Baseerat Online News Portal

علماء کا مقام ومرتبہ

محمد فہیم الدین تیمی مدنی
استاذ جامعہ امام ابن تیمیہ
علم وہ متاع حیات ہے جس کا مقام و مرتبہ اہل دنیا کے یہاں مسلم ہے، اس کے بغیر زندگی ادھوری ہے، اس کے بنا جینا بے مزہ ہے، یہی وجہ ہے کہ دنیا کے تمام ادیان و مذاہب نے علم کو خاص اہتمام و انتظام کے ساتھ بیان کیا ہے، اور ایسا کیوں نہ ہو دنیا میں حقیقی ترقی اس کے بغیر ناممکن ہے، عزت و شہرت، مال و دولت اور شان و شوکت تک میں علم کا بڑا کردار ہے، دنیا کی لذتیں اور زندگی کی آسائشیں اسی سے وابستہ ہیں، لوگ علم والے کو ہوشیار اور علم سے محروم شخص کو بیوقوف گردانتے ہیں، یہ تو علم کے تعلق سے عمومی بات ہو گئی، لیکن جب ہم اسلام کے نظریہ سے علم کی بات کرتے ہیں تو یہاں اس کی شان ہی نرالی ہے، کیونکہ جب ہم علم کے ساتھ ایک لفظ "شرعی” کا لاحقہ لگاتے ہیں تو اس کی رفعت و بلندی کا کیا پوچھنا! اسلام نے اس کو جو حیثیت دی ہے وہ بے مثال ہے، دنیا میں اس کے علاوہ کوئی دوسرا دین نہیں ہے جس نے علم کے مقام کو اتنا بلند کیا ہو، یہ علم کی عظمت ہی تو ہے کہ قرآن نے اپنے سب سے پہلے پیغام میںاس کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا، اور اس کے بعد اس کی اہمیت و فضیلت کے کئی سارے نمونے پیش کیے، جس سے یہ واضح ہوگیا کہ علم کے بغیر انسان کی انسانیت صحیح طور پر باقی نہیں رہتی ہے بلکہ حیوانیت زدہ ہو جاتی ہے، کیا یہ کم ہے کہ جاننے والے کو آنکھ والا اور نہ جاننے والے کو اندھا قرار دیا ہے،کیونکہ علم روشنی اور جہالت تاریکی ہے، ایک مسلمان بلا شبہ علم کی بدولت دنیا و آخرت کی تمام سعادتوں سے فیضیاب ہو سکتا ہے جبکہ اس سے محروم شخص کی زندگی عین ممکن ہے دنیا و آخرت میں برباد ہو جائے۔
علم شرعی کی اسی اہمیت و ضرورت اور فضیلت کے پیش نظر اب تک اسلاف سے اخلاف تک نے بے شمار مطول و مختصر کتابیں تصنیف کی ہیں، انہی میں امام عزیمت و استقامت شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے خاص شاگرد امام ابن قیم الجوزیہ کی معرکہ آراء کتاب ” العلم فضلہ و شرفہ” بھی ہے، جس میں انہوں نے علم شرعی کے مقام و مرتبہ سے لیکر اس کے مختلف پہلوؤں پر سیر حاصل گفتگو کی ہے، جس سے یہ پتا لگانا آسان ہوگیا ہے کہ انسان کو اگر اپنی رب کی رضا اور اور دنیا و آخرت میں فائز المرامی چاہئے تو علم شرعی کی زینت سے آراستہ و پیراستہ ہونا پڑے گا، کیونکہ علم نور ایمان ہے جس سے زندگی کی تاریکیاں چھٹتی چلی جاتی ہیں، اور راحت و سعادت کے دروازے وا ہوتے چلے جاتے ہیں، اس کے برعکس جہل باعث کفر و عصیان ہے جس سے زندگی کی راہوں میں اندھیارا چھاتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ آدمی اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارتا ہوا ضلالت و گمراہی کی کھائی میں جا گرتا ہے، اور اس طرح سے اس کی دنیا و آخرت برباد ہوجاتی ہے،
زیر بحث کتاب کے اندر امام ابن قیم رحمہ اللہ نے کتاب و سنت کی روشنی میں علماء کے مقام بلند کو متعدد پہلوؤں سے اجاگر کیا ہے، سطور ذیل میں سلسلے وار ان کو قارئین کے فائدے کے لئے پیش کیا جا رہا ہے :
1 : اللہ کا توحید پر اہل علم کو گواہ بنانا : علماء کے مقام و مرتبہ کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان میں صرف اہل علم کو توحید پر اپنے ساتھ گواہ بنایا ہے، جیسا فرمان باری تعالی ہے : اللہ نے اس بات کی گواہی دی ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے، اس بات کی گواہی فرشتے اور اہل علم نے بھی دی ہے، انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے، تمام عبادتیں اللہ ہی کے لئے سزاوار ہیں، وہ غالب اور حکمت والا ہے”(آل عمران :18)
اس آیت کریمہ میں غور و فکر کرنے سے علماء کی عظمت و فضیلت کے کئی پہلو سامنے آتے ہیں :
1 : اللہ تعالی نے توحید کے اثبات کے لیے اپنے بندوں میں صرف علماء کا ہی انتخاب کیا ہے، اور یہ یقیناً ان کی رفعت شان کی بین دلیل ہے،
2 : اللہ تعالی نے اپنی ذات کی گواہی کے ساتھ علماء کی گواہی کا خصوصیت کے ساتھ تذکرہ فرمایا ہے، اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالی جو پوری کائنات کا پالنہار ہے، ساری مخلوقات کا خالق و مالک ہے،اس کی ذات اتنی عظیم ہے، اس کے باوجود اللہ نے تذکرہ میں اپنی گواہی کو اہل علم کی گواہی سے ملایا ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ علماء اپنے رب کی نگاہ میں عظیم ہیں۔
3 : ان کی گواہی کو فرشتوں کی گواہی سے جوڑا ہے جو اللہ تعالی کی پاکیزہ مخلوق ہیں، وہ محض اللہ کی عبادت و اطاعت کرتے ہیں، ان سے معصیت کے صدور کا تصور نہیں کیا جا سکتا، ظاہر ہے جس کی گواہی کا تذکرہ ایسی منزہ مخلوق کی گواہی کے ساتھ کیا جائے اس کے مرتبہ کے کیا کہنے!
4 : اس آیت مبارکہ سے علماء کی فضیلت کا ایک اہم پہلو یہ سامنا آتا ہے کہ اللہ تعالی نے ان کی شرافت اور ان کی عدالت پر مہر ثبت کیا ہے،کیونکہ اللہ تعالی فاسد کردار کے حاملین کو گواہ بنا ہی نہیں سکتا،اس سلسلے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی صحیح حدیث ہے: ’’وعن ابراہیم بن عبدالرحمن العذری قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ’’ یحمل ہذا العلم من کل خلف عدولہ، ینفون عنہ تحریف الغالین وانتحال المبطلین وتأویل الجاہلین‘‘ [رواہ البہیقی] اس علم شرعی کے حاملین اور وارثین سلیم الفطرت اور سلیم الطبع علماء ہیں جو علم دین کوسرکشوں کی تحریف، باطل پرستوں کی جعلسازی اور جاہلوں کی حیلہ سازی سے محفوظ رکھتے ہیں۔
5 : اللہ تعالٰی نے اہل علم کو ’’أولی علم‘‘ یعنی علم والے سے تعبیر کیا ہے،یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ان کی پہچان علم سے ہی ہے ، وہ اہل علم اور صاحبِ علم ہیں،ایسا نہیں ہے کہ انہوں نے علم کو کسی سے ادھار لے رکھا ہو،بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں انبیاء کے وارثین اور حاملین علم شرع متین بناکر دنیا کا افضل ترین طبقہ بنا دیا،سچ ہے،ذلک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء۔
6 : اللہ تعالیٰ نے توحید پر سب سے پہلے خود اپنی گواہی پیش کی ہے،اللہ تعالیٰ سے بہتر گواہی کس کی ہو سکتی ہے،اس کے بعد اللہ نے گواہی کے لئے اپنی مخلوقات میں سب سے افضل کا انتخاب کیا،اور وہ فرشتے اور اہل علم ہیں،بلا ریب علماء کی فضیلت اور ان کے شرف کے لئے یہی کافی ہے۔
7 : اللہ رب العالمین جو نہایت ہی عظیم ہے،اس نے دنیا کی سب سے عظیم شی یعنی توحید باری تعالیٰ پر جن کو گواہ بنایا ہے ان کی عظمت میں کوئی شک اور شبہ نہیں کیا جا سکتا ہے، اس سے علم شرعی کے علمبرداروں کی قسمت پہ نازاں کیا جا سکتا ہے۔
8 : اللہ تعالیٰ علماء کی شہادت کو منکرین و کفار کے خلاف دلیل و حجت قرار دیا ہے،اس سے ان کی اعلی مرتبت کا پتہ چلتا ہے، اور یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے ثبوت پر وہ بمنزلہ اللہ کے دلائل و براہین کے ہیں۔
9 : اللہ رب العالمین نے صرف اسی امر میں اپنی گواہی کو علماء کی گوائی سے ملایا ہے، اس معاملہ میں علماء کی گواہی کی اللہ کی گواہی سے گہری وابستگی کا علم ہوتا ہے،گویا اللہ تعالیٰ نے اپنی وحدانیت کا اقرار و اثبات علماء کی زبانی کرایا ہے تاکہ دنیا میں توحید کی تبلیغ عام ہو جائے،شرک کا قلع قمع ہو اور بندے اپنے رب کی توحید پر صدق دل سے ایمان لے آئے۔
10 : اللہ رب العالمین نے توحید پر علماء کی گواہی کا ذکر کرکے اپنے بندوں کے درمیان ان کو بحیثیت توحید کے علمبردار ثابت کیا ہے،اور دین اِسلام کے مؤید اور حمایتی گردانا ہے، جب علماء توحید کی تبلیغ اور کتاب و سنت کی نشر و اشاعت کا کام کرے تو بندوں پر اس دعوت کو قبول کرنا واجب ہے،علماء کی کوششوں سے جو لوگ بھی رہ ہدایت اپنائیں گے ان کو اللہ کے یہاں بے شمار اجر و ثواب تو ملے گاہی ساتھ ہی علماء کو بھی اجر جزیل اور ثواب کثیر سے نوازے گا۔اس دسویں پہلو سے بھی علماء کی عظمت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔
سورہ آل عمران آیت نمبر۱۸ کی روشنی میں علماء کے مقام ومرتبہ کے یہ دس پہلو ہیں جن سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اہل علم اللہ رب العالمین کے محبوب اور خواص ہیں اوردنیا وآخرت کی تمام سعادتیں ان کے نصیب میں آتی ہیں بشرطیکہ وہ علم شرعی کے تقاضوں کو پورا کرے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو علماء کے مقام ومرتبہ کوجاننے اور ان کی عزت واحترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین!

 

Comments are closed.