Baseerat Online News Portal

حُسنِ ظَن اور سوء ظن ]خوش گمانی اور بد گمانی[

 

محمد انعام الحق قاسمی

لجنہ علمیہ ، ریاض، مملکت سعودی عرب

2 مئی 2024ء موافق 22 شوال 1445ھ

حسن ظن]خوش گمانی[: نیک گمان، اچھّا خیال، اچھّی رائے، ‏ کسی مسلمان کے بارے میں اچھا گمان رکھنا ’’حسن ظن ‘‘کہلاتا ہے ۔

سوء ظن ]بد گمانی[: حسن ظن کی ضد “سوء ظن” سے مراد کسی کے بارے میں برا یا ناپسندیدہ گمان ،خیال یا فکر رکھنا ۔

حسن ظن [خوش گمانی] ایک عبادت ہے

دل اور دِماغ انسانی جِسْم کے اہم اَعضاء ہیں۔ دل انسانی جسم کیلئے بادشاہ ہے اور دماغ اس بادشاہ کیلئے وزیر و مُشیر کے مرتبے پر ہے۔ کسی بھی واقعے کی تصدیق یا تَردِید کی تحریک دماغ سے ہی پیدا ہوتی ہے۔ کبھی کبھی تو یہ تحریک اتنی زبردست ہوتی ہے کہ دل بھی دماغ کی تائید کر بیٹھتا ہے۔ ایسے میں دماغ سے دُرست اور مُثبَت خیالات کا پیدا ہونا ضروری ہے ورنہ گناہوں کا نہ رُکنے والا سلسلہ بھی شروع ہو سکتا ہے۔ قربان جائیے اسلامی تعلیمات پر جو دماغ کو ہمیشہ مُثبَت سوچنے یعنی حُسنِ ظن کی پابند بناتی اور بُری سوچ یعنی بَدگُمانی سے بچنے کی تاکید فرماتی ہیں۔ غور کیجئے کہ حُسنِ ظن میں انسان کو کچھ عمل نہیں کرنا پڑتا صرف اپنی سوچ کو مُثبَت سَمْت میں ڈھالنا ہوتا ہے یوں وہ بغیر کچھ عمل کئے اپنے رب سے اَجر و ثواب کا مستحق بن جاتا ہے۔

انسانی زندگی سے اور بالخصوص معاشرتی اصلاح کے لحاظ سے مومن کا قول اور فعل بھی عبادت بن جاتا ہے۔ مثلاً کسی کو اچھا مشورہ دے دینا کسی کے بارے میں اچھی سوچ رکھنا۔ کسی پیاسے کو پانی پلا دینا، کسی بھوکے کو ایک لقمہ روٹی کا کھلا دینا وغیرہ وغیرہ۔ اس کی بے شمار مثالیں بن سکتی ہیں اور ان میں سے ہر ایک مثال تفصیلی بحث کا تقاضا کرتی ہے۔ کیوں کہ یہ چھوٹی چھوٹی اچھائیاں اور نیکیاں جو مبنی بر خلوص ہوں انسان کے لئے نجات کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں اور کاموں سے معاشرے کی اصلاح ہوتی ہے اور لوگ ایک دوسرے سے قلبی محبت کرتے ہیں۔ ایک مستحکم اور بہترین معاشرہ بذاتِ خود لوگوں کو ذہنی و قلبی سکون فراہم کرتا ہے۔ جہاں لوگ ایک دوسرے سے الفت و محبت کو پروان چڑھاتے ہیں تو وہاں خوشی و شادمانی خوشحالی میں بدل جاتی ہے۔انہی چھوٹی چھوٹی نیکیوں میں سے ایک نیکی حسنِ ظن [خوش گمانی]ہے اور یہ ایسی عبادت ہے جس پر ہر انسان کو نہ بدنی مشقت اٹھانی پڑتی ہے اور نہ ہی مالی قربانی دینی پڑتی ہے۔ صرف اپنی سوچ اور فکر کو مثبت سمت کی طرف گامزن کرنا ہوتا ہے اور ایسا کرنے والا شخص بغیر کوئی مشقت اٹھائے بارگاہِ الٰہی سے اجر و ثواب سمیٹنے لگ جاتا ہے۔فرض کریں دو آدمی کسی پارک میں بیٹھے محو گفتگو ہیں اور اپنی کسی پریشانی کو مل کر حل کرنے پر ایک دوسرے سے مشورہ اور معاونت لے رہے ہیں، پاس سے گزرنے والا شخص ان کے بارے میں اچھا سوچتا ہے کہ وہ مسلمان ہونے کے ناطے یقینا کوئی اچھی بات ہی کر رہے ہوں گے،اس طرح اس نے بغیر کوئی مشقت اٹھائے اللہ تعالیٰ سے اجر حاصل کر لیااور اگر گزرنے والا شخص یہ گمان کرتا ہے کہ یہ دونوں چور ہیں اور چوری کی پلاننگ کر رہے ہیں اور اس بات کو آگے پھیلا دیتا ہے، اگرچہ اسے اس سے کوئی مادی فائدہ حاصل نہ ہوگا لیکن بد گمانی کی وجہ سے اس کے نامہء اعمال میں بد گمانی کا گناہ لکھ دیا جائے گا۔

اصل چیز حسنِ ظن ہے اور مسلمان کو حسنِ ظن رکھنے کا ہی حکم دیا گیا ہے۔ سوئے ظن تو کسی دلیل کی وجہ سے کیا جاتا ہے لیکن بغیر کسی دلیل کے خواہ مخواہ بدگمانی کرنا اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسندیدہ ہے،بد گمانی کرنا مومن کی شان نہیں۔مومن کی شان یہ ہے کہ وہ حسنِ ظن سے کام لیتا ہے۔ سید نا عمر فاروق اعظمؓ فرماتے ہیں:

“جو بھی بات تیرے مومن بھائی کی زبان سے نکلے تو اس کے متعلق اچھا گمان کر، جب تک تو اس کی کوئی بھی تاویل کر سکتا ہو” ۔

قرآن کریم میں خوش گمانی کا حکم اور بدگمانی سے بچنے کی تاکید

اللہ عَزَّ وَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے:(لَوْ لَاۤ اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بِاَنْفُسِهِمْ خَیْرًاۙ-وَّ قَالُوْا هٰذَاۤ اِفْكٌ مُّبِیْنٌ ( النور: ۱۲) ” جب تم نے یہ بات سنی تھی تو مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں نے اپنے لوگوں کے ساتھ نیک گمان کیوں نہ کیا او رکیو ں نہ کہا کہ یہ صریح بہتان ہے ” مسلمان کو یہی حکم ہے کہ مسلمان کے ساتھ نیک گُمان کرے اور بدگُمانی سے بچے۔

پھر لوگوں کی ایک اور عادت کا ذکر فرمایا کہ وَمَا یَتَّبِعُ اَکۡثَرُہُمۡ اِلَّا ظَنًّا ؕ اِنَّ الظَّنَّ لَا یُغۡنِیۡ مِنَ الۡحَقِّ شَیۡئًا (یونس:۳۷) اور ان میں سے اکثر (اپنے) وہم کے سوا (اور کسی چیز کی) پیروی نہیں کرتے (حالانکہ) وہم حق کی جگہ کچھ بھی کام نہیں دیتا۔

سورة الحجرات میں اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر سوئےظن کا ذکر فرمایا اور اس سے بچنے کی تلقین فرمائی۔ ارشاد ربانی ہے:یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اجۡتَنِبُوۡا کَثِیۡرًا مِّنَ الظَّنِّ ۫ اِنَّ بَعۡضَ الظَّنِّ اِثْمٌ (الحجرات:۱۳)” ایمان والو اکثر گمانوں سے اجتناب کرو کہ بعض گمان گناہ کا درجہ رکھتے ہیں” سوءظن بہت سی برائیوں کی جڑ ہے۔اس سے تجسس اور پھر غیبت کی عادت پیدا ہوجاتی ہے۔اس بات کا پتا ہمیں اسی آیت مبارکہ کے اگلے حصہ سے ہوتا ہے جہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:وَلَا تَجَسَّسُوۡا وَلَا یَغۡتَبۡ بَّعۡضُکُمۡ بَعۡضًااور تجسس نہ کیا کرو۔ اور تم میں سے کوئی کسی دوسرے کی غیبت نہ کرے۔

حسنِ ظن کی تین قسمیں ہیں:

[1] پہلی قسم: اللہ تعالی کے ساتھ حسن ظن رکھنے کا حکم

۔ اسے امید کہتے ہیں اور یہی حسن ِعمل ہے۔ بندے کو حسنِ عمل پر جو چیز ابھارتی ہے وہ اس کا اللہ کے ساتھ یہ حسن ظن ہوتا ہے کہ وہ اسے اس کے اعمال پر جزا اور ثواب دے گا اور انہیں قبول کرے گا۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الأنصاري رضي الله عنه قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- قَبْلَ مَوْتِهِ بِثَلاَثَةِ أَيَّامٍ يَقُولُ « لاَ يَمُوتَنَّ أَحَدُكُمْ إِلاَّ وَهُوَ يُحْسِنُ الظَّنَّ بِاللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ. { صحیح مسلم :2877

"حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات سے تین دن قبل یہ فرماتے ہوئے سنا ، تم میں سے کسی شخص کو ہر گز موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ وہ اللہ تعالی کے ساتھ اچھا گمان رکھتا ہو”۔ {صحیح مسلم ، مسند احمد ، سنن ابو داود}

اللہ تبارک وتعالی ہی اس دنیا کا خالق و مربی ہے ، وہی تمام مخلوقات کی ہر قسم کی ضروریات پوری کرتا ہے ، وہی گناہوں سے تجاوز فرماتا اور توبہ قبول کرتا ہے ہر مسلمان پر واجب ہے کہ اللہ تعالی کے ساتھ حسن ظن اور اچھا گمان رکھے اور یہ عقیدہ رکھے کہ اللہ تعالی اسکے ساتھ رحمت و احسان کا معاملہ کرے گا دنیا وآخرت میں اسے اچھا بدلہ دیگا ، اللہ تعالی اسے کبھی بھی ضائع وبرباد نہیں کریگا گویا ہر حال میں بندے کو اللہ تعالی سے اچھی اور اچھے کی امید رکھنی چاہئے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زند گی میں مسلمانوں کو اللہ تعالی کے ساتھ حسن ظن کی تلقین کیا کرتے تھے اور فرماتے اللہ تعالی فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کروں گا جیسا وہ میرے بارے میں گمان رکھے گا اور جب وہ مجھے یاد کرتا ہے تو میں اسکے ساتھ ہوتا ہوں۔

[2] دوسری قسم : انسانوں کے ساتھ حسنِ ظن رکھنا۔ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ ان کے اقوال و افعال کو سب سے اچھے اور خوبصورت محمل (معنی) پر محمول کرے۔حسن ظن ہی ہے جس سے عبادتوں میں بھی حسن پیدا ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا قرب بھی حاصل ہوتا ہے۔ حسن ظن سے ایک دوسرے کے لئے دل میں عزت پیدا ہوتی ہے۔ جب عزت پیدا ہوجائے تو اس کا مزید فائدہ یہ ہوگا کہ کسی کے لئے برا سوچنے کا خیال پیدا نہیں ہوگا اور اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ دل کو سکون اور اطمینان ملے گا۔ غرضیکہ حسن ظن میں فائدے ہی فائدے ہیں۔ انسان ایک نیکی کرتا ہے تو اس سے اور نیکیاں جنم لیتی ہیں۔ اسی طرح حسن ظن سے کام لینے سے مزید نیکیاں کرنے کی توفیق ملتی ہے۔ اللہ تعالیٰ مومنوں میں محبت، پیار اور بھائی چارہ پیدا کرنا چاہتا ہے اور یہ حسن ظن سے پیدا ہوتا ہے۔

[3] تیسری قسم: اپنے آپ سے حسن ظن رکھنا۔ یہ مذموم ہے۔ کیونکہ یہ اِس شخص کو اپنے نفس کا کامل مراقبہ کرنے سے روکتا ہے اور اس پر امور کو مشتبہ بنا دیتا ہے، جس کی وجہ سے اسے برائیاں اچھائیاں نظر آتی ہیں اور معیوب باتیں خوبیاں دکھائی دینے لگتی ہیں۔ جو شخص اپنے آپ سے حسن ظن رکھتا ہے وہ اپنے آپ سے سب سے زیادہ ناواقف شخص ہے۔

حسن ظن کے فوائد

1- حسن ظن ایک جائزوحلال، باعث اجر وثواب وجنت میں لے جانے والا کام ہے۔

2- حسن ظن سے احترامِ مسلم پیدا ہوتا ہے۔

3- حسن ظن سے بدگمانی دور ہوجاتی ہے۔

4- حسن ظن سے دلی کینہ دور ہوجاتا ہے۔حسن ظن سے بغض اور حسد دور ہوتا ہے۔

5- حسن ظن سے دل میں مسلمانوں کی محبت پیدا ہوتی ہے۔

6- حسن ظن سے ناجائز دشمنی ختم ہوجاتی ہے۔

7- حسن ظن سے بدلہ لینے کی چاہت ختم ہوتی ہے۔

8- حسن ظن سے عفوودرگزرکی سعادت نصیب ہوتی ہے۔

9- حسن ظن سے سکونِ قلب نصیب ہوتا ہے۔

10- حسن ظن کرنے سے بندہ غیبت سے بچ جاتا ہے۔

11- حسن ظن کرنے سے آپس میں محبت بڑھتی اور نفرت ختم ہوتی ہے۔

12- حسن ظن کرنے میں مسلمانوں کی عزت کا تحفظ ہے۔

13- حسن ظن کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس میں کوئی نقصان نہیں اور بدگُمانی میں کوئی فائدہ نہیں۔

بدگمانی کی ہلاکتيں ونقصانات

1- بدگمانی ایک ناجائزوحرام اورجہنم میں لے جانے والا کام ہے۔

2- بدگمانی سے احترامِ مسلم ختم ہو جاتا ہے۔

3- بدگمانی حسن ظن کی دشمن ہے۔

4- بدگمانی برترین جھوٹ ہے۔

5- بدگمانی سے دلی کینہ پیداہوجاتا ہے۔

6- بدگمانی سے بغض اور حسد پیدا ہوتا ہے۔

7- بدگمانی سے دل میں مسلمانوں کی نفرت پیدا ہوتی ہے۔

8- بدگمانی سے ناجائز دشمنی پیداہوجاتی ہے۔

9- بدگمانی سے بدلہ لینے کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔

10- بدگمانی عفوودرگزرکی سعادت سے محروم کردیتی ہے۔

11- جس نے اپنے مسلمان بھائی سے برا گمان رکھا اس نے اپنے ربّ سے برا گمان رکھا۔

12- بدگمانی سے سکونِ قلب ختم ہوجاتا ہے۔

13- بدگمانی کرنے سے بندہ غیبت میں بھی مبتلا ہو جاتا ہے۔

14- بدگمانی کرنے سے آپس میں نفرت بڑھتی اور محبت ختم ہوتی ہے۔ بدگمانی کرنے میں مسلمانوں کی عزت کی پامالی بھی ہے۔

15- بدگمانی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اس میں کوئی فائدہ نہیں۔

 

حسن ظن کام لیجے بد گمانی پھر سہی

بے تکلف اور کیجے مہربانی پھر سہی

کس میں ہمت ہے فریدیؔ کون یہ ان سے کہے

مسکرا کر حال سن لو لن ترانی پھر سہی

 

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بدگمانی جیسی بدترین اخلاقی برائی کو کسی بھی صورت میں پیدا ہونے کا موقع نہ دیں اور جہاں تک ممکن ہو حسنِ ظن اور باہمی اتفاق اور بھائی چارے کا ماحول پیدا کریں، تاکہ آقائے دو جہاں ﷺ کے حسب ارشاد بدگمانی پنپ نہ سکے ۔

بدگمانی سے بچتے ہوئے حسن ظن کے مواقع تلاش کیجئے: آپ کی دعوت میں نہ پہنچنے والے اسلامی بھائی نے ملاقات ہونے پر اپنا کوئی عذر پیش کیا تو حسن ظن سے کام لیتے ہوئے اس کے عذر کو قبول کرلیجئے۔آپ نے اپنی اولاد کو کوئی کام بولا وہ نہ کرسکی تو حسن ظن سے کام لیجئے کہ ہوسکتا ہے ان کے ذہن سے نکل گیا ہو۔کسی کو فون کیا اور وہ نہ اٹھائے تو حسن ظن سے کام لیجئے کہ ہوسکتا ہے وہ کہیں مصروف ہو۔اسی طرح آپ کے میسیج کا جواب نہ آئے تو یوں حسن ِظن کیجئے کہ ہوسکتا ہے ابھی تک انہوں نے میسیج ہی نہ پڑھا ہو، یا پڑھنے کے بعد ان کے ذہن سے نکل گیا ہو۔آپ نگران ہیں، ماتحت نہ آیا یا لیٹ ہوگیا تو حسن ظن سے کام لیجئے کہ بس لیٹ ہوگئی ہوگی، یا ہوسکتا ہے اس کے ساتھ کوئی مسئلہ پیش آگیا ہو، یاہوسکتا ہے اس کی طبیعت ناساز ہو۔آپ نے کسی کو بلایا اس نے توجہ نہ دی تو حسنِ ظن کرلیجئے کہ ہوسکتا ہے اس تک آپ کی آواز پہنچی ہی نہ ہو۔آپ نے کسی کو کھانے کی دعوت دی، اس نے قبول نہ کی تو حسن ظن سے کام لیجئے کہ ہوسکتا ہے اس نے پہلے ہی کھانا کھا لیا ہو، یا ہوسکتا ہے اس کا نفلی روزہ ہو۔دو افراد سرگوشی کررہے ہوں تو حسنِ ظن سے کام لیجئےکہ ہوسکتا ہے کوئی ضروری گفتگو کر رہے ہوں۔کسی نے قرض لیا اور رابطے میں نہیں آرہا تو حسن ظن سے کام لیجئے کہ ہو سکتا ہے کہیں مصروف ہوگا۔الغرض والدین و اولاد، بھائی و بہن، زوج و زَوجہ، ساس و بہو، سسر و داماد، نند و بھاوَج بلکہ تمام اہلِ خانہ و خاندان نیز اُستاد و شاگرد، سیٹھ و نوکر، تاجر و گاہک، اَفسرو مزدور، حاکم و محکوم یہ تمام لوگ اپنے اپنے مختلف معاملات میں حسن ظن قائم کرنے کی ترکیب بناسکتے ہیں، واضح رہے کہ بدگمانی کے مواقع تو بہت ہوتے ہیں کیونکہ ان میں شیطان کی معاونت ہوتی ہے لیکن عموماً حسن ظن کے مواقع بہت کم نظر آتے ہیں، حالانکہ بندہ تھوڑا سا غور کرے تو وہ تمام مواقع جہاں شیطان ہم سے بدگمانی کرواتا ہے حسن ظن سے کام لیاجاسکتا ہے، بس کوشش کرنا شرط ہے۔حسن ظن کی دعا کیجیےکیونکہ حسن ظن اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ہے، حسن ظن کے سبب رحمت الٰہی بندے کی طرف متوجہ ہوجاتی ہے، لہٰذا بارگاہِ الٰہی میں حسن ظن کی دعا یوں کیجئے، یَااللہ عَزَّ وَجَلَّ! میری سوچ کو پاکیزہ فرماکر مجھے حسن ظن کی دولت عطا فرما، بدگمانی کو مجھ سے دُور فرمادے۔ {آمين}

 

محمد انعام الحق قاسمی

لجنہ علمیہ ، ریاض، مملکت سعودی عرب

2 مئی 2024ء موافق 22 شوال 1445ھ

======:::======

Comments are closed.