Baseerat Online News Portal

بک رہے ہیں جنوں میں کیا کیا

نوراللہ نور

نیوز چینلز اور اس کے اینکروں نے صحافت جیسے انتہائی حساس اور ذمہ داری سے پر شعبے کا بیڑا غرق کر کے رکھا ہے حکومت نوازی اور ٹی آر پی میں اضافے کی بھوک نے انہیں اس قدر کور چشم بنادیا ہے کہ کیا غلط ہے اور کیا صحیح ہے اس کا امتیاز ہی ان سے مفقود ہو گیا ہے میڈیا جو ملک کے لیے آینہ کی حیثیت رکھتا ہے جس میں سماج میں ہونے والی نقص و کمی کو بتلا یا جاتاہے اور حکومت کی خامیوں پر مطلع کیا جاتا ہے اس قدر دھندلا کردیا ہے کہ اس میں صرف ایک نظریہ کی تشہیر اور ایک ہی شخص مدح سرائی ہوتی ہے اور انہیں خبر ہی نہیں ہوتی کہ وہ کیا کہ رہے ہیں۔
میڈیا اپنی ذمہ داری سے پرے نفرت عصبیت اور تشدد کو بر انگیختہ کر نے کا ہی کام کر رہی ہے کچھ دن قبل جماعت کے لوگوں کو اپنی جاہلیت کا نشانہ بنایا اور بے قصور لوگوں کی خواہ مخواہ فضیحت کی اور کج خلقی و بد اخلاقی کی ساری حدوں کو پار کرتے ہوئے معاملے کی تحقیق کی کو شش ہی نہیں کی اور ساری مسایل سے توجہ ہٹاکر پوری توانائی بس جماعت کو رسوا کرنے میں صرف کردی مگر ان کو خود رسوائی ہاتھ لگی یہ تو بطور تمثیل ہے باقی چھ سالوں میں نفرت کی تشہیر کے علاوہ کچھ کام نہیں کیا اور دن رات بس ایک ہی طبقے کی پیچھے ہاتھ دھوکر پڑ گئے جب کہ اور بھی مسایل تھے جن پر گفت و شنید کرنی چاہئے تھی اور کتنے ہی حساس موضوع تھے جس پر ڈی بیٹ ہونی چاہیے تھی مگر ان سب سے قطع نظر اول فول خبروں اور بے , جا لا حاصل ؛ بے مقصود ڈی بیٹ ہوئے۔
اب چونکہ انتخابات کی فضا آنے والی ہے تو صاحب کی ناکامیوں پر پردہ ڈالنا ضروری ہے تاکہ بہار میں کامیابی راہ کھلیں اور دوسری بات یہ ہے ابھی ان کے پاس کوئی ایک ایسا ٹوپک بھی نہیں جسے چٹخارے کے طور پر نمک مرچ لگا کر پیش کیا جائے اور ٹی آر پی کے دھندے کو فروغ ملے تو اب انہوں نے ایک بے تکا اور جاہلانہ شگوفہ چھوڑدیا ہے جس کو سدرشن نیوز چینل ہوسٹ کرے گا جو نفرت کو بڑھاوا دینے میں پیش پیش رہتا ہے اب ان کا نشانہ اسلاف کی نشانی اور عظیم‌ تعلیم گاہ جامعہ ملیہ پر ہیں اس کی حالیہ کامیابی ان زعفرانیوں کے گلے سے نیچے نہیں اتر رہی ہے اب ان کو یہاں بھی دہشت گرد اور جہادی مل گیا ان کو تشویش ہے کہ آخر اتنی تعداد میں مسلمان آی ایس؛ آی پی ایس کیسے تیار ہوگئے اب ان کا کہنا ہے کہ یہ جہادی لوگ تعلیم گاہوں پر قابض ہیں اس لیے وہاں سے من چاہے اعتبار سے مسلم آی ایس آی پی ایس افسران تیار ہو رہے ہیں اور وہ اس کے پس پردہ دہشت گردی کو فروغ دے رہے ہیں ذرا سوچیں ایسی ذہنیت کے لوگ اب تعلیم گاہوں اور طلبا کو بھی نہیں بخش نہیں رہے ہیں تف ہے ایسے لوگوں پر پتہ نہیں کون سی دنیا میں رہتے ہیں اور کیا پی کر اینکرنگ کرتے ہیں بھائی تعلیم گاہیں ان کے قبضے میں ہیں وہ آپ کے سرکار کے زیر تصرف ہے ساری کارروائی اور سارے لوگ وہاں سرکار کے بیٹھے ہوئے ہیں تو پھر یہاں پر دہشت گردی کو فروغ دینا اور جہادی لوگ کا منصوبہ بندی کرنا کیسے ممکن ہے یہ تو بے سرو پا والی بات ہے اس طرح دیکھا جائے تو دیگر یونیورسٹی کے طلباء و طالبات بھی اس امتحان میں کامیابی حاصل کی ہیں تو کیا وہ بھی جہادی ہیں عجیب حماقت ہیں بس جنوں میں بکے جا رہے ہیں نشے میں مخمور حقیقت سے منحرف ہو کر جھوٹا پرو پیگنڈہ میں لگے ہوئے ہیں۔
افسوس اس بات کا نہیں کہ وہ اس طرح کا پروگرام نشر کر رہے ہیں کیونکہ انہوں نے نفرت کے علاوہ محبت کی بات ہی نہیں کی متشدد گفتگو کے علاوہ سنجیدگی سے مسلے کو پیش نہیں ہی نہیں کیا بلکہ افسوس اس بات کا ہے کہ اس دریدہ دہنی اور نوجوان صلاحیتوں کی حوصلہ شکنی پر سب خاموش ہیں اگر اس طرح کے جاہلانہ پروگرام کے نشر پر بندش نہیں لگے گی اور ایسے لوگوں کی نکیل نہیں کسی جاے گی تو آنے والے بچے ان‌ کے زہر سے خایف ہوکر اس راستے کو ترک کر دیں گے اور اس سے انحطاط و پستی کی راہ کھلے گی اس طرح کے حوصلہ شکن اور متعصبانہ اقدام پر روک نہیں لگی تو تعلیمی اداروں پر چور اچکو ڈاکو کا تسلط ہو جائے گا
آخر میڈیا جو ملک کا ایک اہم شعبہ ہے جو سماج میں ہم آہنگی کا ذریعہ بن سکتا ہے اس کی غیر اخلاقی رویہ پر کوئی زبان ہی نہیں کھولتا اور یہ ہمیشہ غیر ذمہ دارانہ بے وقوفانہ حرکت کے مرتکب ہوتے ہیں ہمہ وقت کوی نہ کوئی خطا ضرور کرتے ہیں اپنے اس رویہ کی وجہ سے صحافت کی روح کو ٹھیس پہنچا رہے ہیں اور اس کے اعلی مفاد کو پس پشت ڈال رہے اس کے خلاف اور نیوز چینلز کے ذریعہ نفرت اور طوفان بدتمیزی پر سب لب بستہ ہیں یقین مانیے ان بچوں پر کیا گذری ہوگی جب انہوں نے یہ نیوز سنا ہوگا ان کو کیا خبر کہ کتنی مشقت سے اس میں کامیابی حاصل ہوتی ہے اگر ہم آج مضرت رساں پروگرام کے خلاف نہیں آواز بلند کرتے ہیں تو کل ہوکر ہمارے اپنے بھی جب ان کی درندگی کا شکار ہونگے تب جاکر ہم بیدار مگر اس وقت بہت دیر ہو جائے گی
ویسے اب نیوز چینلز پر جاری پروگرام اور ان کے اینکروں کی بے وقوفانہ حرکت کو دیکھ کر ایک ہی بات سمجھ آتی ہے کہ بک رہے ہیں جنوں میں کیا کیا گرد و پیش کی کوی خبر ہی نہیں

Comments are closed.