Baseerat Online News Portal

علماء معاشرے میں نشانہ پر کیوں ہیں؟

 

محمد صابر حسین ندوی

[email protected]

7987872043

یہ حقیقت قبول کرنا چاہئے کہ اس وقت علماء کی قدر و قیمت میں حد درجہ گراوٹ ہے، معاشرے میں انہیں ترچھی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے، جبہ، دستار، داڑھی اور ٹوپی کہ شبیہ خوفناکی میں بدل گئی ہے؛ بلکہ دہشت گردی کا عظیم مجرم اور قوم کا لٹیرا تصور کیا جاتا ہے، کئی دفعہ علاقوں میں بگاڑ و فساد اور ٹکڑے ٹکڑے گینگ سے بھی مخاطب کیا جاتا ہے، وہ عالم دین ہیں، ان کی فضیلتیں بے پناہ ہیں؛ لیکن وقت اور حالات نے ایسی کروٹ لی ہے کہ اب موسم بہار میں بھی وہ گل اور بوٹے نہیں کھلتے؛ بلکہ اکثر چمن بےزار ہونے کا خطرہ رہتا ہے، چنانچہ علماء کا گروہ بھی اب امامت، جماعت اور استاذی جیسے عہدوں سے وہ آگے نہیں نکل پاتا، جن کے پاس تمام مسائل کا حل اور وقت کی باگ ڈور سنبھالنے کی صلاحیت تھی، جو انبیاء کے وارثین تھے، جن سے ہدایت و رشد اور انسانیت چشمہ پھوٹنا تھا، وہ مشکوک ہیں، لوگوں کو چبھتے ہیں، طعن و تشنیع اور فقرہ بازیاں کی جاتی ہیں، طرز رہائش سے لیکر طرز زندگی تک ان کو گھیرا جاتا ہے، غیروں کو چھوڑئے__! وہ تو ایک خاص ہیولے میں ہیں، وہ غلط فہمیوں اور صہیونی و صلیبی سازشوں کی زد میں ہیں؛ لیکن مسلمانوں کا طبقہ خود اپنے اس عظیم رہنما اور خیر خواہ کو غدار قوم اور قدامت پسندی کے الزام میں جکڑ کر نقشہ حیات سے مٹادینا چاہتا ہے، ان کی ہر ممکن خدمات پر سوالیہ نشان لگا کر دنیا کی تمام پریشانیوں کا ذمہ دار قرار دینا چاہتا ہے، اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ کچھ صاحب دل اور دین پسند لوگ ان کی قدر و تعظیم کرتے ہیں؛ مگر دیانتداری کے ساتھ دیکھا جائے تو ان کی شرح آٹے میں نمک کے برابر بھی نہ ہوگی۔

افسوس کا مقام ہے کہ علماء کی یہ روحانی جماعت نشانہ پر ہے، مگر یہ سوچنا بھی ضروری ہے؛ کہ یہ روایت کیسے پڑ گئی؟ کیوں لوگوں نے یوں ترشی دکھائی اور اپنے ہی قائدین سے بد ظن ہوگئے؟ قرآن کریم میں اس کا جواب موجود ہے، قرآن نے مقبولیت کیلئے ایک اصول نقل کیا ہے، اور وہ نافعیت ہے ___ یعنی انسان دوسروں کیلئے نافع بن جائے، خیر خواہ بن جائے، مخلص ہو کر انسانیت پسند ہوجائے، حضرت مولانا سیدی ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ بارہا فرمایا کرتے تھے؛ کہ نافعیت ہوگی تو زمانہ آپ کے قدموں میں ہوگا، اگر آپ کسی پہاڑ پر بھی بسیرا کر لیں گے، تو بھی لوگ آپ سے استفادہ کیلئے وہاں پہونچ جائیں گے، اگر آپ نے خود کو گھر میں بند کر لیا، دروازے پر تالا ڈال لیا تب بھی لوگ دیواریں پھاند کر آپ تک پہونچیں گے، آپ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کریں گے، آپ کی تعظیم کریں گے، آپ سے محبت کریں اور آپ کیلئے قربان ہوجانے کا جذبہ دکھائیں گے___ اس پیرائے میں علماء کرام کی حالیہ زندگی پر نظر ڈالیں__!!! ان کی زندگی ایک دائرہ میں سمٹ کر رہ گئی ہے، وہ علم کے نام پر ایک خاص نصاب کے عادی ہوگئے ہیں، جس زمانے میں شعبہائے جات کی کثرت اتنی ہوگئی ہو کہ اس کا اندازہ لگانا بھی اور شمار کرنا بھی مشکل ہو اس وقت علماء ایک خاص دھڑے پر پیر جمائے رہیں، تو کیسے نافع بن پائیں گے_؟ فرسودگی اور قدامت کو_ روایات اور واقعات کو ہی لازم جان لیں گے اور جدید تھنک ٹینک کو رائیگاں سمجھیں گے تو کیونکر ٹکنالوجی کی یہ صدی ان کے سامنے آئے گی_؟ بلاشبہ ایک بڑا طبقہ ان سے استفادہ نہیں کر سکتا، وہ بولیں تو قوم کی زبان نہیں آتی، قوم کو مخاطب کرنے کا نبوی طرز ہی ندارد ہے، مسلکی اختلافات اور تعصب سے بھرے پڑے ہیں، ایسے میں کیونکر قدر ہو؟ کیونکر کوئی انہیں منہ لگائے؟ ضرورت ہے کہ خود کو نافع بنائیں ورنہ جھاگ کی کوئی قیمت و قدر نہیں ہوتی۔

Comments are closed.