Baseerat Online News Portal

بڑھتی مہنگائی اور سیاسی تماشہ

وصیل خان ( ممبئی اردو نیوز)
مہاراشٹر اسمبلی الیکشن کے تقریباً ایک ماہ سے زائدعرصہ بیت جانے اور انتہائی گھناؤنے سیاسی جوڑ توڑ اور اٹھا پٹخ کے بعد اب جاکے کچھ سیاسی استحکام دکھائی دیا۔ مہا وکاس اگھاڑی سرکار قائم ہوگئی اور ادھو ٹھاکرے نے وزارت اعلیٰ کا حلف لے لیا ۔ لیکن اس عرصے میں سیاسی جوڑتوڑاو رغلیظ پینترے بازیاںدیکھ کر عام شہریوں کا سر مسلسل شرم سے جھکتا رہا لیکن ہمارے لیڈروں کو کوئی خجالت نہیں محسوس ہورہی ہے ،انہیں اس بات کا اندازہ نہیں کہ ان کا یہ عمل عوامی غصے کو کس قدر غضبناک کرسکتا ہے ،رد عمل کے طورپر اگر لوگ سڑکوں پر آگئے تو انہیں قابو میں کرنا آسان نہیں ہوگا ۔مہاراشٹر تو صرف ایک جھلک ہے آج پورا ملک اسی طرح کی افراتفری کا شکار ہے ۔ایسی نازک صورتحال سے یہ ملک اس سے پہلےکبھی دوچارنہیں ہوا تھا ،اس وقت بھی نہیں جب تقسیم کے نام پر ملک اور خاص طور سے سرحدی علاقوں میں خو ن کی ندیاں بہہ رہی تھیں ،لاشوں کے انبارلگادیئے گئے تھے ،گھر جلائے اور لوٹے جارہے تھےاور اس وقت بھی نہیں جب گجرات میںقتل عام کے ذریعےحیوانیت کا ننگاکھیل کھیلاگیا۔لیکن آْج موجودہ حالات یکسر مختلف ہیں ۔ شرپسند عناصر نہ صرف آزاد ہیں بلکہ انہیں سرکاری پشت پناہی بھی حاصل ہے ۔ بڑھتی لاقانونیت نےملک کا نظام ہی تباہ کرکے رکھ دیاہے ۔سر دست مہنگائی کو ہی لے لیجئے جو اسی افراتفری کی کوکھ سے نکلی ہےاور قابو سے باہر ہے ۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ جان لیوا بنتا جارہا ہے ۔ان دونوں پیاز کے بھاؤ پھرآسمان پرہیں ۔ سرکاریں ریاستی ہوں یا مرکزی،سب کا حال ایک جیسا ہے ۔ارباب اقتدار کو اتنی فرصت کہاں کہ وہ ادھر آنکھ اٹھاکر دیکھیں ، وہ توصبح شام سیاسی جوڑتوڑ اور اٹھا پٹخ میں مصروف ہیں ۔کچھ عرصہ قبل بہار میں راتوں رات اقتدار کی تبدیلی کا غلیظ ڈرامہ آپ دیکھ ہی چکے ہیں کہ کس طرح نتیش کمار نے آر جے ڈی کے خیمے سے نکل بی جےپی کا دامن تھام لیا تھا ۔آج انہی جماعتوں کے اشتراک سے وہ دوبارہ اسی وزارت اعلیٰ کی کرسی کے مزے لے رہے ہیں ۔بات مہنگائی کی ہورہی تھی جو سردست ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔معاشی و اقتصادی بدحالی لوگوں کو حیوان بنانےپر تلی ہوئی ہے ۔ اگر ان عوامل پر فوری توجہ نہ دی گئی تو وہ دن دور نہیں جب ملک شدید قسم کی خانہ جنگی کا شکار ہوجائےگا جس کی کچھ جھلکیاں نظر بھی آنے لگی ہیں ۔اری سیکٹر میں موبائل فون کو لے کر گذشتہ دنوں جو تماشا ہوا وہ کس قدر عبرتناک تھا جب سرحد پر تعینات ایک جوان کو اس کے میجر نے فون پر بات کرنےسے منع کیا کہ یہ نہایت حساس جگہ ہے تمہاری ذرا سی غفلت سے سرحد پر طوفان کھڑا ہوسکتا ہے، جوان نے ان سنی کردی ،میجر نے اس کا فون ضبط کرلیا بس اتنی سی بات پر وہ آپے سے باہر ہوگیا ،اس نے میجر شیکھر تھاپا کو AK-47سے بھون دیا ۔دہلی کے دوارکا میں ایک کارنشین کے سامنے سے دولوگ فوری نہیں ہٹے، کار سے چار لوگ اترے ،ان کی پٹائی شروع کردی یہاں تک کہ ان کی جان چلی گئی ۔پون اور پردیپ موٹر سائیکل پر سوار تھے کار والے نے راستہ دینے کو کہا لیکن سامنے گڑھا ہونے کے سبب راستہ دینے میں تاخیر ہوگئی، اتنی سی بات پر کاروالوں کا غصہ ساتویں آسمان پر پہنچ گیا ان میں سے ایک نے پون کو گولی مار کر ہلاک کردیا ۔شمالی دہلی کے میٹرو اسٹیشن کے باہر دو لڑکے نشے میں دھت پیشاب کررہے تھے ایک رکشہ ڈرائیور نے انہیں منع کیا کہ یہ پبلک اسپیس ہے ۔بات ختم ہوگئی لیکن شام کو وہ لڑکے کئی لوگوں کے ساتھ آئے اور رکشہ ڈرائیور کی پٹائی شروع کردی اور اتنا مارا کہ اس نے وہیں دم توڑدیا ۔یہ اور اس جیسے واقعات اب معمول بنتے جارہے ہیں اور روزانہ اخبارات اور ٹی وی چینلوں کے ذریعے ہم تک پہنچ رہے ہیں جنہیں پڑھتے ہوئے روح کانپ اٹھتی ہے ۔لیکن صاحبان اقتدار آرام دہ ایئر کنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھے مخالف پارٹیوں کی کمر توڑنے کے منصوبے بنانے میں مشغول ہیں ۔عوام کے اس بڑھتے غصے اور بے چینی پر کسی کی نظر نہیں جاتی کہ آخر ان کی یہ کیفیت کیوں ہے اور اس کا علاج کیا ہے ۔ظاہر ہے اس کا موثر علاج یہی ہے کہ معاشی و اقتصادی صورتحال کو مزیدبدتر ہونے سے روکا جائے لیکن لیڈران تو دوسرے ہی کاموں میں مصروف ہیں ۔ بازاروں میںنکلتے، بڑے بڑے ساہوکاروں کی خبر لیتے کہ وہ کس طر ح سے لوگوں کا خون نچوڑکر اپنی تجوریاں بھررہے ہیں،لیکن وہ کیسے نکلیں ان کا حصہ تو وہیں پہنچ جاتا ہے ۔آیئے ذرا کچھ پیچھے کے دور میں جھانکیں کہ ذمہ داری کسے کہتے ہیں اور حالات کو کس طرح قابو میں کیا جاتا تھا ۔
پیغمبر آخرالزماںؐ ایک دن مدینہ کے بازار سے گزرے وہاں گیہوں کا ایک تاجر ڈھیر لگائے بیٹھا تھا آپ نے ہاتھ اندر ڈال کے دیکھا تو گیہوں کا اندرونی حصہ گیلا تھا آپ نے کہا کہ یہ عوام کے ساتھ دھوکہ ہے سوکھے گیہوں کی قیمت لے کر انہیں گیلا گیہوں دینا جرم ہے آئندہ ایسا کبھی نہ کرنا اس نے معافی مانگی اور توبہ کرلی ۔آج سارے راشن ہولڈر س دھڑلے کے ساتھ تمام اشیا بلیک کررہے ہیں انہیں کوئی ٹوکنے والانہیں اس لئے کہ اس میں سے اچھا خاصا حصہ انہیں بھی پہنچتا ہے ۔سعودی عرب کے سابق فرمانرواشاہ فیصل نے مہنگائی کاعلاج اس طرح کیا ،انہوں نے ملک کے تمام تاجروں کو طلب کیا اور کہا کہ ہمیں معلو م ہے کہ مہنگائی اس وقت ایک عالمگیر مسئلہ ہے جب پوری دنیا اس مسئلے سے دوچارہے تو سعودی عرب اس مصیبت سے کیونکر محفوظ رہ سکتا ہے لیکن ہماری خواہش ہے کہ آپ سبھی لوگ سال گذشتہ کے نرخ کو قائم رکھیں او ر تمام اشیاپرانے ہی دام میں عوام تک پہنچائیں رہا سوال نقصان کا توآپ لوگ اس کی فہرست بنائیںوہ رقم آپ کو سرکاری خزانے سے ادا کردی جائے گی ۔ عوام کے دکھوںکو محسوس کرنا اور ان کا تدارک و علاج ہی حکمرانی کا اصل مقصد ہوتا ہے اس کے برعکس کوئی بھی طریقہ ملک کو معاشی و اقتصادی بدحالی سے نہیں بچا سکتا ۔بدقسمتی سے آج ہمارے ملک میں یہی ہورہا ہے ۔فرقہ پرستی اپنی حد پار کرتی جارہی ہے ،مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے ،کرپشن ، رشوت خوری اور گھوٹالوں کا بازار پورے شباب پر ہے ۔ بڑے بڑ ے گھوٹالوں سے جب پردے ہٹتے ہیں تو ان بدعنوان سرمایہ داروں اور دلالوں کے ساتھ ہمارے وزرا ء اور بیوروکریٹ کے بھی کالے چہرے دکھائی دیتے ہیں اس کے باوجود کوئی بھی بات انہیں شرمندہ نہیں کرتی ۔ایسے میں روم کے شہنشاہ نیرو کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ روم جل رہا تھا اور لوگوں کی چیخ پکار کی درد ناک آوازوں سے وہ موسیقی کی دھنیں ترتیب دیتا تھا اور بانسری بجاکر خوش ہوتا تھا ۔ آج ہندوستان تیزی سے تباہی و بربادی کی طرف بڑھتا جارہا ہے ۔ذات پات اور مذہب کے نام پر قتل و غارت گری کا بازارگرم ہے اقلیتی طبقات خاص طور سے مسلمانوں کے ساتھ ہر ظلم کو جائز سمجھ لیا گیا ہے اور صاحبان اقتدار ایئر کنڈیشنڈ کمروں میں رنگ رلیوں کی بانسری بجانے میں مصروف ہیں ۔

Comments are closed.