Baseerat Online News Portal

سیاسی تبدیلی ممکن ہے، مہاراشٹر کا ملک بھر کو پیغام

شکیل رشید(ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)
’جیسا بوؤگے ویسا ہی کاٹوگے‘!
اِن دنوں مہاراشٹر میں جو سیاسی بھونچال آیا ہوا ہے اس پر یہ کہاوت صادق ہوتی نظر آتی ہے ۔ یوں لگتا ہے کہ بی جے پی نے اپنی ترقی اور پھلنے پھولنے کے جو منصوبے بنارکھے ہیں اب ان کے بکھرنے یا باالفاظ دیگر بی جے پی کے زوال کا وقت آپہنچا ہے ۔ ہندوستان کی سیاست میں یہ پہلا موقع ہے جب مختلف نظریات کی حامل سیاسی پارٹیوںنے اپنے سخت ترین حریف کو چاروں شانہ چت کرنے کے لئے اتحاد کی سمت قدم بڑھایا ہے ۔ ان میں شیوسینا ، این سی پی اور کانگریس کے نام سرِفہرست ہیں ۔ بلاشبہ اس سیاسی تماشے میں این سی پی کا کردار محوری رہااور وہ ان تمام پارٹیوں کی صف میں سب سے زیادہ قدآور پارٹی کے طور پر کھڑی نظر آئی ، نتیجہ یہ نکلا کہ بی جے پی جس نے مہاراشٹر اسمبلی چناؤ میں سب سے زیادہ سیٹیں حاصل کرکے ایک بار پھر ہندوستان کی معاشی راجدھانی پر قبضے کے خواب دیکھے تھے، وہ بکھر کر رہ گئے ۔ بی جے پی کو پورا یقین تھا کہ شیوسینا اس سے کسی بھی قیمت میں علیحدگی اختیار نہیں کرے گی ، بلاشبہہ اس کی ایک بنیادی وجہ بھی ہے وہ یہ کہ پچھلے چند برسوں میں ’ ہندوتو‘ کے نعرے لگاکر اور ’ ہندوراشٹر‘ کے قیام کے لئے اقتدار کا غلط فائدہ اٹھاکر ملک کے اکثریتی طبقے کو بی جے پی نے اپنی مٹھی میں جکڑ لیا تھا۔ جہاں تک مہاراشٹر کا تعلق ہے اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بال ٹھاکرے نے مقامی آبادی کو لے کر ایک نئی شروعات کی تھی اور بہت تھپیڑے کھاکر وہ اپنے ’مقصد‘ میں کامیاب ہوئے تھے ۔ لیکن بی جے پی ، شیوسینا کی کامیابی کا سارا سہرا اپنے سرباندھ رہی تھی۔ مہاراشٹر میں آج جو انقلاب نظر آرہا ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بی جے پی کو اس بات کا یقین تھا کہ شیوسینا اس کے ہی بَل بوتے پر اتنی سیٹیں حاصل کرسکتی ہے، اگر وہ تن ِ تنہا الیکشن لڑے گی تو آج جو سیٹیں اس نے حاصل کی ہیں ان سے بھی اسے ہاتھ دھونا پڑے گا ۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کے لیڈر یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ شیوسینا ان کا دامن چھوڑ دے گی ۔ دوسری طرف مہاراشٹر کے سیاسی حالات کا تجزیۂ کیا جائے تو یوں لگتا ہے کہ شیوسینا کی قیات کو بھی یہ احساس ہوچکا تھا کہ بی جے پی ان کی پارٹی کو برابر کا درجہ دینے کی بجائے اسے مسلسل کھائی میں گراتی جارہی ہے ، اور اگر ان حالات کا تدارک نہیں کیا گیا تو مستقبل میں شیوسینا کا وجود صفر ہوکر رہ جائے گا ، کیونکہ ’ ہندوتو‘ کے نام پر ملنے والے ووٹ اس کی جھولی میں نہیں پڑپائیں گے ۔اور اس سوچ کی بنیادی وجہ درحقیقت بابری مسجد ؍ رام مندر کا تنازعہ تھا۔ بی جے پی نے ایودھیا میں اپنا ’ مقصد‘ حاصل کرکے ایک بڑی جنگ جیت لی تھی جس نے اس کے تیور اور سخت کردیئے تھے ۔ یہی وہ پس منظر تھا کہ شیوسینا کے پالیسی سازوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اس بار حکومت سازی میں جھک کر ہر چیز قبول کرنے کی بجائے ہم ڈٹ جائیں اور بی جے پی سے برابری کے درجے کا مطالبہ کریں ۔
اس پس منظر میں مہاراشٹر میں ’ففٹی ففٹی فارمولہ‘ کے تحت شیوسینا نے وزیر اعلیٰ کی گدی کا معاملہ اٹھایا ۔ بی جے پی کے کرتادھرتاؤں کو شیوسینا کی اوقات کا اندازہ تھا ، انہیں لگ رہا تھا کہ یہ پارٹی خالی مطالبات کرے گی پھر مجبور ہوکر ان کا ساتھ دینے پر آمادہ ہوجائے گی۔ لیکن اس لڑائی نے ایک ایسا روپ اختیار کرلیا جو مہاراشٹر میں نہیں بلکہ پورے ہندوستان میں ایک نئے انقلاب کی آمد کا سبب بن سکتی ہے ۔ مہاراشٹر کی سیاست میں جو کچھ ہوا ، ادھوٹھاکرے وزیراعلیٰ کی کرسی تک پہنچے اور دیویندر فڈنویس کو شکست کا منھ دیکھنا پڑا ، اس سارے معاملے میں این سی پی سربراہ شردپوار کے کردار کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں ہے ، بلا شبہہ انہوں نے ریاست کی سیاست میں چانکیہ کا کردار نبھایا اور ادھوٹھاکرے کو بھرپور تسلی دے کر انہیں اس بات کا یقین دلادیا کہ وہ انہیں مہاراشٹر کا وزیراعلیٰ بناکر رہیں گے، اور اگر ادھو نے بی جے پی کے آگے گٹھنے ٹیک دیئے تو پھر آئندہ کے الیکشن میں شیوسینا کا وجود صفر ہوسکتا ہے ۔ اس پوری مدت میں جو ایک مہینے سے زائد عرصے کی رہی ، بی جے پی کی بھرپور کوشش رہی کہ بھلے کچھ ہوجائے وہ اپنی من مانی کرکے رہے گی ، اس ہٹ دھرمی کا نتیجہ تھا کہ اجیت پوار منظر عام پر آئے اور وہ مناظر جو ملک کی جمہوری تاریخ میں کبھی بھی نہیں دیکھنے کو ملے،وہ دیکھے گئے ۔۔۔ راتوں رات صدر راج اٹھایا گیا اور علی الصبح وزیراعلیٰ اورڈپٹی وزیراعلیٰ یعنی فڈنویس اور اجیت پوار نے حلف بھی لے لیا ! لیکن صبح کے اجالے میں جب یہ خبر عام ہوئی تو بی جے پی کی ساری چالاکی اور ’ہوشیاری‘ صفر ہوگئی، انہیں بدترین شکست ، بدنامی اور ذلت سے دوچار ہونا پڑا۔ اگر مہاراشٹر سے صدر راج ختم نہیں کیا جاتا تو یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ اگلے چھ مہینوں میں بی جے پی کوئی ایسا پینترا ضرور چلتی کہ اپوزیشن میں پھوٹ پڑجاتی اور مہاراشٹر میں بی جے پی کی حکومت پھر بن جاتی ۔ لیکن شردپوار کے کردار نے تصویر ایکدم سے بدل دی ۔ انہوں نے ایک تیر سے کئی شکار کئے، ایک تو شیوسینا اور بی جے پی کا برسہا برس کا اتحاد ختم کیا ، دوسرا بی جے پی کو ذلیل کیا ، تیسرا امیت شاہ کو یہ جتا دیا کہ وہ سیاست میں ابھی طفل مکتب ہیں۔ اور چوتھا یہ کہ اپنے بھتیجے اجیت پوار کو ’ ای ڈی‘ سے بچا بھی لیا ! یہی نہیں انہوں نے بی جے پی کو یہ چیلنج بھی دے دیا ہے کہ مہاراشٹر اب اس کے لئے آسان نوالہ نہیں ہے ۔ اب جبکہ مہاراشٹر میںصدر راج ختم ہوچکا ہے اور تمام بڑی پارٹیاں ایک پلیٹ فارم پر آچکی ہیں تو ان سے یہ توقع کی جاتی ہےکہ وہ اگلے پانچ سالوں تک ایسی حکومت چلائیں گی کہ مہاراشٹر کے لوگ واہ واہ ! کرتے رہ جائیں گے ۔ مہاراشٹر کے بہت سارے مسائل ہیں ، کسانوں کی خودکشی ، سوکھا، پینے کے پانی کی قلت، مہنگائی ، بے روزگاری اور فرقہ پرستی ۔ ادھو اور ان کی حلیف پارٹیاں ریاست کو ترقی کی سمت لے جاسکتی ہیں ۔ جب ریاست کی ترقی ہوگی تو ان پارٹیوں کی ترقی اور بی جے پی کا زوال یقینی ہے ۔ سچ یہ ہے کہ بی جے پی کے شاطر پالیسی سازوں وزیر اعظم مودی ، امیت شاہ اینڈ کمپنی نے سارے ملک پر طویل عرصے تک قبضہ برقرار رکھنے اور اسے ’ ہندوراشٹر‘ کی شکل دینے کے جو منصوبے بنارکھے ہیں ، مہاراشٹر کے نتائج نے ان منصوبوں کو بھی زبردست نقصان پہنچایا ہے ۔ یوں لگتا ہے کہ ملک کی سیاسی پارٹیاں اب دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک پلیٹ فارم پر آجائیں گی اورہر ریاست میں مقامی پارٹیوں کو ساتھ لے کر کانگریس ، این سی پی ، سماج وادی پارٹی اور دیگر سیاسی پارٹیاں مہاراشٹر کے ’سیاسی منصوبے‘ کو دوسری ریاستوں میں بھی استعمال کریں گی تاکہ بی جے پی کو شکست دی جاسکے اور ان کے ان عزائم کا خاتمہ کیا جاسکے جو انہوں نے اقلیتوں اور دلتوں اور بچھڑوں کے خلاف اور ’ہندوراشٹر‘ کے قیام کے سلسلے میں بنارکھے ہیں ۔ اگر ساری سیاسی پارٹیاں ایک پلیٹ فارم پر آجاتی ہیں تو پھر ملک میں ’ ہندوتو‘ کے بجائے ’ جمہوری انقلاب‘ کو کوئی بھی روک نہیں پائے گا ۔ مہاراشٹر کے نتائج اور حکومت سازی کا عمل اس لئے قابلِ تحسین ہے کہ اس نے ملک کو، سیاسی پارٹیوں بشمول مقامی پارٹیوں کو ،بی جے پی سے چھٹکارے کی ایک نئی راہ دکھائی ہے ۔ اگر ان سب سیاسی پارٹیوں میں اتحاد ہوجاتاہے تو بی جے پی خود ہی ختم ہوجائے گی اور ہندوستانی عوام ایک جمہوری نظام میں اطمینان کی سانس لے سکیں گے ۔

Comments are closed.