Baseerat Online News Portal

ماہِ صیام — حقوق العباد پر توجہ دینے کی ضرورت

نثار احمد حصیر القاسمی
(شیخ الحدیث معہد البنات بورہ بنڈہ و جامعۃ النور یوسف گوڑہ حیدرآباد)
[email protected] 0091-9393128156

اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو ، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو ، اور ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو ، اور رشتہ داروں سے ، یتیموں سے ، مسکینوں سے ، قرابت دار ہمسایہ سے ، اور اجنبی ہمسایہ سے اور پہلو کے ساتھی سے ( یعنی رفیق سفر شریک کار بیوی اور ہر وہ شخص جسے کسی مقصد سے ساتھ بیٹھے کا موقع ملے ) اور راہ کے مسافر سے اور غلام و باندی سے (یعنی ملازمین اور ہاتھ کے نیچے کام کرنے والے افراد سے) اچھا سلوک کرو ، اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والوں اور شیخی دکھانے والوں کو پسند نہیں فرماتا ۔ ( النساء : ۳۶)
ایک متفق علیہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
تیرے رب کا تجھ پر حق ہے ، تیری جان کا تجھ پر حق ہے ، تیرے گھر والے کا تجھ پر حق ہے ، تو ہر صاحب حق کو اس کا پورا پورا حق ادا کرو ۔
اللہ کی شریعت اور اللہ کے بنائے ہوئے نظام و قانون نے بندوں پر کچھ حقوق و واجبات مقرر فرمائے ہیں ، جس کی ادائیگی کے بعد ہی کوئی انسان صاحب ایمان کہلانے کامستحق بنتا ہے ، ان میں سے ایک تو وہ ہے جسے ہم حقوق اللہ کہتے ہیں ، یعنی خالص اللہ کا حق ، جیسے اللہ کی تعظیم کرنا ، اس کی وحدانیت کا اقرار کرنا ، تنہا اسی کی عبادت کرنا ، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا ، اسی طرح اللہ کے حقوق میں سے حدود و قصاص جاری کرنا ، بھلائی کا حکم دینا ، بُرائی سے روکنا ، جہاد کرنا ، عدل قائم کرنا اور شریعت کے دوسرے احکام و فرائض اوراوامر و نواہی ہیں ، یہ حقوق اللہ بھی اصل میں انسانوں ہی کی بھلائی کے لئے اور سماج کے مفاد میں ہیں ، مگر اس کی نسبت اللہ کی طرف اس کی اہمیت کی وجہ سے کی گئی ہے ، ورنہ تو اللہ ہر چیز سے بے نیاز ہے ۔
تو ان حقوق اللہ سے جوکہ خالص اللہ کا حق ہے درحقیقت استفادہ کرنے والا بندہ ہی ہے ، اللہ کو اس کی حاجت نہیں ، اگر کائنات کا ذرہ ذرہ اور ہر ہر فرد بشر اللہ کی عبادت و بندگی میں لگ جائے تو اللہ کی الوہیت و ربوبیت میں اور عظمت و کبریائی میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا ، اور اگر کوئی بھی اللہ کی عبادت نہ کرے تو اللہ کی عظمت و کبریائی و اُلوہیت میں کوئی کمی نہیں آتی اور نہ فرق پڑتا ہے ، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بندوں کو بھی کچھ حقوق عطا کئے ہیں ، یہ دوطرح کے ہیں ، ایک تو وہ حق ہے جو ہر انسان کو شخصی طورپر حاصل ہوتا ہے ، جیسے مال واسباب ، زمین و جائیداد اور دیگر اشیاء کا مالک ہونا ، اس میں تصرف کرنا ، خرید و فروخت کرنا ، ہبہ کرنا ، تبادلہ کرنا ، انسان کو یہ حق انسان ہونے کی وجہ سے حاصل نہیں ہوتا ؛ بلکہ اس وجہ سے حاصل ہوتا ہے کہ شریعت اور اللہ کے نظام نے اسے یہ حق اس لئے دیا ہے کہ ہرانسان اپنی ضروریات کی تکمیل میں دوسرے انسان کے تعاون کا اور دوسرے کے ساتھ معاملہ کرنے کا محتاج ہے ، کوئی بھی دوسرے انسان سے بے نیاز نہیں ہوسکتا ، یہ حقوق العباد کی ایک قسم ہے ، جس کی ادائیگی و پابندی ہر انسان پر لازم ہے ۔
اور چوںکہ انسان دوسرے انسان سے تعاون لینے دینے ، معاملہ کرنے اور لین دین میں ایک دوسرے پر دست درازی اور ظلم کرسکتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کا نظام بھی بتادیا ہے کہ ایک انسان کا دوسرے پر کیا حق ہے ، یہ حقوق العباد کی سب سے اعلیٰ قسم اور سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے ، حقوق اللہ کو اللہ معاف کرسکتا ، مگر ایک بندے کا جو دوسرے بندے پر حق ہے ، اللہ اسے معاف نہیں فرمائیں گے ، اور اس کا معاملہ روز قیامت بڑا ہی پُرخطر وعبرتناک ہوگا ، ہم اپنے سماج اور گرد و پیش پر جب نظر ڈالتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگ عبادت و بندگی اور ذکر و اذکار میں تو کافی دلچسپی رکھتے اور بڑے انہماک سے عبادتیں کیا کرتے ہیں ، مگر بندوں کے حقوق کی ادائیگی میں ان سے بڑی کوتاہی و سستی ہوتی ہے ، مثال کے طورپر کسی سے قرض حاصل کرتے پھر ٹال مٹول کرتے رہتے اور قرض واپس کرنے کی فکر نہیں ہوتی ، جب کہ یہ بہت ہی پُرخطر معاملہ ہے ، بہت سے ایسے بھی ہوتے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ قرض حاصل کرنا بھی کمائی کا ایک جائز ذریعہ ہے ، وہ اپنی حاجت و ضرورت کا مظاہرہ کرتے ، دوسروں کے سامنے یہ باور کراتے کہ جیسے وہ مالی بحران سے دوچار ہوں اور اس طرح کی حیلہ گری کا سہارا لے کر قرض حاصل کرنے کی کوشش کرتے اور جب اسے وہ حاصل ہوجاتا تو پھر کبھی واپس کرنے کا خیال پیدا نہیں ہوتا ، پھر کسی اور کو تلاش کرتے ہیں ، جس سے قرض حاصل کرسکیں اور یہ سلسلہ جاری رہتا ہے ، جب کہ اسلام نے اسے سخت ناپسند کیا اور وعیدیں سنائی ہیں ، اور حقوق العباد میں تساہل و کوتاہی پر اللہ نے سخت سزائیں مرتب فرمائی ہیں ۔
اللہ کے نبی ﷺ کا ارشاد ہے :
من کانت عندہ لاخیہ مظلمۃ فلیتحللہ الخ ۔
اگر کسی کے پاس اس کے دوسرے مسلمان بھائی کا کچھ حق ہو تو اسے چاہئے کہ اس دن سے پہلے آج ہی اسے معاف کرالے جس دن کہ نہ درہم کام آئے گا نہ دینار ؛ بلکہ اگر اس کے پاس نیک عمل ہوگا تو اس کی نیکی اس حق کے بقدر اس سے لے لی جائے گی ، اور اگر اس کے پاس نیکیاں نہ ہوں گی تو صاحب حق کی برائیاں اس پر ڈال دی جائیں گی ۔ ( صحیح البخاری )
حقوق العباد کی پرواہ نہ کرنے اور اس میں کوتاہیاں کرنے والے بسااوقات خوب عبادت کرنے والے ہوتےہیں ، وہ حج پہ حج اور عمرہ پر عمرہ بھی کرتے ، ہر پیر و جمعرات کو روزے بھی رکھتے ، تہجد و نوافل کی پابندی بھی کرتے ، اشراق و چاشست بھی ذوق و شوق سے ادا کرتے ، تسبیحات و اذکار میں بھی مشغول رہتے ، وعظ و نصیحت کی محفلیں بھی سجتی ، تصوف و سلوک کی باتیں بھی ہوتیں ، بیعت و ارشاد کا سلسلہ بھی جاری رہتا ، چِلے پہ چِلے بھی لگائے جاتے ، اور دعوت و ارشاد کی باتیں بھی ہوتی رہتی ہیں ، مگر جب بات دوسرے بندوں کے حقوق کی ادائیگی کی آتی ہے تو وہ اس میں بہت پیچھے ہوتے ہیں ؛ حالاںکہ حقوق اللہ میں تو چشم پوشی کی اُمید ہے ، مگر حقوق العباد میں اللہ تعالیٰ انصاف سے کام لیں گے اور ہر صاحب حق کو اس کا حق دلاکر رہیں گے ۔
یہ رمضان کا مبارک مہینہ ہے ، اس ماہ میں مسلمان خوب عبادت کرتا ، قرآن کی تلاوت کرتا اور اللہ سے مغفرت طلب کرتے ہوئے جہنم سے خلاصی طلب کرتا اور اس کی رحمتوں کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہے ، اور یہ بہت عمدہ و مستحسن عمل ہے ، مگر ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں ، جن پر دوسروں کے حقوق عائد ہوتے ہیں ، جس کی ادائیگی اس پر واجب ہوتی ہے ، مگر وہ اس کی ادائیگی پر توجہ نہیں دیتے ، وہ رب کو راضی کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، جب کہ اللہ کی رضا اسی وقت حاصل ہوسکتی ہے ، جب کہ وہ دوسرے اصحاب حقوق کے حقوق ادا کریں ۔
اگر کسی پر قرض ہے اور وہ ادا کرنے کے موقف میں ہے تو نفلی عبادتوں سے پہلے اسے ادا کرنے کی فکر کرے ، یہ بڑی حرماں نصیبی کی بات ہے کہ دوسروں کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کی جائے ، ٹال مٹول کیا جائے اور نفلی عبادتوں میں مشغول رہا جائے ، صدقہ وخیرات اور خدمت ِخلق میں آگے آگے رہا جائے ، صلہ رحمی سے منھ موڑے رہے ، اپنے ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی یا اجیروں کی اُجرت بروقت حوالے کرنےمیں لاپرواہی کرے ۔
ہماری شریعت نے ہمیں واضح راستہ دِکھایا اور جینے کا سلیقہ سکھایا ہے ، اس نے کھول کھول کر بتادیا ہے کہ کسے مقدم رکھنا ہے اور کسے مؤخر ، اس نے بتایا ہے کہ فرض و واجب کو سنن ومستحبات پر مقدم رکھا جائے گا ، ایک حدیث قدسی میں ہے کہ : ’’ ما تقرب إلی عبدی بشیئ احب الی مما افترضت علیہ‘‘ میں نے بندوں پر جو چیزیں فرض کی ہیں اس کے ذریعہ میرا قرب حاصل کرنا میرے نزدیک دیگر تمام چیزوں کے ذریعہ قرب حاصل کرنے کی بہ نسبت زیادہ محبوب و پسندیدہ ہے ۔
انسان پر دوسرےبندوں کا جو بھی حق عائد ہوتا ہو مثلاً قرض کی ادائیگی ، بیوی بچوں کے نفقہ و اخراجات کی عدم ادائیگی ، چوری ، غصب ، حیلہ گری یا کسی بھی ناجائز طریقہ پر دوسرے کی لی ہوئی چیزیں ، والدین کی جانب سے اولاد کے اور اولاد کی جانب سے والدین کے حقوق کی عدم ادائیگی ، بہتان تراشی ، دھوکہ دہی ، فریب کاری ، کسی کے حق میں کذب بیانی یا اس طرح کی دوسری باتیں ، تو اس سے گلو خلاصی کی یہی صورت ہے کہ صاحب حق کو اگر وہ چیز موجود ہے تو وہی لوٹا دی جائے ، وہ نہیں ہے تو اس کی قیمت ادا کی جائے اور جس چیز کا تعلق اموال سے نہیں جیسے کذب بیانی ، دھوکہ دہی ، فریب کاری ، الزام تراشی ، چغلی و غیبت ، تذلیل و تحقیر وغیرہ تو جس کی عیب جوئی کی ہے ، جس کی عزت و ابرو پر دست درازی کی ہے ، جس کی حق تلفی کی ہے یا جسے اعضاء و جوارح یا زبان سے تکلیف پہنچایا ہے اس سے معافی مانگ لی جائے اور اسی دنیا میں معافی تلافی کے ذریعہ اپنا معاملہ صاف کرلیا جائے ۔
یہ بندے کا حق ہے ، اس لئے اسے ادا کرنا نفلی عبادتوں ، تلاوتوں اور ذکر و اذکار سے زیادہ اہم و ضروری ہے ، اس کی عدم ادائیگی پر گرفت ہوتی اور اسے اللہ معاف نہیں کریں گے ، جب کہ اللہ کے حقوق کی ادائیگی میں اگر کوتاہی ہوتی ہے تو اللہ اسے معاف کرسکتے ہیں ، اسی لئے عہد نبوی سے لے کر آج تک کے علماء اُمت کا اس پر اتفاق ہے کہ کسی مسلمان کے لئے حلال نہیں کہ وہ سنن و مستحبات پر تو عمل کرے اور فرائض و واجبات کو ترک کردے ، مثال کے طورپر طواف کے دوران حجر اسود کو بوسہ دینا سنت ہے ؛ لیکن اگر یقین ہو کہ بوسہ دینے کی کوشش میں دوسروں کو اذیت پہنچے گی تو اس پر واجب ہے کہ وہ بوسہ دینے سے گریز کرے ؛ کیوںکہ ایذاء مسلم حرام ہے اوراس سے بچنا واجب ہے ۔
اس لئے اس ماہ صیام میں مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ عبادت و تلاوت اور ذکر و اذکار سے زیادہ حقوق العباد کی ادائیگی پر توجہ دیں ، اس میں کوتاہی سے بچیں ، اگر والدین کے حقوق ادا نہیں کررہے ہیں تو ادا کریں ، ان کے ساتھ بدسلوکی کررہے ہیں تو ان سے معافی مانگیں اور اپنے سلوک کو بہتر بنائیں ، اپنی بیوی کے حقوق یا شوہر کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہورہی ہے تو پہلے اسے ادا کریں ، بیوی کے نان و نفقہ کی ادائیگی میں اگر کوتاہی ہے تو اسے ادا کریں اور اس سے معافی مانگیں ، اگر کسی کی غیبت کرتے رہے ، فریب دیتے رہے کسی کے بارے میں کذب بیانی کرتے رہے ، کسی کو تکلیف و اذیت پہنچاتے رہے ہیں تو ان سے معافی مانگیں ، ملازمین کی تنخواہیں ، یامالک مکان و دوکان کا کرایہ ادا نہ کیا ہے ، مزدوروں کو ان کی اُجرت ادا نہ کی ہے ، کاروبار میں آپ پر جو دوسرے فریق کا بقایا ہے اوراسے ادا نہیں کیا ہے اسے ادا کریں ، ورنہ روز قیامت ساری عبادتیں انھیں دے دی جائیں گی اور عبادتوں کے باوجود بندہ نیکی سے خالی رہ جائے گا ۔
صحیح مسلم کی روایت ہے ، حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ اتدرون من المفلس الخ ‘‘ کیا تمہیں پتا ہے کہ مفلس و نادار کون ہے ؟ صحابہ ؓنے عرض کیا ہم میں مفلس تو وہ ہوتا ہے جس کے پاس نہ درہم ہو نہ ساز و سامان تو آپ ﷺ نے فرمایا : میری اُمت کا مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن خوب نماز و روزہ اور زکوٰۃ لے کر آئے گا جب کہ اس نے کسی کو گالی دیا ، کسی پر بہتان باندھا ، کسی کا مال ہڑپ لیا ، کسی کا خون بہایا اور کسی کو مارا پیٹا ہوگا تو اسے اس کا حق دیا جائے گا اور صاحب حق کو اس کی نیکیاں دے دی جائیں گی ، پھر جب اس کی ساری نیکیاں ختم ہوجائیں گی اور مطالبہ کرنے والے اصحاب حقوق باقی رہیں گے تو ان اصحابِ حقوق کی خطائیں اس پر ڈال دی جائیں گی ، پھر اسے جہنم میں جھونک دیا جائے گا ۔
بیہقی کی ایک صحیح روایت ہے کہ ایک شخص امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ کے پاس کسی کی گواہی دینے کے لئے آیا تو اس گواہ سے حضرت عمرؓ نے کہا کہ تو جس کے بارے میں گواہی دینے آیا ہے کیا تم اسے پہچانتے ہو ؟ اس نے کہا جی ہاں ، تو حضرت عمرؓ نے پوچھا کس طرح پہچانتے ہو؟ کیا تم اس کے پڑوس میں رہتے ہو کہ تم اس کی آمد و رفت سے واقف ہو ؟ اس نے کہا نہیں میں پڑوسی تو نہیں ہوں ، پھر پوچھا کیا تم نے کبھی اس کے ساتھ سفر کیا ہے، جس میں انسان کے اخلاق کا پتا چلتاہے ؟ اس نے کہا نہیں ، پھر سوال کیا کیا تم نے اس کے ساتھ درہم و دینار کا مالی معاملہ اور لین دین کیا ہے ، جس میں انسان کی پرہیزگاری کا پتا چلتا ہے ؟ تو اس نے کہا نہیں میں نے ان کے ساتھ مالی معاملہ بھی نہیں کیا ہے ، اس پر حضرت عمرؓ چیختے ہوئے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا اور فرمایا ، شاید تم نے اسے مسجد میں قیام اوررُکوع و سجود کرتے ہوئے دیکھا ہے ؟ اس نے کہا جی ہاں ، تو حضرت عمرؓ نے فرمایا میرے پاس سے اُٹھ جاؤ ، تم اسے نہیں پہچانتے ہو ، یعنی انسان کی دین داری کا اندازہ نماز وروزہ اور عبادات سے نہیں بلکہ بندوں کے حقوق کی ادائیگی سے ہوتی ہے ، اسی لئے کہا گیا ہے : ’’الدین المعاملہ ‘‘ (دین نام ہے معاملہ کرنے کا ) اس ماہ صیام میں اللہ ہمیں بندوں کے حقوق پورا پورا ادا کرنے ، صلہ رحمی کرنے اور ناجائز و حرام رزق سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے ؛ کیوںکہ اس کے بغیر نہ تو ہماری مغفرت ہوسکتی ہے نہ رحمت کا نزول ہوسکتا ہے نہ جہنم سے خلاصی مل سکتی اور نہ ہی شب قدر کی خیر و برکت سے ہم مستفید ہوسکتے ہیں ۔

= = =

Comments are closed.