Baseerat Online News Portal

آج کے علماء غیر موثر کیوں؟

 

عاطف سہیل صدیقی

 

ہندو پاک میں مدارس اسلامیہ کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ ملت اسلامیہ ہر سال اربوں روپیے مدارس پر خرچ کررہی ہے اور ہر سال ان تمام مدارس سے مجموعی طور پر ہزاروں علماء فراغت حاصل کرکے مولوی اور مفتی بن کر قوم کی خدمت کے لیے تیار ہوکر میدان عمل میں قدم رکھ رہے ہیں۔ جس تعداد میں ہر سال علماء کی جماعت اور کھیپ تیار ہو رہی ہے اس حساب سے اسکا مثبت اثر معاشرے پر نظر آنا چاہیے۔ لیکن اگر ہم مسلم معاشرے کا محاسبہ کریں تو پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا قوم کے حالات بدل رہے ہیں؟ دوسرا سوال، کیا علماء کی یہ جماعت اپنے مقصد کو حاصل کر رہی ہے؟ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں سوالات کے جواب مایوس کن ہی ہیں۔ معاشرے میں بددینی اور بے راہ روی عروج پر ہے۔ مساجد نمازیوں سے خالی ہیں۔ مسلم معاشرے میں سودی کاروبار خوب پھل پھول رہا ہے۔ بے حیائی اور بے پردگی عام ہے۔ قوم کی اخلاقی حالت بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے ۔ اور اس قدر بدتر ہو رہی ہے کہ مسلم معاشرہ اوہام پرستی، جہالت، بدعات و خرافات، جھوٹ، گالی گلوچ، غیبت، کینہ، بغض، وعدہ خلافی، دھوکہ دہی، غصب، حقوق کی ادائیگی میں ناکامی جیسے عیوب کا مترادف بن چکا ہے۔ وہ قومیں جن کے پاس اخلاقیات کا کوئی معیار نہیں ہے وہ ہم پر ہنس رہی ہیں ۔ ہمارا مذاق اڑا رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب ہر سو مدارس کا نظام قائم ہے اور ہزارہا ہزار علماء ہر سال تیار کئے جارہے ہیں تو قوم اس قدر بدتر حالات سے دوچار کیوں ہے؟ آخر یہ علماء جا کہاں رہے ہیں؟ معاشرے پر یہ اثر انداز کیوں نہیں ہو رہے ہیں؟ معاشرے کی اصلاح کرنے میں یہ ناکام کیوں ہیں؟ ان کے چاروں طرف بسے اور ان سے وابستہ مسلمان معاشرتی اور اخلاقی پستی کا شکار کیوں ہیں؟ ان مدارس کی چاردیواری کے نیچے ہی بددینی اور مذہب بے زاری کا بازار گرم کیوں ہے؟

 

دراصل اس ناکامی کے پیچھے آج کے علماء کی اس تربیت کا فقدان ہے جو ہمارے اکابر علماء کی تربیت کا جز لاینفک تھی۔ یعنی تزکیۂ نفس۔ آج کے دور میں تزکیۂ نفس کا مکمل فقدان ہے۔ اس کی کوئی صورت باقی نہیں رہی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفتِ حمیدہ بیان کرتے ہوئے مسلمانوں کی تربیت کی جو ترتیب اللہ تعالی نے ارشاد فرمائی ہے وہ بہت اہم ہے۔ارشاد ہے: يتلواعليهم ءايته ويزكيهم ويعلمهم الكتاب والحكمة. یعنی قرآن کریم کے الفاظ کی تعلیم کے بعد جو سب سے اہم کام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد کیا گیا تھا وہ تزکیۂ نفس تھا اور اس کے بعد ہی قرآن کریم کے احکامات اور حکمت و دانائی کی تعلیم کی ذمہ داری۔ اس ترتیب پر غور کیجئے اور آج کے ہمارے علماء کی تعلیم و تربیت کی ترتیب پر غور کیجئے تو واضح دکھائی دیتا ہے کہ درمیان کا جز پوری طرح سے ندارد ہے۔ جبکہ تعلیم و تربیت کی یہی ترتیب ہمارے اکابرین کی زندگیوں میں صاف دکھائی دیتی ہے۔ اپنے زمانے میں حجۃ اللہ فی الارض شیخ الاسلام والمسلمین امام محمد قاسم نانوتوی نوراللہ مرقدہ، امام ربانی حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی قدس سرہ العزیز ، مجدد ملت حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی علیہ الرحمہ جبال علم تھے لیکن تزکیۂ نفس کے لیے انتخاب کیا سید الطائفہ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی نوراللہ مرقدہ کا جو کہ باضابطہ عالم بھی نہیں تھے۔ حاجی صاحب کے ہاتھوں ان جبال علم کی ایسی منجھائی ہوئی کہ پھر معاشرے نے انکے اثر کو نمایاں دیکھا اور اسے قبول کیا۔ نفس کا تزکیہ نہ ہونے کی وجہ سے آج کے دور کے علماء بدترین اخلاقی پستی کا شکار ہو چکے ہیں تو بھلا معاشرے کو وہ کیا دے پائیں گے۔ جس طرح کی زبان ، اخلاق و کردار کا مظاہرہ ہمارے آج کے نوجوان علماء کر رہے ہیں وہ تو پورے معاشرے کے لیے زہر قاتل ہے بلکہ اسلام کو اس سے بہت سخت نقصان پہنچ رہا ہے۔ کردار کی پستی کے لیے نفس کا تزکیہ نہ ہونا ہی ذمہ دار ہے۔ قرآن کریم کے الفاظ اس دل و دماغ پر کیسے اثر انداز ہو سکتے ہیں جو خود قرآن کی ہی قائم کردہ ترتیب سے انحراف کرکے بطور علم حاصل کیے جاتے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کیا یہ کافی نہیں تھا کہ آپ قرآن کریم کی تلاوت پر اکتفا فرماتے اور صحابہ کی تربیت کے لیے وہ کافی ہوجاتا ؟ لیکن تزکیہ نفس کی اہمیت قرآن نے جس انداز میں بیان کی ہے اور جس ترتیب سے اسے بیان کیا ہے وہ پریکٹکل ہے۔ آج ہماری زندگیوں میں اس ترتیب کی اہمیت بلکل نمایاں طور پر دکھائی دے رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تربیت کے اس اہم ترین جز کے مِس ہونے کی وجہ سے آج کے علماء لفظ سے تو مستفید ہو رہے ہیں لیکن زندگیوں میں اس کا اپلیکیشن پوری طرح سے غائب ہے۔ لہذا مدارس کی افادیت اسی وقت تک ہے جب اسی طرز اور نہج پر تربیت ہو جو مطلوب ہے اور جس کی مثال خود اکابر علماء کی زندگیوں میں موجود ہے۔ اگر اس ترتیب کو بحال نہیں کیا گیا تو قوم مدرسوں پر اپنا پیسہ ضائع کرتی رہے گی اور نتیجہ بد سے بدتر ہی ہوتا جائیگا۔ یہ مدارس ایسے ہی غیر تربیت یافتہ علماء کی کھیپ تیار کرتے رہیں گے جو لفظ سے تو مستفید ہوں گے لیکن منشاۓ قرآن سے میلوں دور ہوں گے۔ معاشرے پر انکا مثبت اثر مرتب نہیں ہونے والا۔

Comments are closed.