Baseerat Online News Portal

حضرت مولانا عبدالعلیم فاروقی، کچھ سنہری یادیں

مولانا حکیم محمود احمد خاں دریابادی

رکن آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ

 

ہائے ہر چند دن کے بعد ایک تعزیتی تحریر لکھنی پڑرہی ہے، آج نبیرہِ امام اہل سنت حضرت مولانا عبدالعلیم فاروقی علیہ الرحمہ پر لکھنا ہے وہ بھی رخصت ہوئے، کیا لکھوں، کیسے لکھوں، جذبات امڈ رہے ہیں، مگر الفاظ ساتھ نہیں دے رہے، ذہن سپاٹ ہے، خیالات منتشر، کئی مرتبہ لکھنا شروع کیا، ایک سطر بھی نہیں ہوئی تھی کہ مضامین کی آمد بند ہوگئی، جیسے چلتے چلتے کسی گاڑی کا انجن فیل ہوجائے ـ آج بنام خدا ہمت کرکے لکھنا شروع کررہا ہوں، ممکن ہے قارئین کو میری سابقہ تحریروں اور زیر نظر تحریر میں فرق نظر آئے تو اس کے لئے میں معذرت کا خواستگار ہوں گا، یہ آمد اور آورد کا فرق ہے ـ

حضرت مولانا بڑے خاندان اور بڑے باپ کے جانشین تو تھے ہی خود بھی بڑے آمی تھے، تواضع انکسار کے پیکر، چھوٹوں کی حوصلہ افزائی کرنے والے، نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو، دشمنانِ صحابہ کے لئے دُرّہِ فاروقی کی مثال، حق گوئی و حق پرستی جن کا شعار، تحریر لاجواب، تقریر بے مثال، رفض وبدعات کے لئے شمشیر برہنہ! ……….. نورانی چہرہ، بڑی اور روشن آنکھیں، کشادہ پیشانی، لکھنو کا نستعلیق انداز، مزاج میں شام اودھ جیسی شگفتگی، ہم نے سیاہ ڈاڑھی میں بھی دیکھا تھا اب سفید ہوگئی تھی ـ

یاد پڑتا ہے پہلی رو برو ملاقات ممبئی میں ان کے عم زادے حضرت مولانا عبدالعلی فاروقی کے ساتھ ہوئی تھی، انھوں نے ہی تعارف کرایا تھا، دونوں بزرگوں کے ساتھ دیر تک گفتگو رہی، مختلف موضوعات جیسے مشاجرات صحابہ، بدعتیوں کی شرارتیں، روافض کی بدمعاشیاں، تحریک مدح صحابہ، فرق باطلہ کے لئے حضرت امام اہل سنت کی خدمات، خصوصا لکھنو میں غالی رافضیوں کے درمیان سربکف ہوکر اُن کی جانبازانہ مزاحمت ـ ……….. شاید اس مجلس میں حضرت مفتی عزیرالرحمن صاحب و دیگر کچھ علماء بھی تھے، میں اس وقت مولانا یا حضرت نہیں کہلاتا تھا،بالکل نوجوان، لاابالی انداز والا، چہرہ مہرہ لباس وغیرہ بھی بڑی حد تک غیر مولویانہ تھا، تاہم بزرگوں کی اس گفتگو کے درمیان حسب عادت دخل دیتا رہتا تھا، کبھی کبھی سوال بھی کرلیتا تھا ـ……….. اس پہلی ملاقات کے بعد دوسرے دن پھر ملاقات ہوئی، بڑی شفقت کے ساتھ فرمانے لگے کہ مجھے آپ سے مل کر بڑی خوشی ہوئی، اگرچہ بڑی ڈارھی، شیروانی، دوپلی یا گول ٹوپی، لمبا کرتا، اونچا پاجامہ اور دیگر مولویانہ لوازمات آپ کے پاس نہیں ہیں پھر بھی نہ جانے کیوں آپ سے خصوصی لگاو محسوس ہونے لگا ہے ـ

اس کے بعد بھی ملاقاتیں ہوتی رہیں ممبئی میں مختلف پروگراموں میں تشریف لاتے، ہم نے بھی انجمن اہل سنت کے کئی جلسوں میں حضرت کو زحمت دی، تقریبا ہرملاقات میں یہ ضرور فرماتے کہ ” سچ کہتے ہیں ہمارے دل میں آپ کی بڑی قدر ہے،اور محض اللہ کے لئے آپ سے محبت کرتے ہیں ” ـ ………. چند سال قبل لکھنو کے ایک خطیب کچھ نامعلوم وجوہات کی بنا پر اپنے اسلاف کی ڈگر سے ہٹ گئے اور روافض کی تقلید میں صحابہ کرام دیگر بزرگان کے خلاف ہذیان بکنے لگے، حضرت مولانا عبدالعلیم فاروقی نے سب سے پہلے اس کا نوٹس لیا، کیوں نہ لیتے؟ وہ تو خاندانی طور پر ہی جانثاران صحابہ میں سے تھے………،اُنھوں نے حوالوں کے ساتھ اس خطیب کی خبر لی، ایک ویڈیو میں اس گستاخ صحابہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ ” یاد رکھو تمھارا منہ کالا ہوجائے گا ” ـ واقعی یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ جو طبقہ صحابہ کرام کے خلاف گستاخی کو کار ثواب سمجھتا ہے آخر عمر میں ان لوگوں کے چہروں سے نحوست ٹپکنے لگتی ہے ـ

اُس موقع پر میں نے بھی کئی تحریریں حضرات صحابہ کے دفاع میں لکھیں اور اپنے انداز میں اس خطیب کو آئینہ دکھایا، ………… حالانکہ میں حضرت کو اپنی کج مج تحریریں نہیں بھیجا کرتا تھا مگر میری ہر تحریر کسی نہ کسی طرح اُن تک پہونچتی اور ہر مرتبہ مجھے براہ راست فون کرکے حوصلہ افزائی فرماتے مبارکباد دیتے، ایک ملاقات کے دوران میری کئی تحریروں کے پورے پورے جملے نقل فرمائے،……….. اسی دوران ممبئی میں انجمن اہل السنہ والجماعۃ کے ایک بڑے اجلاس میں تشریف لائے تھے، اپنی تقریر ختم کرنے کے بعد جب مجھے بھی اسٹیج پر بیٹھا دیکھا تو بھرے اجلاس میں ہزاروں کے سامنے گلے لگا کر حوصلہ افزائی فرمائی، ………… واقعی بڑوں کی بات بھی بڑی ہوتی ہے ـ

آخری ملاقات لکھنو میں اُن کی قیام گاہ پر مفتی توصیف صاحب کے ساتھ ہوئی تھی، بڑی پذیرائی فرمائی چلتے وقت امام اہل سنت کی کئی کتابیں عنائت فرمائیں، کسے پتہ تھا کہ یہ آخری مصافحہ، آخری معانقہ اور آخری زیارت ہے ـ

صاحبزادگان، پسماندگان و متوسلین کی خدمت میں تعزیتِ مسنونہ پیش کرتے ہوئے یہ سوچ رہاہوں کہ میری ساری تحریریں حضرت کی نظر سے گزرتی تھیں، تحسینی کلمات بھی سننے کوملتے تھے، مگر صد ہزار افسوس کہ میری آج کی تحریر ان کی نگاہ التفات سے محروم رہے گی اور میرے کان بھی حضرت کے شفیق لہجے کی شاباشی کو نہیں سن پائیں گے ـ سچ پوچھئے تو یہ میرا ایک بڑا نقصان ہے ـ دعا کرتا ہوں کہ …….

ہونہ میلا کبھی کفن تیرا
صورت گل رہے بدن تیرا
رحمتوں کا نزول ہو تجھ پر
خوش خدا اور رسول ہوتجھ پر

محمود احمد خاں دریابادی
۲۵ اپریل ۲۰۲۴ شب گیارہ بجے

Comments are closed.