Baseerat Online News Portal

ابو الحیا مولانا قاری محمد فخر الدین فخرؔ گیاویؒ: حیات و خدمات

 

? محمد روح الامین میُوربھنجی

 

ابو الحیا مولانا قاری محمد فخر الدین فخر گیاوی صوبہ بہار کے مشہور و مقبول فضلائے دار العلوم دیوبند میں سے تھے، شیخ الاسلام حضرت مدنی کے اجل خلفاء میں سے تھے، انھوں نے تقریباً نصف صدی تک تدریس اور انتظام مدرسہ کے فرائض انجام دیے، مدرسہ قاسمیہ رنگون کے بانی تھے، ایک بہترین نعت گو شاعر اور نثر نگار تھے، اسم با مسمی تھے؛ گویا دین و اہل دین کے لیے سراپا قابلِ فخر تھے، جمعیت علمائے ہند کا مشہور ترانہ ’’یہ لہراتا نظر آتا ہے حزب اللّٰہ کا جھنڈا‘‘ انھیں کا ادبی شاہکار ہے۔ بندہ نے بھی ان سے متعلق بکھری باتوں کو یکجا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے متعلق کئی لوگوں نے لکھا ہے، مولانا حکیم سید احمد اللّٰہ ندوی نے ”تذکرہ مسلم شعرائے بہار (حصہ سوم)” میں، مولانا ابوالکلام قاسمی شمسی نے ”تذکرہ علمائے بہار (جلد اول)” میں ان کا مختصر سوانحی خاکہ پیش کیا ہے، ڈاکٹر فرحانہ شاہین نے ”بہار میں اردو کی نعتیہ شاعری کا تنقیدی مطالعہ” میں ان کا سوانحی تذکرہ کرتے ہوئے مزید ان کے اسلوب و طرزِ کلام پر روشنی ڈالی ہے، اس کے علاوہ مولانا کے چہیتے شاگرد، بھانجی داماد اور بندہ کے نانا جان مولانا سید حسین احمد عارف ؔ گیاوی (سابق امام و خطیب جامع مسجد، ساکچی، جمشید پور، جھارکھنڈ) نے بھی ان کی تعلیمی و تدریسی خدمات اور حالاتِ زندگی ایک خاص حد تک جمع کر دیے ہیں، جو مولانا موصوف و مرحوم کی مطبوعہ تصنیف ”درس حیات” کے آغاز میں شامل ہے، ان کے علاوہ میرے محدود علم کے مطابق ”ماہنامہ دار العلوم دیوبند” (رجب المرجب 1408ھ بہ مطابق مارچ 1988ء کے شمارے) میں اور ”ماہنامہ الفرقان، لکھنؤ” (شعبان المعظم 1408ھ بہ مطابق اپریل 1988ء کے شمارے) میں ان کی وفات و خدمات کا مختصر ذکر ملتا ہے۔ مولانا عبد الباری قاسمی سمستی پوری، سابق ریسرچ اسکالر دہلی یونیورسٹی نے اپنے مضمون’’ابو الحیا حضرت مولانا قاری فخرالدین فخرؔ گیاویؒ‘‘ میں (جو انٹرنیٹ پر بھی دستیاب ہے) فخر گیاوی کی حیات و خدمات کا ذکر کرتے ہوئے ان کے دار العلوم دیوبند کے زمانۂ طالب علمی کی کئی نایاب باتیں بیان کی ہیں۔ ان کے علاوہ روزنامہ الجمعیۃ میں ضرور ان کے بارے میں کچھ نہ کچھ آیا ہوگا، جو بندہ کو دستیاب نہ ہو سکا؛ کیوں کہ ہفت روزہ الجمعیۃ، جو پہلے روزنامہ تھا، اس کے شمارے مشکل سے ملتے ہیں، شاید دفتر جمعیت علمائے ہند میں موجود ہوں۔

 

ابتدائی و تعلیمی زندگی

نام اور ولادت

ان کا پیدائشی نام محمد فخر الدین، کنیت ابو الحیا، تاریخی نام ظفیر عالم اور تخلص فخر ؔ تھا۔ ان کی ولادت 1331ھ بہ مطابق 1912ء کو صوبہ بہار اڑیسہ (موجودہ صوبہ بہار) میں ان کے نانا مولانا عبد الغفار سرحدی گیاوی کے گھر، محلہ باٹم برج، مولانا عبد الغفار لائن، شہرِ گیا میں ہوئی تھی۔ ان کے والد مولانا محمد خیر الدین گیاوی (متوفی: 1947ء، سن فراغت 1309ھ)؛ شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی کے شاگرد، مولانا سید حسین احمد مدنی کے برادرِ بزرگ مولانا صدیق احمد فیض آبادی کے شریکِ دورۂ حدیث اور مفتیِ دار العلوم دیوبند مفتی محمد سہول عثمانی بھاگلپوری، مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد اور ان جیسی کئی شخصیات کے استاذ تھے۔

 

تعلیم و تربیت

ان کی تعلیم کی ابتدا پانچ سال کی عمر میں ہوئی، سات سال کی عمر میں حفظ قرآن شروع کیا اور بارہ سال کی عمر میں حافظ قرآن ہوئے، ان کے حفظ قرآن کے اساتذہ میں قاری ارادۃ الحق، قاری عبد القدوس اور مولانا قاری فرید الدین شامل تھے۔

حفظ کے بعد فارسی میں گلستانِ سعدی تک کی کتابیں گھر پر اپنے والد ہی سے پڑھیں، پھر مدرسہ فرقانیہ لکھنؤ جاکر ایک سال قاری عبد المالک صدیقی علی گڑھی سے قراءت حفص کی تعلیم حاصل کی (دستار بندی قاری عبد المالک کے استاذ قاری عبد الرحمن الٰہ آبادی ثم مکی کے دست مبارک سے ہوئی تھی) اور وہیں پر درس نظامی کی شرح ماۃ عامل تک کی کتابیں بھی پڑھیں۔

پھر گھر آکر اپنے والد سے ہی ہدایۃ النحو وغیرہ کتابیں پڑھیں، پھر قاری عبد المالک صدیقی کے پاس (جو اس وقت مدرسہ فرقانیہ لکھنؤ سے مدرسہ فرقانیہ ٹونک منتقل ہو گئے تھے) ٹونک، راجستھان گئے اور وہیں پر مزید مشقِ قرات کی اور شرحِ جامی تک کی کتابیں بھی پڑھیں۔

پھر گھر آکر اپنے والد سے تیسری بار شرح جامی، دوسری بار قدوری، سراجی اور شرح تہذیب پڑھی۔

پھر دوبارہ لکھنؤ جاکر دو سال میں قراءاتِ سبعہ کی تکمیل کی، لکھنؤ سے واپسی پر والد سے عربی پڑھنا شروع کیا، پر والد کی ناسازی طبیعت کی بنا پر یہ سلسلہ جاری نہ رہ سکا، پھر مدرسہ حمیدیہ قلعہ گھاٹ، دربھنگہ میں چند دنوں رہ کر مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور چلے گئے اور ایک سال وہاں رہ کر مولانا صدیق احمد کشمیری، مولانا عبد الشکور کامل پوری اور مولانا جمیل احمد تھانوی جیسے اساتذہ سے فیض یاب ہوئے۔

 

دار العلوم دیوبند میں داخلہ اور فراغت

 

شوال 1352ھ بہ مطابق جنوری 1934ء میں دار العلوم دیوبند میں ان کا داخلہ ہوا اور پانچ سال وہاں رہ کر 1357ھ بہ مطابق 1938ء میں دورۂ حدیث شریف سے فارغ التحصیل ہوئے۔ ان کے اساتذۂ دار العلوم میں شیخ الاسلام مولانا سید حسین مدنی، شیخ الادب مولانا محمد اعزاز علی امروہوی، علامہ محمد ابراہیم بلیاوی، مولانا سید اصغر حسین دیوبندی، مولانا عبد السمیع دیوبندی، مفتی محمد شفیع عثمانی دیوبندی، مولانا شمس الحق سرحدی، مفتی ریاض الدین بجنوری، مولانا ظہور احمد دیوبندی، مولانا محمد جلیل علوی کیرانوی، مولانا عبد الحق (معروف بہ: نافع گل پشاوری) رحمہم اللّٰہ شامل تھے۔

 

ماہنامہ البیان کا اجرا

 

’’انجمن اصلاح البیان ‘‘ (موجودہ نام: بزم سجاد) صوبجات بہار، اڑیسہ، جھارکھنڈ، نیپال کی محبوب انجمن ہے، جسے فخر گیاوی کے دار العلوم میں داخلہ سے چھ سال پہلے امیر شریعت رابع مولانا سید منت اللّٰہ رحمانی نے قائم کیا تھا، اس وقت مذکورۂ بالا صوبوں کے تمام طلبہ بزم سجاد سے منسلک رہتے تھے، فخر گیاوی بھی دیگر طلبہ کی طرح بزم سجاد سے جڑے اور کچھ ہی عرصہ میں اپنی خداداد صلاحیتوں کی بنا پر قائدانہ کردار ادا کرنے لگے، اس وقت تک بزم سجاد کی جانب سے کوئی تحریری شمارہ شائع نہیں ہوتا تھا، باذوق طلبہ انفرادی طور پر تحریری مشق کیا کرتے تھے، فخر گیاوی نے اس بات کومحسوس کرتے ہوئے اس کمی کے ازالے کے مقصد سے طلبہ کے اندر تحریری ذوق پیدا کرنے، ان کی خوابیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کرنے اور ان کے ذوقِ تحریر میں مزید نکھار پیدا کرنے کے لیے اگلے ہی سال ’’البیان‘‘کے نام سے ایک ماہنامہ کا اجرا کیا اور جمادی الاولی 1353ھ میں اس کا پہلا شمارہ اپنی ادارت میں شائع کیا اور چار سال اس کے مدیر رہے، فخر گیاوی کو اس مقصد میں خاصی حد تک کامیابی بھی ملی، طلبۂ دار العلوم میں تحریر و زبان کا ایک خاص مزاج و مذاق پیدا ہونے لگا اور طلبہ کی ایک بڑی تعداد اس تحریک میں شامل ہوگئی، جن لوگوں نے اس تحریک سے متاثر ہو کر فن تحریر میں ایک خاص کمال پیدا کیا، ان میں سلیمان آسیؔ مظفر پوری، شمس الحق شمس ؔ مظفر پوری، صغیر احمد قاسمی، قمر ؔ بہاری، ازہر مونگیری، صداقت حسین چمپارنی، عبد الحنان گیاوی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ اس کے بعد سے اب تک ہزاروں شہسواران قلم اس بزم سے تیار ہوکر چہار دانگ عالم میں پھیلے ہوئے دینی و سماجی خدمات انجام دے چکے اور دے رہے ہیں۔

 

تدریسی و انتظامی زندگی

 

دار العلوم تاموے، رنگون (برما) میں

سہارنپور و دیوبند کے دور طالب علمی ہی میں موصوف ایک قاری قرآن کی حیثیت سے مشہور ہو چکے تھے۔ چناں چہ دار العلوم کی طالب علمی کے زمانے میں ہی مولانا محمود سورتی، مہتمم دار العلوم تاموے، کیمبل روڈ، رنگون نے اپنے مدرسے کی تدریس کے لیے انھیں باصرار پیشگی دعوت دے دی تھی تو فراغت کے بعد فخر گیاوی رنگون تشریف لے گئے اور ایک سال اس مدرسے میں مدرس رہے۔

 

جامعہ قاسمیہ رنگون کا قیام

 

ایک سال دار العلوم تاموے میں مدرس رہنے کے بعد شوال 1358ھ بہ مطابق اواخرِ نومبر یا اوائلِ دسمبر 1939ء میں اپنے شیخ مولانا مدنی کی دعا اور مولانا اعزاز علی امروہوی کے مشورے سے رنگون ہی میں ”جامعہ قاسمیہ” کے نام سے ایک مدرسے کی بنیاد رکھی اور دو سال تک اس مدرسے کو پروان چڑھایا اور شرح جامی تک کی تعلیم ہونے لگی؛ لیکن منشائے الٰہی سمجھیں کہ دوسری عالمی جنگ کے موقع پر جاپان کی رنگون پر بمباری سے قبل ہی اپنے والد اور شیخ کے حکم سے رنگون سے ہندوستان چل دیے اور ابھی کلکتہ ہی پہنچے تھے کہ رنگون پر بمباری کی خبر آ پہنچی۔

 

مدرسہ قاسمیہ اسلامیہ، گیا کے اہتمام کی ذمے داری

رنگون سے واپسی کے بعد اپنے شیخ مولانا مدنی کے مشورہ و دعا اور اپنے والد کے حکم سے مدرسہ قاسمیہ اسلامیہ، گیا کے انتظام و اہتمام کی ذمے داری سنبھالی، ان کے دور اہتمام میں اس مدرسے نے خوب ترقی و شہرت حاصل کی، 1941ء سے اپنی وفات 1988ء تک تقریباً 47 سال اس ادارے کے مہتمم رہے، آج اس مدرسے کی تقریباً 100 شاخیں ہیں۔

یہ ادارہ شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی، فدائے ملت مولانا سید اسعد مدنی کا منظور نظر تھا۔ مولانا سید ارشد مدنی اور مولانا قاری محمد عثمان منصور پوری بھی اس مدرسے میں تدریسی خدمات انجام دے چکے ہیں۔

 

بعض مشہور تلامذہ

ان کے مشہور تلامذہ میں ان کے فرزندِ اکبر مولانا محی الدین گیاوی، فرزندِ اصغر مولانا قاری معین الدین قاسمی گیاوی، قاری عبد الرحیم بانکوی، حافظ میکائیل بانکوی، حافظ محسن صاحب، مولانا سید شمیم الحق گیاوی، مولانا سید قسیم الحق قسیم ؔ گیاوی، قاری سید محمد یعقوب فریدی سمستی پوری، مولانا قاری سید حسین احمد عارف ؔ گیاوی وغیرہم بھی شامل تھے۔ اِن کے علاوہ فخر گیاوی کے مشہور و غیر مشہور تلامذہ کی ایک کثیر تعداد ہے۔ (اب تک بندہ کو جو علم یوا، وہ لکھ دیا ہے، بے شک ان کے علاوہ مشہور تلامذہ کی کثیر تعداد ہوگی )

بیعت و خلافت

زمانۂ طالب علمی ہی میں مولانا بشارت کریم گڑھولوی سے متاثر اور ان کے معتقد تھے، مولانا گیاوی کو ان سے بہت دعائیں بھی ملتی تھیں؛ لیکن فراغت سے پہلے ہی مولانا گڑھولوی (1294ھ م 1877ء – 1354ھ م 1935ء) کا انتقال ہو گیا، پھر مولانا گیاوی؛ شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی (1296ھ م 1879ء – 1377ھ م 1957ء) رحمۃ اللّٰہ علیہ سے بیعت ہوئے اور انھیں کے ہو کر رہ گئے، ان کے منظور نظر اور ان کے اجل خلفاء میں سے ہوئے۔

شاعری

فخر گیاوی ایک کہنہ مشق، قادر الکلام اور فی البدیہ اشعار کہنے والے شاعر تھے۔ ان کے اندر بچپن ہی سے شاعری کا ذوق اور خداداد صلاحیت موجزن تھی، زمانۂ طالب علمی ہی میں شعر کہنا شروع کر دیا تھا۔ ابتدا میں تبسم ؔ تخلص کرتے تھے، پھر مستقل تخلص فخر ؔ اختیار کیا۔ وہ عربی، فارسی اور اردو؛ تینوں زبانوں میں شعر کہتے تھے، شاعری میں ان کے خاص استاذ رسا ؔ ہمدانی گیاوی (متوفی: 1948ء) تھے۔ بسمل ؔ سنسہاروی (متوفی: 1964ء) سے بھی مشورۂ سخن لیا، نیز انھوں نے دار العلوم دیوبند کے زمانۂ طالب علمی میں اردو فارسی میں مبلغ دار العلوم دیوبند ابو الوفا عارف ؔ شاہ جہاں پوری (1901ء – 1980ء) سے اور عربی شاعری میں شیخ الادب مولانا محمد اعزاز علی امروہی (1299ھ م 1882ء – 1374ھ م 1955ء) سے بھی اصلاح لی۔

تصانیف و قلمی خدمات

فخر گیاوی کی مطبوعہ تصانیف چار ہیں:

(1) درس حیات: جس میں انھوں نے مولانا عبد الغفار سرحدی گیاوی، مولانا بشارت کریم گڑھولوی اور مولانا محمد خیر الدین گیاوی رحہم اللّٰہ کی تفصیلی سوانح حیات جمع کی ہیں۔ جس کا دوسرا ایڈیشن 1431ھ بہ مطابق 2010ء میں فخر گیاوی کی بہن کے نواسے اور پوتی داماد مفتی محمد اعظم ندوی (استاذ المعھد العالی الاسلامی، حیدرآباد) کی نظر ثانی اور حالاتِ مصنف کے مزید اضافے کے ساتھ شائع ہوا۔

(2) نورِ ایمان: یہ فخر گیاوی کی حمدیہ، نعتیہ، اصلاحی اور اسلامی نظموں کا مجموعہ ہے، جو خاصا مقبول ہوا۔

(3) نوائے درد: یہ مولانا بشارت کریم گڑھولوی کی رحلت پر کہے گئے اشعار کا مجموعہ ہے۔

(4) نذر عقیدت: یہ ان کے پیر و مرشد شیخ الاسلام مولانا مدنی کی شان میں کہے گئے اشعار کا مجموعہ ہے۔ نیز جیسا کہ اوپر آچکا ہے کہ جمعیت علمائے ہند کا مشہور ترانہ ’’یہ لہراتا نظر آتا ہے حزب اللّٰہ کا جھنڈا‘‘ انھیں کے قلم سے نکلا ہوا ادبی شاہکار ہے۔

 

وفات اور پسماندگان

فخر گیاوی کی وفات چند دنوں کی علالت کے بعد 2 جمادی الاخری 1408ھ بہ مطابق 9 فروری 1988ء کو گیا میں ہوئی، خاندان مدنی سے ان کے والہانہ تعلقات اور خانوادۂ مدنی کے نزدیک ان کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ فدائے ملت مولانا سید اسعد مدنی کو جب ان کے انتقال کی خبر پہنچی تو فوراً ہوائی جہاز سے گیا کے لیے روانہ ہو گئے اور ان کی نماز جنازہ بھی فدائے ملت نے پڑھائی۔ کریم گنج قبرستان، شہر گیا میں مدفون ہیں۔

پس ماندگان میں دو بیٹے تھے: (1) مولانا محی الدین قاسمی گیاوی، (2) مولانا قاری معین الدین قاسمی گیاوی، سابق صدر جمعیت علمائے بہار (الف) و سابق مہتمم مدرسہ قاسمیہ اسلامیہ گیا (دونوں وفات پا چکے ہیں) اور دو بیٹیاں ہیں، جن میں سے ایک مولانا قاری حسان احمد گیاوی ثم مکی، خلیفہ و مجاز شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی سے منسوب ہیں اور دوسری؛ مولانا سید محمد ادریس سالم کٹکی سے منسوب ہیں۔

 

اللّٰہ تعالیٰ مرحوم اور ان کے عالی مقام خانوادہ کی مغفرت فرمائے اور ہمیں بھی ان کی صفات و اخلاق کا حصۂ وافر عطا فرمائے۔ آمین

Comments are closed.