Baseerat Online News Portal

تذکرہ داعی اسلام محمد پالن حقانی گجراتیؒ (1922ء – 2003ء)

 

 

محمد روح الامین میوربھنجی

 

تاریخ تکمیل تحریر: 11 ذی قعدہ 1443ھ بہ مطابق 12 جون 2022ء بہ روز اتوار

 

ہر زمانہ میں اس زمانے کے دیگر دنیاوی تقاضوں کی طرح دینی و ایمانی تقاضے بھی ہوتے ہیں، جن کو اللّٰہ تعالیٰ دیگر دنیاوی تقاضوں کی طرح پورا فرماتے رہتے ہیں؛ اس سلسلے کا سب سے بڑا اور بنیادی تقاضا ہدایت ہے، اس تقاضے کو پورا کرنے کے لیے اللّٰہ تعالیٰ نے ہر زمانہ میں ہر قوم کے لیے الگ الگ نبی اور رسول بھیجے، جس کو قرآن کریم میں ”ولکل قوم ھاد“ سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ قرآن کریم میں ”ولكن رسول اللّٰه و خاتم النبيين“ کے ذریعے ہمارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے آخری نبی ہونے اور ان کے ذریعے سلسلۂ رسالت و نبوت پر مہر لگائے جانے کا اعلان کیا گیا ہے؛ لیکن ہدایت پر مہر لگا کر اس کا سلسلہ ختم نہیں کر دیا گیا؛ بلکہ نبی خاتم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی امت کی رشد و ہدایت کے لیے قدرت کا یہ فیصلہ چلا آ رہا ہے کہ وہ ہر زمانہ میں اسی امت میں سے امت ہی کی دینی و اخروی خیر و بھلائی کے لیے انھیں میں سے کسی کا انتخاب کرکے اسے قوم و ملت کے لیے ذریعۂ رشد و ہدایت بنا دیتا ہے اور اس کے لیے باقاعدہ عالم ہونا بھی ضروری نہیں ہوتا، جس کی بہت سی نظیریں موجود ہیں، اسی سلسلے کی ایک کڑی جناب محمد پالن حقانی گجراتی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی ہے، جو زندگی کا ایک حصہ بدعات و رسومات میں گزار کر ہدایت یاب ہوئے، پھر اپنی بقیہ زندگانی نسیمِ ہدایت کا جھونکا بن کر گزاری اور ہزاروں زندگیوں کے لیے رشد و ہدایت کا باب بنے اور جنھوں نے صرف گجرات و مہاراشٹر میں ہی نہیں؛ بلکہ ملک کے بیشتر شہروں اور قریوں کے اسفار کرکے بدعات وخرافات کی حقیقت مدلل و معقول انداز میں لوگوں کے سامنے بیان فرمائے۔ میرا موضوع تحریر انھیں کی حیات و خدمات پر روشنی ڈالنا ہے۔

 

نام و خاندان

محمد پالن حقانی کا اصل نام ”محمد“ تھا، ”پالن“ کا لاحقہ والد (جن کا نام پالن تھا) کی طرف نسبت کرتے ہوئے تھا، اور ”حقانی“ ان کو حق بیانی اور دعوت حق کی نسبت سے کہا گیا۔ ان کا خاندان رہ زنی، ڈکیتی اور بدعات و خرافات میں مصروف اور دلیری و بہادری میں مشہور تھا۔

 

ولادت اور خاندانی و وطنی پس منظر

محمد پالن حقانی کی ولادت 11 نومبر 1922ء بہ روز سنیچر ہوئی تھی۔ ان کا آبائی وطن سابق ہندوستانی ریاست سوراشٹر (کاٹھیاواڑ) کے موربی ضلع کا ”مالن” نامی علاقہ تھا، ریاست سوراشٹر 1958ء میں ریاست ممبئی میں شامل کی گئی، پھر 1960ء میں ریاست ممبئی کی تقسیم کرکے موجودہ دو الگ الگ ریاستیں: مہاراشٹر اور گجرات وجود عمل میں آئیں۔ محمد پالن حقانی کا خاندان ابتداءً مالن، ضلع موربی میں آباد تھا، پھر وہاں سے ہجرت کرکے احمد آباد آگیا، پندرہ سال احمد آباد میں رہ کر وانکانیر میں آکر آباد ہوگیا، وانکانیر 2013ء تک راجکوٹ ضلع میں آتا تھا اور آج وہ موربی ضلع کا حصہ ہے۔

 

بچپن سے جوانی تک

چوں کہ حضرت حقانی کے والد کا پیشہ رہ زنی اور ڈکیتی تھا تو وہ حکومت کی نظر میں تھے، انگریزی دور میں لوٹ مار اور قتل و غارت گری کے الزام میں حقانی صاحب کے والدین جیل میں بند تھے، حقانی صاحب جیل ہی میں پیدا ہوئے، حقانی صاحب ابھی چھ ماہ کے ہی تھے کہ ان کے والد ماجد گولی لگنے سے جاں بحق ہوگئے۔ ان کی والدہ محنت مزدوری کرکے موصوف اور ان کے بڑے بھائی کی پرورش کرتی تھیں، نہایت پاکباز تھیں، جب وہ بارہ تیرہ سال کے ہوئے تو ان کی والدہ نے انھیں ان کے بھائی سمیت احمد آباد کے ایک کپڑا بننے والی مِل میں کام کے لیے بھیج دیا، بچپن میں گاؤں کے مولوی صاحب سے ہلکی پھلکی گجراتی اور اردو پڑھ لی تھی، یہ مختصر و محدود علم آگے چل کر دینی علوم پڑھنے اور تبلیغی و تصنیفی خدمات کے سلسلے میں ان کے لیے نہایت مفید و نافع ثابت ہوا۔ چوں کہ آواز بچپن سے بہت ہی اچھی تھی تو انھوں نے شوقیہ باقاعدہ گانا بجانا سیکھا اور اس طرح سے حقانی قوال بن گئے، نعتیہ قوالی بھی کیا کرتے تھے، گانے بجانے سے کی گئی کمائی کو جائز نہیں سمجھتے تھے اور وہ رقم ساز بجانے والوں کو دے دیا کرتے تھے۔ خورد و نوش کے لیے مل میں مزدوری کرتے تھے، اس طرح سے زندگی کی گاڑی آگے بڑھتی رہی؛ یہاں تک کہ حقانی صاحب کا تار ایک مجذوب صفت ولی علی شاہ بابا سے جڑ گیا، جن کے پاس دعائیں لینے چلے جایا کرتے تھے، ایک مرتبہ ان بابا صاحب نے انھیں اپنی بچی ہوئی کھچڑی کھانے کے لیے دی، وہ انھوں نے کھالی، جس کے اثر سے ان کے دل کی دنیا بدل گئی، گانے بجانے سے نفرت اور نماز روزے کی طرف رغبت ہونے لگی اور خلق خدا کو راہ حق سمجھانے کا جذبہ دل میں پیدا ہونے لگا اور اردو اور گجراتی زبان میں فقہ، حدیث اور تفسیر کی کتابیں خرید کر جمع کرنے لگے اور ان کا مطالعہ کرنے لگے، شوقِ تحصیلِ علم ایسا پیدا ہوا کہ کمائی کا زیادہ تر حصہ کتابیں خریدنے کی نذر ہو جاتا، بدعات وخرافات کی زندگی سے رشد و ہدایت والی زندگی پائی تھی تو بدعات وخرافات میں پڑے دیگر مخلوق خدا کی ہدایت و فلاحِ آخرت اور ان کے اصلاح حال کے لیے کوشاں ہوئے، جو کچھ سیکھتے انھیں دوسروں کو سکھاتے تھے، شام کو دو گھنٹہ بچوں کو، پھر مغرب تا عشاء اپنے ہم عمر لڑکوں کو، اسی طرح مل سے چھٹی ہونے کے بعد مل مزدوروں کو پڑھاتے تھے، ان کی اس خدمت سے بہت سے لوگوں نے نماز قرآن والی زندگی اختیار کر لی، بہتوں نے اپنے چہروں پر سنت کا نور سجا لیا، آہستہ آہستہ ان کا یہ سلسلہ لوگوں کے آنکھوں میں چبھنے لگا، گھر والے اور متعلقین مخالفت پر اتر آئے، شرعی لباس پہننا شروع کیا تو مذاق اڑانے لگے، لوگوں کو بدعات و خرافات کی حقیقت سمجھانا اور دین و سنت نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم سکھانا شروع کیا تو اہل قوم مخالف ہوگئے، بائیکاٹ کیا، گالیاں دیں اور گاؤں سے نکال دیا، ان کا قائم کیا ہوا مدرسہ بند کروا دیا، خدمت دین کے لیے کرایہ پر لیا ہوا مکان چھین لیا گیا، وہاں دین اور نماز پڑھنا پڑھانا ممنوع کر دیا گیا؛ غرضے کہ جوں جوں ان کی مخالفت کی گئی خدمت دین کا جذبہ اور زیادہ بڑھ گیا، اپنے محلہ اور گاؤں سے بڑھ کر پورے سوراشٹر، پھر پورے گجرات میں تبلیغ دین کے لیے دورے ہونے لگے اور راہ حق کے طلب گار لوگوں میں خوب مقبول ہونے لگے، وعظ و نصیحت کا سلسلہ شروع ہو گیا، متمول طبقہ کے لوگ بھی ان کی طرف مائل ہونے لگے، پہلے بڑی بڑی کتابیں خریدنا مشکل تھا تو من جانب اللہ غیب سے اس کا بھی انتظام ہوگیا، کسی نے لاوڈ اسپیکر کا بھی انتظام کروا دیا، جب خدمت و تبلیغ دین میں بہت زیادہ منہمک ہوئے تو ملازمت کو بھی خیرباد کہ دیا، کتب بینی اور دین میں تدبر و تفکر میں وقت صرف کرنے لگے۔

 

خدمت دین کے لیے غیبی نصرت

اللّٰہ تعالیٰ نے ان کو وہ قوت حافظہ دیا تھا کہ قرآن کی سینکڑوں آیات کریمہ، صحاح ستہ کی بے شمار احادیث مبارکہ، معتبر اور مستند تفاسیر کے بے شمار حوالے انھیں ازبر ہوگئے تھے، جب تبلیغ دین کرتے تو برجستہ و بر موقع آیت، سورہ اور پارہ نمبر کے ساتھ قرآن کی آیات یوں پڑھتے، ان کا مطلب بتاتے ہوئے تفسیر کی کتابوں کا حوالہ اس طرح ان کے نوک زبان پر ہوتا تھا اور احادیث مبارکہ مع حوالہ جات ایسے سنایا کرتے تھے کہ اس حقیقت حال سے بڑے بڑے علماء بھی دنگ رہ جاتے تھے۔

 

تبلیغی اسفار

تبلیغ دین کے لیے یوں مشہور ہوئے کہ اخبار میں بھی ان کی خبریں ہوا کرتی تھیں، گجرات سے نکل کر رفتہ رفتہ پورے ملک جیسے ممبئی، کانپور، مہراج گنج، فتح پور، مئو، مرادآباد، حیدرآباد، سکندرآباد، ورنگل، جمشید پور اور کٹک وغیرہ میں تبلیغی و تقریری اسفار ہونے لگے؛ یہاں تک کہ رفتہ رفتہ لندن و افریقہ جیسے بیرون ممالک میں بھی مشہور و مقبول ہوگئے، لوگ اپنے اپنے علاقوں میں ان کا پروگرام کروایا کرتے اور جوق در جوق ان کا بیان سننے آیا کرتے تھے اور شرک و بدعات والی زندگی سے تائب ہو کر سنت و ہدایت والی زندگی گزارنے لگتے تھے، جس کی وجہ سے اہل بدعت میں ناراضگی پیدا ہوگئی تھی اور ان کی طرف سے موصوف پر کئی قاتلانہ حملے بھی ہوئے، ان کی کتاب شریعت یا جہالت کو نذر آتش بھی کیا گیا۔

 

انداز تقریر

حق و باطل کو مدلل و محقق انداز میں عوام کو اس طرح سمجھاتے تھے کہ ہزاروں اور لاکھوں کا مجمع گھنٹوں بندھا رہتا تھا (ان پر لکھی گئی سوانحی کتاب میں تو پچاس ہزار سے پانچ لاکھ مجمع کا ذکر ہے) اور اس سلسلے میں ان کے سفر کردہ علاقوں میں پیش آمدہ جناب حقانی کی آمد کے واقعات آج بھی مشہور ہیں۔ دلائل اس طرح بیان کرتے تھے کہ خواص بھی دنگ رہ جاتے تھے، نیز تقریروں میں پر ترنم اشعار اور پر حکمت حکایات و لطائف بھی شامل تھے، جن سے عوام خوب محظوظ ہوتے اور خوب عبرت حاصل کرتے تھے۔ ان کے لطائف کا مجموعہ مفتی محمد معصوم قاسمی (ناظم جامعہ عربیہ مدینۃ العلوم قصبہ منگلور، اتراکھنڈ) نے ”لطائف حقانی“ کے نام سے شائع کیا ہے، جو نہایت مشہور و مقبول ہے۔ تقریر کی مقبولیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ حقانی صاحب کو چھ چھ ماہ گھر جانے کا موقع نہیں ملتا تھا، ایک ایک سال کے پیشگی پروگرام طے رہا کرتے تھے۔

 

تبصرے

مولانا شاہ عالم گورکھپوری دامت برکاتہم ”حیات محمد پالن حقانی“ کے مقدمہ میں حقانی مرحوم کی تقریر پر تبصرہ کرتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں: ”راقم سطور کی تحقیق کے مطابق ماضی قریب کی تاریخ میں امیر شریعت حضرت مولانا عطاء اللّٰہ شاہ بخاری رحمۃ اللّٰہ علیہ کے بعد کسی کے وعظ و بیان میں اس قدر کثیر مجمع اگر کسی خوش نصیب کو ملا تو وہ حضرت مولانا محمد پالن حقانی تھے“۔

مولانا نسیم احمد غازی (متوفّٰی: 2017ء) سابق شیخ الحدیث جامعۃ الہدیٰ مرادآباد نے مرحوم کی کتاب ”قرآن و حدیث اور مسلک اہل حدیث“ پر تقریظ لکھی ہے، جس کا کچھ حصہ ملاحظہ کیا جا سکتا ہے: ”حقانی صاحب امی ہیں، کسی ادارہ سے رسمی فراغت تو در کنار وہ اردو لکھنے پڑھنے پر بھی پوری قدرت نہیں رکھتے، اس کے با وجود حق تعالی نے ان کو قرآن وحدیث اور فقہ و عقائد وغیرہ علوم پر ایسا زبردست عبور دیا ہے کہ وہ اپنے مواعظ و بیانات میں بلا تکلف آیات، احادیث اور مسائل کو مکمل حوالوں، آیت نمبر بقید باب، صفحہ و سطر ذکر کرتے ہیں، قادر مطلق نے ان کو خیرالقرون کا سا مضبوط حافظہ اور ذہنِ رسا عطا فرمائے ہیں، مسائل فقہیہ و مباحث اختلافیہ کو بڑی وضاحت و تحقیق کے ساتھ اس انداز میں بیان فرماتے ہیں کہ مغالطے اور شکوک وشبہات دور ہوتے چلے جاتے ہیں، ان کے بیانات عام فہم، دلوں میں اتر جانے والے اور سامعین میں ایک صالح انقلاب برپا کر دینے والے ہوتے ہیں، طرز بیان ان کا نرالا اور طریقۂ تعبیر انوکھا اور ان کی اپنی زبان جدا گانہ ہے“

 

تصانیف

انھوں نے قرآن و حدیث اور تفاسیر قرآن کے مدلل حوالہ جات کے ساتھ ایسی ایسی کتابیں تصنیف کیں کہ آج بھی اپنی مثال آپ ہیں اور منظور نظرِ خواص و عوام ہیں، جیسے شریعت یا جہالت، تقاریر حقانی، عبادت کر رب کی اور اتباع کر رسول ﷺ کی وغیرہ۔

 

جب جوانی و قوت کے زمانے میں بہ کثرت ان کے اسفار ہوا کرتے تھے، اس وقت سترہ سال کی محنت و مشقت کے بعد ”شریعت یا جہالت“ نامی کتاب لکھی تھی، پھر عرصۂ دراز تک تالیفی سلسہ موقوف رہا؛ لیکن جب ضعف بہت آگیا تو اسفار کا سلسلہ منقطع یا کم ہوگیا اور تب قلم اٹھالیا اور بقیہ کتابیں لکھیں۔

 

ان کی کتابوں کے نام مندرجۂ ذیل ہیں:

(1) شریعت یا جہالت

(2) تقاریر حقانی

(3) انگوٹھی خطرے سے خالی نہیں

(4) قرآن و حدیث سے باطل کا فیصلہ

(5) حق اور باطل میں جنگ

(6) قرآن و حدیث اور مسلک اہل حدیث

(7) تین جماعتیں جنت میں جائیں گی

(8) ضد میں ابلیس سے آگے

(9) عبادت کر رب کی اور اتباع کر رسول ﷺ کی

 

حیات حقانی پر کتاب

جناب محمد پالن حقانی گجراتی رحمۃ اللّٰہ علیہ پر ”حیات محمد پالن حقانی“ کے نام سے گجرات کے ایک عالم مریڈیا سفیان بن محمد امین نے ایک کتاب لکھی تھی، جو 2018ء میں دار العلوم دیوبند کے مہتمم مفتی ابو القاسم نعمانی، جامعۃ القراءۃ کفلیہ (گجرات) کے شیخ الحدیث مفتی رشید احمد لاجپوری اور جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل کے استاذ حدیث مفتی عبد القیوم راجکوٹی دامت برکاتہم العالیہ کے تقاریظ اور نائب ناظم کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت، دار العلوم دیوبند مولانا شاہ عالم گورکھپوری دامت برکاتہ کے مقدمہ کے ساتھ مولانا گورکھپوری کے نشریاتی ادارہ ”مرکز التراث العلمی، دیوبند“ سے بھی چھپ چکی ہے۔

 

”شریعت یا جہالت“ یا محمد پالن حقانی پر تنقیدی کتابیں

ان کی کتاب شریعت یا جہالت پر مشہور زمانہ بریلوی عالم مولانا ارشد القادری (متوفّٰی: 2002ء) نے ایک کتاب لکھی تھی، جس میں محمد پالن حقانی گجراتی کی شریعت یا جہالت نامی کتاب پر بے جا اور ظالمانہ تنقید کی ہوئی ہے، جو ”شریعت بہ جواب شریعت یا جہالت“ کے نام سے شائع ہوئی اور انٹرنیٹ پر بھی دستیاب ہے۔ نیز ایک کتاب انٹرنیٹ پر سید خالد قادری نامی مصنف کی ”پالن حقانی کی نقاب کشائی“ کے نام سے دستیاب ہے۔ مجھے محمد حقانی صاحب کے دار العلوم دیوبند میں زیر تعلیم صاحب زادہ محمد اطہر حقانی سے امید ہے کہ وہ ان کتابوں کا مدلل و معقول جوابی کتاب لکھیں گے ان شاء اللّٰہ۔

 

وفات

مرحوم کا انتقال 12 مئی 2003ء بہ روز پیر ساڑھے اکیاسی سال کی عمر میں ہوا اور اپنے علاقہ وانکانیر، گجرات ہی میں سپردِ خاک ہوئے۔

 

پس ماندگان

مرحوم کی تین بیویاں تھیں، جن میں سے پہلی کو چھوڑ کر بقیہ دو سے کل چودہ اولاد ہیں؛ جن میں سے گیارہ بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ بڑے صاحب زادہ جناب عبد الرشید صاحب گریجویٹ ہیں، نیز اپنے والد کی طرح ماشاء اللّٰہ دینی خدمات انجام دے رہے ہیں اور انھوں نے اپنے والد محمد پالن حقانی کی کتاب ”شریعت یا جہالت“ کا انگریزی میں ترجمہ بھی کیا ہے، ایک صاحب زادہ محمد انور حافظ قرآن ہیں اور ایک محمد اطہر حقانی فی الحال دار العلوم دیوبند میں عربی پنجم میں زیر تعلیم ہیں؛ البتہ تمام اولاد صوم و صلوٰۃ کے پابند ہیں۔ اولاد و پس ماندگان کی مزید تفصیل ”حیات محمد پالن حقانی“ میں مذکور ہے۔

 

قارئین سے درخواست ہے کہ کاتب تقدیر پروردگار سے اس کاتب تحریر خطہ کار کے لیے دعا فرمائیں کہ اسے بھی موصوف مرحوم سی صفات عطا فرمائے اور خدمت دین کے لیے قبول فرما لے۔ آمین ثم آمین

Comments are closed.