Baseerat Online News Portal

تعلیماتِ نبویﷺ میں حکمت و نفسیات کی رعایت

 

 

محمد قمرالزماں ندوی

مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپ گڑھ

 

نفسیات سیرت اور اجتماعیات سیرت کا، اگر نیک عمل کے لئے اور اصلاح کی نیت اور جذبہ سے صحیح طور پر مطالعہ کیا جائے اور اس کا صحیح تحلیل و تجزیہ کیا جائے تو ہمارے بہت سے آپسی مسائل ۔ دوریاں اور کشاکش اور کشمکش حل ہوسکتے ہیں لیکن افسوس کہ نہ ہم قرآن مجید کو تدبر اور اصلاح کی نیت سے پڑھتے ہیں اور نہ ہی احادیث اور سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اس ناحیہ سے مطالعہ کرتے ہیں ۔ ہم قرآن و حدیث کو صرف اپنے مستدل اور نظریہ کو مضبوط کرنے کے لئے پڑھتے ہیں ۔ پہلے سے ایک رائے اور نظریہ قائم کر لیتے ہیں اور پھر اس رائے اور نظریے کے دلائل ڈھونڈنے کے لئے قرآن و سنت کا مطالعہ کرتے ہیں ۔ جب کہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ ہم قرآن و سنت کا مطالعہ سلف کی تفسیر و تشریح کی روشنی میں کرتے اور پھر اس کی روشنی میں حالات کا تجزیہ کرتے اور امت کے لئے اس سے عطر کشید کرتے، اس کی خوشبو سے فضا اور ماحول کو معطر کردیتے اور پھر ایمان کی ایسی باد بہاری چلتی کہ انسانیت جھوم اٹھتی توحید کے نغمے ہر جگہ گنگنائے جاتے اور شریعت کے رنگ میں رنگ کر لوگ *صبغة اللہ و من احسن من اللہ صبغة* کی عملی تصویر بن جاتے ۔

*نفسیات سیرت* کے حوالے سے کل اس جانب اشارہ کیا گیا تھا کہ *آپ صلی اللہ علیہ وسلم* لوگوں کے مزاج و مذاق اور ان کی ذھنیت اور نزاکت و نفسیات کا دعوت و تبلیغ میں کس قدر خیال رکھتے تھے اس سلسلے میں متعدد مثالیں اوپر کی تحریر میں آچکی ہیں نفسیات سیرت کے حوالےسے چند اور نمونے ہم اپنے قارئین کی پیش کرتے ہیں۔

*انسان* کی فطرت ہے کہ بعض اوقات کسی چیز کے ساتھ ان کی اتنی گہری وابستگی ہوجاتی ہے کہ اگر اس کو چھورنے پر تیار ہو تو تب بھی اس کا امکان اور خطرہ رہتا ہے کہ اس کو پورے طور پر نہ چھورا جاسکے۔ اس کےساتھ کچھ ایسی یادیں وابستہ ہوتی ہیں کہ یہ امکان اور خطرہ بدستور موجود ہوتا ہے کہ پھر وہ چیز لوگوں میں دوبارہ آجائے اور وہ اس کے دوبارہ عادی ہو جائیں۔ اس بارے میں عربوں کی شراب نوشی کو بطور مثال پیش کیا جاسکتا ہے جو ان میں عام تھی۔ نوے فیصد عرب اس کے عادی تھے اور اس پر فخر کرتے تھے اور اس کو سخاوت کی تمہید اور ذریعہ، سمجھتے تھے۔ عرب شاعری تو اس کے تذکرے سے بھری پڑی ہے اوراس کو عرب معیوب نہیں سمجھتے تھے جب اسلام نے شراب کو حرام قرار دیا تو اس میں تدریج کی حکمت اور اس انسانی نفسیات کا بھی خیال رکھا گیا۔ تدریجی مرحلہ کی رعایت کے ساتھ آپ سلی اللہ علیہ وسلم نے بعض ایسی چیزوں کی بھی ممانعت فرمادی جو دراصل اسلام میں حرام نہیں تھیں ۔ لیکن اس کے ساتھ شراب و کباب اور جام و صبو ومینا کی یادیں، وابستہ تھیں۔ عرب میں شراب بنانے کے مختلف طریقے تھے۔ ایک طریقہ یہ تھا کہ بڑا سا *کدو* لے کر اس کو خشک کر دیتے تھے۔ اس میں کھجور اور انگور کا رس لٹکا دیا جاتا تھا۔ وہ رات ہوا لگتے رہنے سے تھنڈا بھی ہوجاتا تھا خمیر بھی پیدا ہو جاتا تھا اور اس طرح شراب بھی بن جاتی۔ تھی۔ کدو شراب میں محفوظ رکھی جاتی تھی۔ حدیث میں اتا ہے بخاری اورمسلم دونوں میں یہ رویت ہے کہ ایک قبیلہ جو شراب نوشی میں بڑا نمایاں تھا۔ اسکو آپ نے بعض خاص ہدایات بھی دیں ۔ باقی کسی قبیلہ کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا۔ صرف خاص قبیلہ کے لیے فرمایا کہ تم کو فلان فلاں باتوں کا حکم دیتا ہوں۔ فلاح فلاں چیزوں سے روکتا اور منع کرتا ہوں، *و انھاکم عن الحنتم ،و النقیر و المزفت و الدبا ء* یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں ان چار قسم برتنوں سے منع فرمایا ۔ یہ چاروں برتن یا چیزیں وہی تھیں جو شراب بنانے میں کام آتی تھیں ۔ اس کے بعد جب شراب کی عادت ختم ہوگئی اور عرب سے یہ رواج مٹ گیا پھر اس کی ممانعت کی بھی ضرورت نہیں رہی اور یہ ممانعت ختم کردی گئی ۔

نفسیات کے ماہرین نے لکھا ہے کہ اصلاح کا ایک طریقہ تھوڑے وقفہ کے لئے بے توجھی بھی ہے ۔اگر کوئ شخص کوئی غلطی بار بار کر رہا ہے یا کوئی طالب علم سے بار بار غلطی سرزد ہو تو استاد و مربی اور ایک داعی کو چاہیے کہ کچھ دنوں کے لئے اس سے بے تعلقی بھی و بے توجھی کرے تاکہ ایسے شخص کو ماحول میں اجنبت کا احساس ہو اور بعید نہیں یہ قدم اس کی اصلاح کے لئے بڑا مفید اور موثر ثابت ہو جائے ۔ اس کی بنیاد اور اصل حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ملتی ہے کہ حضرت کعب بن مالک و حضرت لبابہ اور مختلف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ آپ نے یہی طریقہ اختیار فرمایا تھا خود بھی ان سے بظاہر بے توجھی کرتے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی چند دنوں ان سے قطع تعلق کا حکم دیا ۔ یہ چیز نہ صرف یہ کہ ان لوگوں کے لئے ایک عبرت خیز واقعہ بن گئی بلکہ دوسرے لوگوں کے لئے بھی یہ ایک زبردست تازیانہ ثابت ہوا ۔ در اصل مقاطعہ اور کسی انسان کو اس کے ماحول سے کاٹ دینا اصلاح کا ایک نہایت موثر ذریعہ ہے ۔ تاہم اس کے لئے بہت احتیاط اور لوگوں کی نفسیات کے مطالعہ کی ضرورت ہے ۔ ہر ایک کے لئے ایسی تدبیر مناسب بھی نہیں ہے ۔

کبھی کبھی مصلحتا اگر سامنے والے کو اپنی غلطی کا شدید احساس ہوجائے اور حاکم وقت اور خلیفۂ زمانہ کے سامنے آنے سے باکل ڈر رہا ہو اور اس پر شدید گھبراہٹ ہو تو ایسے مجرم کو کبھی بغیر سزا کے بھی نظر انداز کردینا چاہیے اور اس کی غلطی سے ناواقف اور انجان بن جانا چاہیے مدارس میں اساتذہ اور نگراں کو بھی اس اصول کو کبھی کبھی اپنانا چاہیے ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نشہ کی حالت میں پکڑا گیا لوگوں نے اس کو پکڑا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لانے لگے ۔ جب حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے مکان کے پاس لوگ پہنچے تو ان کا نشہ اتر گیا اور مارے شرم کے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے چمٹ گئے اور کسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کے لئے تیار نہیں ہوئے ۔ آپ کو جب اس کا علم ہوا تو آپ نے ان کو کوئی سزا نہیں دی اور نہ خود اپنے سامنے بلایا ۔ یہ غلطی کو نظر انداز کرنے کی ایک مثال ہے ۔

انسان کے فطری مزاج کو بدلنا بہت دشوار ہوتا ہے بلکہ یہ ایک ناممکن سی بات ہے لیکن اس کے رخ کو تبدیل کیا جا سکتا ہے اگر کسی انسان کے بارے میں یہ محسوس کیا جائے کہ اس کے اندر اپنے حریف کو زیر کرنے کی خواہش ہر وقت انگڑائی لیتی ہے تو یہ نتیجہ نکالا جانا چاہیے کہ اس کے اندر مسابقت اور نمایاں رہنے کا جذبہ ہے ۔ عہدہ اور منصب دے کر اس کی حوصلہ افزائی کی جائے اور امت کے لئے اس سے کام لینے کی کوشش کی جانی چاہئے تاکہ اس کے نفس کی تسکین بھی ہوسکے ۔ اور اس کے خود کو نمایاں کرنے کا جذبہ ایک صحیح رخ اختیار کرلے ۔ اگر اس مزاج اور عادت کے لوگوں کو عہدہ اور منصب اور ذمہ داری دے کر ان کے رخ کو نہ پھیرا جائے تو ایسا شخص پورے ماحول کے لئے مضر ثابت ہوتا ہے ۔ اسی چیز کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا *خیارکم فی الجاہلیہ خیارکم فی الاسلام* ( بخاری شریف کتاب التفسیر)

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مزاج کی درشتی اسلام کے بعد بھی باقی رہی ،مگر پہلے اس کا استعمال اظہار شجاعت و مردانگی کے لئے تھا اور اب وہ فاروقیت کا نشان بن گئی رضی اللہ عنہ۔

ناشر / مولانا علاء الدین ایجوکیشنل سوسائٹی دگھی گڈا جھارکھنڈ

Comments are closed.