربھیج دوں تاکہ اس کاہاتھ کشادہ ہو،میں نے کسی اورکے ہاتھ بیچ ڈالا،اس کاپورامستقبل تباہ کرڈالا۔میں نے اپناپیٹ بھرنے کیلئے ہر وہ کام کیاجس پرمجھے شرم آنی چاہیے لیکن میں اترائے پھرتاہوں۔میں نے بڑے لوگوں سے تعلقات بنائے اس لئے کہ وہ میرے کرتوتوں میں میری معاونت کریں۔میں نے غنڈوں اوربد معاشوں کی فوج تیار کی اورخاک بسر لوگوں کوزندہ درگورکردیااورپھربھی میں معززہوں۔میں نے بینکوں سے فراڈ کے ذریعے بھاری رقوم کاہیرپھیرکیااورکئی ایکڑپر محیط فارم ہاس بناکراس میں عیش وعشرت سے رہنے لگا،اپنے جرائم کومیں دیکھتاہی نہیں ہوں۔میں نے قبرستان میں کئی مردے دفن کئے اورخودکبھی نہیں سوچاکہ مجھے بھی یہاں آنا ہے ۔میں نے جعلی ادویات بنائیں،انہیں فروخت کیااوراپنی تجوریاں بھرلیں،میں نے مذہب کوپیسہ کمانے کاذریعہ بنالیا۔میں ایک بہت اچھابہروپیا ہوں جوایساروپ دھارتاہے کہ اصل کاگمان ہو۔میں نے لوگوں کی فلاح وبہبودکاکام بھی اس لئے کیاکہ لوگوں میں میری واہ واہ ہواورسماج میں میری وقعت بڑھے اورپھراس کوبھی پیسے کمانے کاذریعہ بنالیا۔ میں نے چندروپوں کاراشن تقسیم کیااوراپنی اس سستی شہرت کیلئے اس سخاوت کی تصاویربنواکراخبارات کوجاری کیں،ان کوبارباردیکھ کراپنے نفس کوخوب موٹاکیا۔میں نے رشوت لی،حق تلفی کی،ہرناجائزکام کیااورجائزکام والوں کوراستہ ہی نہیں دیاجب تک میری جیب نہ بھردی انہوں نے۔عجیب ہوں میں،بندہ نفس،بندہ مکروفریب،بندہ حرص وہوا۔
ہم سب مجرم ہیں،کہتے کچھ ہیں کرتے کچھ ہیں،اگرکسی نے مجھے گالی دی میں نے اس کوقتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کیااورجب اللہ کے قا نون کوتوڑا گیا میں بس ٹی وی کے سا منے بیٹھادیکھتااورتبصرہ کرتارہ گیا۔میں نے ملک اوراس میں رہنے والے معصو م لوگوں کیلئے آخرکیا کیا؟سوائے جمع زبانی خرچ کے ،پھرجب میں ہلکان ہ گیا،مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہاتھا کہ میں اس عذاب سے جومیں نے اپنی غلط کاریوں کی بدولت خریداہے اس سے نجات کیسے حاصل کروں۔تب میں نے پہلے اقرارکیا اپنی خطاں کااپنے رب کے سا منے اورپھرعزم کیا:نہیں اب میں بندہ نفس نہیں،بندہ رب بننے کی کوشش کروں گا۔یہ بہت مشکل ہے،بہت زیادہ……لیکن میں نے اپنے رب کوسہارا بنالیااور میرے زخم بھرنے لگے،پھر ایک دن ایسابھی آیا کہ میں نے تہیہ کرلیا کہ میں اپنے لئے نہیں خلق خدا کیلئے زندہ رہنے کیلئے کوشش کروں گا۔
آپ رب کریم کاسہاراپکڑلیں تومشکلیں آسان ہوجاتی ہیں۔مجھے بہت الجھن ہونے لگتی تھی کہ میں عذاب اورآزمائش میں فرق کیسے کروں،تب میں نے اپنا مسئلہ ان کے سا منے رکھ دیا،بہت دیر تک دیکھتیاورمسکراتے رہے،پھرایک ہی چٹکی میں یہ مشکل بھی حل کردی۔دیکھ بہت آسان ہے عذاب اورآزمائش میں فرق رکھنا،جب کوئی پریشانی،مصیبت،دکھ یاکوئی مشکل آئے اوروہ تجھے تیرے رب کے قریب کردے توسمجھ لے یہ آزمائش ہے اورجب کوئی پریشانی،مصیبت،دکھ یاکوئی مشکل تجھے رب سے دورردے توسمجھ لے یہ عذاب ہے،توبہ کاوقت ہے،ضرورکرتوبہ اورجلدی کراس میں!
ہمارے چاروں طرف کیاہورہاہے،ہمیں خوددیکھنااورسوچناچاہیے،ہم اجتماعی آزمائش میں مبتلاہیں یااجتماعی عذاب میں؟”پس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت سے انکار کروگے” ۔مجھے اپنے اندر سے کہیں یہ آوازآرہی ہے کہ”پلٹ آ،یہ جہنم سے رہائی کامہینہ،توبہ کابہترین موقع،گریہ وزاری کرنے کی راتیں،اپنے رب کی طرف پلٹنے کاوقت،جلدی کر نادان ،ایسا نہ ہو کہ دروازے پر منادی دینے والاپھر نہ لوٹے،یہ ہمارے بابا اقبال کیا کہہ رہے ہیں
رحمت یہ چاہتی ہے کہ اپنی زباں سے
کہہ دے گناہ گار کہ تقصیر ہو گئی
(بصیرت فیچرس)
Comments are closed.