رام چرتر مانس اور ہندوستانی مسلمان

ڈاکٹر سید ابوذر کمال الدین
سابق وائس چیئرمین، بہار انٹرمیڈیٹ ایجوکیشن کونسل

دنیا کی قدیم اور جدید تاریخوں میں ہر ملک اورہر قوم میں ایسے بڑے لوگ ہوئے ہیں جنھوں نے نسلوں اور تہذیبوں کو متاثر کیا ہے۔ ہندو مائتھولوجی میں ایسی بے شمار شخصیتیں ہوئی ہیں جنھوںنے لوگوں کے ذہن و نفسیات پر گہرے اثرات ڈالے ہیں۔ میں یہاں ان کی تاریخیت پر بحث نہیں کروں گا کہ ان میں کتنی حقیقت ہے اور کتنا افسانہ، میں جو Popular Beliefہے اسی کو حقیقت مانتے ہوئے اسی کی بنیاد پر آپ سے اپنے خیالات شیئر کرنا چاہتا ہوں اور یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہندوستان کی مشہور مائتھولوجی اور اس کی روایات ہمارے حق میں ہیں اورہمیں ان سے استفادہ کرنے میں کوئی جھجھک نہیں ہونی چاہیے بلکہ اپنی بحث میں ان روایات اور مثالوں کو شامل کرکے ملک کی اکثریتی آبادی سے ایک نیا سنواد شروع کرنا چاہیے۔
اس وقت ملک میں رام کے نام پر جو وبال مچایا جارہا ہے اور جیسی دھروی کرن کی جارہی ہے ضرورت ہے کہ رام کے آدرش کو مثال بناکر لوگوں کو بتائیں کہ ہمارے ہندو بھائی جس رام کی پوجا کرتے ہیں ہم ان کی پوجا نہیں کرتے کیونکہ وہ ایک انسان ہیں، خدا نہیں ہیں۔ ہم صرف ایک خدا کی پوجا کرتے ہیں جو کسی ماں کے پیٹ سے پیدا نہیں ہوا ہے۔ جو لوگ انسان ہیں چاہے وہ پیغمبر ہوں یا بھگوان جو ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے ہیں وہ ایشور اور خدا نہیں ہوسکتے بلکہ وہ اللہ کے بندے اور غلام ہیں۔ اس کی حاکمیت میں شریک اور ثانی نہیں ہیں، خدا خالق ہے مخلوق نہیں ہے، نہ وہ پیدا ہوتا ہے اور نہ مرتا ہے۔ اس اعتبار سے کسی انسان یا مظاہر قدرت کی کسی چیز کی پوجا کرنا خلافِ عقل ہے۔ یہ بات اتنی واضح اور منطقی ہے کہ اس پر بحث کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ہم ان کا احترام کرتے ہیں لیکن ان کی پوجا نہیں کرتے کیونکہ پوجا بھکتی اورپر ستش صرف ایک خدا کی کی جاتی ہے جو کسی سے پیدا نہیںہوتا بلکہ سب کو پیدا کرتا ہے۔ بقول گرونانک اس کی زبان سڑ جائے جو یہ کہتا ہے کہ خدا ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے۔
بہرحال آپ چاہے رام کو بھگوان مانتے ہوں یا آدرش پرش میں حالات اور واقعات کی روشنی میں ان کے Remarkable Characterسے آپ کو متعارف کرانا چاہتا ہوں اور یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہم رام کے آدرش کااحترام کرتے ہیں۔
رام نے جب اپنے باپ کا وچن نبھانے کے لیے ۱۴ سال کے بنواس پر جانا منظور کرلیا اس وقت ان کی بیوی سیتا اور ان کا چھوٹا بھائی لکشمن بھی ان کے ساتھ بنواس پر چلے گئے۔ راون جو ہر قیمت پر سیتا کو حاصل کرنا چاہتا تھا جب اس نے سنا کہ رام اپنی راج دھانی چھوڑ کو بنواس چلے گئے ہیں اوروہاں نہ ان کے پاس کوئی فوج ہے اور نہ حامیوں کی جماعت وہ تنہا ہیں، مسافرت میں ہیں، کمزور اور اقلیت میں ہیں۔ پھر بھی اس نے رام سے مقابلہ کرنے کے بجائے چھل سے اس وقت جس وقت رام وہاں موجود بھی نہیں تھے، سیتا کا اپہرن کرلیا۔ یہ رام کے لیے کتنی اپمان جنک استھیتی تھی اس کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اس حادثے کے بعد رام نے جس صبر، ہمت، ساہس اور Resilienceکا مظاہرہ کیا وہ ہمارے لیے ایک ایسا آدرش ہے جس سے ہم وقت کے راون کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ راون نے رام سے اس وقت لڑنے کی ہمت نہیں کی جب وہ شاہی محل میں ایک راج کمار کی طرح تھے اور ان کی پشت پر حکومت کی طاقت تھی۔ راون نے کمال بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے رام کی عزت پر اس وقت حملہ کیا جبکہ وہ بنواس میں تھے، محض تین تھے اور کوئی دوسرا ان کے ساتھ نہ تھا۔ کسی کو کمزور جان کر حملہ کرنے میں بہادری نہیں ہے، بزدلی ہے۔ اور راون اس کے باوجود کے ایک پرتاپی، گیانی اور بلوان راجہ تھا رام پر حملہ کرنے کے لیے اس وقت اور اس مقام کو چنا جب راون کے خیال میں وہ سب سے کمزور تھے اور اس کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے۔ اس صورت میں رام کے سامنے ذلت کاگھونٹ پینے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ میںنے رام کے چرتر کو جتنا پڑھا اور سمجھا ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس صورتحال میں رام کے من میں شمہ برابر بھی یہ خیال نہیں آیا کہ چونکہ حالات بدل چکے ہیں اس لیے بنواس کے وچن کو توڑ کر ایودھیا لوٹ چلتے ہیں، وہاں اپنی اور جنک پور کی سینا کو ساتھ لے کر راون پر حملہ کردیتے ہیں اور پھر اسے شکست دے کر یا مار کر سیتا کو اس کی گرفت سے آزاد کراکر باعزت واپس لے آتے ہیں۔ رام نے وہیں جنگل میں رہنے کا فیصلہ کیا اور یہ پرن لیا کہ جب تک سیتا کو واپس نہیں لاتے ہیں اس وقت تک ایودھیا نہیں لوٹیں گے۔ یہیں پر رام کا کردار ہمارے لیے ایک مثالی کردار بن جاتا ہے۔
رام نے ان حالات میں اپنا آپا نہیں کھویا۔ اپنی ہمت نہیں ہاری۔ ڈر اور بزدلی کو اپنے اوپر طاری نہیں ہونے دیا۔ حالات سے مایوس اور بددل نہیںہوئے اور اپنی شکست تسلیم نہیں کی، بلکہ انہیں ان حالات نے اور جری اور بہادر بنادیا۔ انھوں نے جذبات اور غصہ سے مغلوب ہوکر کوئی کاروائی کرنے کے بجائے اپنے آس پاس کا جائزہ لیا اور اپنی کمزوری کو اپنی طاقت میں تبدیل کردیا۔ انھوںنے جنگل کے آدی باسیوں کو چرندوں اور پرندوں کو اپنا ہم نوا بنایا۔ ان کے اندر وفاداری اور جانثاری کی خو پیدا کی۔ ان کو ٹریننگ دی۔ ان کو ایک قیادت کے تحت کام کرنے کی ڈسپلن سکھائی۔ ان کو ان کی اندرونی طاقت، خوبیوں اور کمالات سے واقف کرایا۔ اس طرح جانثاروں، وفاداروں اور ایک ڈسپلن کے ماتحت فرمانبرداروں کی ایک فوج تیار ہوگئی۔ تب انھوںنے راون جو بلوان، دھن وان، گیانی، ہر طرح کے چھل اور پر پنچ میں ماہر ایک کرشماتی راجہ تھا اس کی شاہی سینا کے سامنے اپنی Non-regular Armyکو اتار دیا اور اس کے ذریعہ راون کا ودھ کر اپنی سیتا کو آزاد کرایا اور اس طرح پوری عزت و شان کے ساتھ اپنا وچن پورا کرکے ایودھیا واپس آگئے۔
آج ہندوستانی مسلمان بھی انہی نفسیاتی دباؤ سے گزر رہے ہیں جن حالات میں رام اپنے بن باس کے دنوں میں تھے۔ حضورؐ کی ایک حدیث ہے جس کا مفہوم ہے کہ حکمت کی باتیں جہاں سے ملے اسے اپنا لو کیونکہ حکمت مومن کی گمشدہ پونجی ہے۔ دنیا کی ہر قوم کی تاریخ میں ہمیں ایسے واقعات مل جائیں گے جو ہمارے لیے مشعلِ راہ بن سکتے ہیں۔ آج اسی رام کے نام پر، ان کی مریادا کو تار تار کرتے ہوئے رام کے ماننے والے راون جیسا برتاؤ کررہے ہیں۔ان کوہمیں رام کی حکمت و دانائی، ہمت و حوصلہ اور انتظامی صلاحیت سے استفادہ کرتے ہوئے وقت کے راون کو جو بڑا بلوان، پرتاپی، چتر، گیانی، دھن وان اور ان گنت ہیں ان کو مات دینا ہے۔ یہ وقت ڈرنے کا نہیں ہے، نہ بزدلی دکھانے کا ہے اور نہ ہمت ہار کر سپر ڈال دینے کا۔ یہ وقت ہے اپنی خوابیدہ کھوئی ہوئی صلاحیتوں کو جگانے اور واپس لانے کا۔ اپنے رینک اینڈ فائل میں خود اعتمادی اور حوصلہ مندی پیدا کرنے کا۔ انہیں جوڑنے، تربیت دینے، وفاداری اور جانثاری سکھانے کا۔ ان کے اندر ڈسپلن اور اطاعت گزاری کی خو پیدا کرنے کا۔ ان کے اندر ایک مقصد کی خاطر جینے اور مرنے کاجذبہ پیدا کرنے کا۔ پھر آپ دیکھیں گے کہ اس کے کیا معجزاتی نتائج پیدا ہوتے ہیں۔ لہٰذا انگریزی کا ایک مقولہ ہے Stop worrying. start working یعنی تردد چھوڑئے اور کام شروع کردیجیے۔ ہندوستان کی مائتھولوجی اور روایات کا یہ ایسا لاؤڈ اور کلیر میسج ہے جس کی بازگشت ہمیں سننی چاہیے اور اپنی کمزوری کو طاقت بنانے کا گُر جہاں سے بھی ملے اسے سیکھنے اور اپنانے میں سنکوچ نہیں کرنا چاہیے۔
(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.